کہانی بناؤ
میں صحرا کی تپتی ہوئی ریت
کے سنگ اڑتا ہوا ایک آوارہ کاغذ
کہاں سے چلا تھا کہاں آ گیا ہوں
وہ سب داستانیں جو مجھ پہ لکھی تھیں
وہ کچھ بارشوں اور کچھ آندھیوں کی غذا بن چکی ہیں
کہ پھیلی ہوئی روشنائی کے دھبوں نے
میرے بدن کو دھواں کر دیا ہے
مرے لفظ لفظوں سے یوں مل گئے ہیں
کہ پڑھنا بھی چاہو تو پڑھ نہ سکو گے
یہاں کیا لکھا تھا وہاں کیا لکھا تھا
تمہیں ہے تجسس مری داستاں کا
تو آؤ مرے ساتھ کچھ دیر آؤ
مگر یاد رکھو
تمہاری طرح کے مری داستاں میں
ہزاروں پڑے ہیں
جنہیں بس فسانے بنانے کی خاطر
یوں ہی کاغذوں کو اٹھانے کی دھن ہے
مگر میں وہ کاغذ وہ کاغذ نہیں ہوں
جو کمروں کے کونوں سے آتے کہ جاتے ہوئے ہاتھ آئے
فسانے سنائے
میں اک داستاں ہوں
مرا باب اول ہے صحرا کہانی
جھلستی تڑپتی ہوئی زندگانی
کہیں پہ میں تیشہ کہیں تیر ہوں میں
کہیں پہ میں مجنوں کہیں ہیر ہوں میں
ہواؤں کے جھونکوں کے رحم و کرم پر
میں اڑتا ہوا ایک آوارہ کاغذ
گماں کا نہیں اک یقیں کا امیں ہوں
مری جستجو ہے تو صحرا میں آؤ
کہ چھالوں کی لذت کے صدمے اٹھاؤ
کہ کچھ ریت اوڑھو کہ کچھ ریت پھانکو
کہانی بناؤ
تمہیں یہ کہانی گوارہ نہیں تو
ہزاروں مزین فسانے پڑے ہیں
انہیں جا کے دیکھو وہیں ڈوب جاؤ
میں آوارہ کاغذ پہ لکھی ہوئی
خونچکاں داستاں ہوں
فسانہ سمجھ کر مجھے بھول جاؤ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.