کراچی کا مواصلاتی مشاعرہ
دلچسپ معلومات
2002 میں کراچی میں ہونے والے ایک مزاحیہ مشاعرے میں اس خاکسار نے بھی بذریعہ ٹیلی فون نیویارک سے اپنا کلام سنایا تھا
اہل ادب نے پھر یہ کیا تجربہ نیا
شاعر مواصلات کی دنیا پہ چھا گیا
مریخ پر مشاعرہ کر لو کہ مون پر
ہم تو اب اپنے شعر سنائیں گے فون پر
شاعر ادھر ہے، صدر ادھر، سامعین ادھر
میں پھونک مارتا ہوں تو بجتی ہے بین ادھر
دولہا کو فاصلے پہ رکھا ہے برات سے
مطلب یہ ہے کہ دور رہو شاعرات سے
امریکہ سے غزل جو پڑھی ہم نے لہر میں
گونجی ہے اس کی داد کراچی کے شہر میں
شعروں میں آ گیا ہے جو مغرب کا رنگ خاص
محسوس ہو رہا ہے کہ شاعر ہے بے لباس
کس حال میں کلام بلاغت ہوا عطا
شاعر ہے باتھ روم میں سامع کو کیا پتا
بے شک مواصلاتی قدم انقلابی ہے
اٹکے جہاں پہ کہہ دیا فنی خرابی ہے
شاعر نے شعر عرض کیا رامپور سے
مصرعہ اٹھا دیا ہے کسی نے قصور سے
شاعر نے جب بیاض نکالی جہاز میں
گونجی ہیں ''واہ وا'' کی صدائیں حجاز میں
راکٹ کی طرح شعر گرے سامعین پر
شاعر ہے آسماں پہ تباہی زمین پر
پہلے یہ حکم تھا کہ دلائل سے شعر پڑھ
اور اب یہ کہہ رہے ہیں موبائل سے شعر پڑھ
کہتے تھے پہلے شعر کو مصرعہ اٹھا کے پڑھ
اور اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈائل گھما کے پڑھ
کہنے لگے برائی کو دوزخ میں جھونک دے
مائک سے دور ہے تو ریسیور میں بھونک دے
جب داد مل رہی تھی مجھے سامعین سے
اک شعر لڑ گیا تھا کسی مہہ جبین سے
میں نے جو فاصلوں کی یہ دیوار پاٹ دی
صدر گرامی نے مری لائن ہی کاٹ دی
- کتاب : excuse me (Pg. 81)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.