Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حسن اور مزدوری

جوش ملیح آبادی

حسن اور مزدوری

جوش ملیح آبادی

MORE BYجوش ملیح آبادی

    ایک دوشیزہ سڑک پر دھوپ میں ہے بے قرار

    چوڑیاں بجتی ہیں کنکر کوٹنے میں بار بار

    چوڑیوں کے ساز میں یہ سوز ہے کیسا بھرا

    آنکھ میں آنسو بنی جاتی ہے جس کی ہر صدا

    گرد ہے رخسار پر زلفیں اٹی ہیں خاک میں

    نازکی بل کھا رہی ہے دیدۂ غم ناک میں

    ہو رہا ہے جذب مہر خونچکاں کے روبرو

    کنکروں کی نبض میں اٹھتی جوانی کا لہو

    دھوپ میں لہرا رہی ہے کاکل عنبر سرشت

    ہو رہا ہے کمسنی کا لوچ جزو سنگ و خشت

    پی رہی ہیں سرخ کرنیں مہر آتش بار کی

    نرگسی آنکھوں کا رس مے چمپئی رخسار کی

    غم کے بادل خاطر نازک پہ ہیں چھائے ہوئے

    عارض رنگیں ہیں یا دو پھول مرجھائے ہوئے

    چیتھڑوں میں دیدنی ہے روئے غمگین شباب

    ابر کے آوارہ ٹکڑوں میں ہو جیسے ماہتاب

    اف یہ ناداری مرے سینے سے اٹھتا ہے دھواں

    آہ اے افلاس کے مارے ہوئے ہندوستاں!

    حسن ہو مجبور کنکر توڑنے کے واسطے

    دست نازک اور پتھر توڑنے کے واسطے

    فکر سے جھک جائے وہ گردن تف اے لیل و نہار

    جس میں ہونا چاہیئے پھولوں کا اک ہلکا سا ہار

    آسماں جان طرب کو وقف رنجوری کرے

    صنف نازک بھوک سے تنگ آ کے مزدوری کرے

    اس جبیں پر اور پسینہ ہو جھلکنے کے لیے

    جو جبین ناز ہو افشاں چھڑکنے کے لیے

    بھیک میں وہ ہاتھ اٹھیں التجا کے واسطے

    جن کو قدرت نے بنایا ہو حنا کے واسطے

    نازکی سے جو اٹھا سکتی نہ ہو کاجل کا بار

    ان سبک پلکوں پہ بیٹھے راہ کا بوجھل غبار

    کیوں فلک مجبور ہوں آنسو بہانے کے لیے

    انکھڑیاں ہوں جو دلوں میں ڈوب جانے کے لیے

    مفلسی چھانٹے اسے قہر و غضب کے واسطے

    جس کا مکھڑا ہو شبستان طرب کے واسطے

    فرط خشکی سے وہ لب ترسیں تکلم کے لیے

    جن کو قدرت نے تراشا ہو تبسم کے لیے

    نازنینوں کا یہ عالم مادر ہند آہ آہ

    کس کے جور ناروا نے کر دیا تجھ کو تباہ؟

    ہن برستا تھا کبھی دن رات تیری خاک پر

    سچ بتا اے ہند تجھ کو کھا گئی کس کی نظر

    باغ تیرا کیوں جہنم کا نمونہ ہو گیا

    آہ کیوں تیرا بھرا دربار سونا ہو گیا

    سر برہنہ کیوں ہے وہ پھولوں کی چادر کیا ہوئی

    اے شب تاریک تیری بزم اختر کیا ہوئی

    جس کے آگے تھا قمر کا رنگ پھیکا کیا ہوا

    اے عروس نو ترے ماتھے کا ٹیکا کیا ہوا

    اے خدا ہندوستاں پر یہ نحوست تا کجا؟

    آخر اس جنت پہ دوزخ کی حکومت تا کجا؟

    گردن حق پر خراش تیغ باطل تا بہ کے؟

    اہل دل کے واسطے طوق و سلاسل تا بہ کے؟

    سر زمین رنگ و بو پر عکس گلخن تا کجا؟

    پاک سیتا کے لیے زندان راون تا کجا؟

    دست نازک کو رسن سے اب چھڑانا چاہیئے

    اس کلائی میں تو کنگن جگمگانا چاہیئے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے