دوپہر کا وقت گرما کی ہوائیں تیز تر
مہر کی تابش سے پگھلے جا رہے ہیں دشت و در
گرم ہے نہروں کا پانی سرد ہے نبض بہار
خشک پتے جیب و دامن کر رہے ہیں تارتار
جل رہا ہے سبزۂ بے رنگ فرش خاک پر
بھن رہا ہے دھوپ کی تیزی سے گیتی کا جگر
تند جھونکے آ رہے ہیں دامن کہسار سے
سر زمین رنگ و بو پر آگ برساتے ہوئے
جانور سب مارے مارے پھر رہے ہیں کھیت میں
جیسے کوئی کروٹیں لیتا ہو تپتی ریت میں
ہائے وہ مزدور جس کے پائے ہمت پر نثار
سنگ دل سرمایہ داری کا سر نا پائیدار
جس کے بل بوتے پہ اتراتی ہے لیلائے زمیں
جس کی ہیبت سے لرز جاتا ہے چرخ عنبریں
ڈوبتی نبضوں میں دوڑاتا ہے جو خون حیات
جس کے دم سے جگمگا اٹھتی ہے بزم کائنات
جس کی نظروں سے چمکتا ہے تمدن کا شباب
سرنگوں ہے جس کے آگے عہد نو کا آفتاب
ہو نہیں سکتا کہ وہ آرام لے دن کو کبھی
کفر ہے مذہب میں اس کے کاہلی کی زندگی
زندگی کیا موت سے ڈرتا نہیں مرد حزیں
پھر بھی اس دنیا میں کوئی پوچھنے والا نہیں
آج بھی ہے اس بلا کی دھوپ میں مصروف کار
گو محل عیش میں بد مست ہے سرمایہ دار
کیا کھڑا تکتا ہے صورت عہد حاضر کے جواں
ہاں مٹا دے دشمن انصاف کا نام و نشاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.