ماں
ماں ترا پیار میں ڈوبا ہوا چہرہ مجھ کو
آج بھی یاد جب آتا ہے تو رو دیتا ہوں
آج بھی تیرے تکلم سے سماعت میری
یوں مہکتی ہے کہ جیسے تو مرے سامنے ہے
آج بھی تیری دعاؤں کے گھنے سائے میں
میری سانسوں کا یہ نادیدہ سفر جاری ہے
اے مری ماں
اے مرے پیار میں ڈوبی ہوئی ماں
آج بھی قبر پہ جب آ کے تری بیٹھتا ہوں
گھیر لیتی ہیں مجھے کتنی ہی یادیں تیری
ایسا لگتا ہے مرے سامنے تو بیٹھی ہے
اور میں گود میں سر رکھ کے تری لیٹا ہوں
اور تو پیار سے آنچل میں چھپائے مجھ کو
ساری دنیا کی بلاؤں سے بچائے ہوئے ہے
اے مری ماں
اے مرے پیار میں ڈوبی ہوئی ماں
مری آنکھوں میں ہیں رقصاں وہ مناظر سارے
جن میں ماں باپ بہن بھائی سبھی روشن ہیں
یاد آتا ہے مجھے گھر کا وہ آنگن دالان
جس میں ہر سمت کھلے تھے تری ممتا کے گلاب
اور وہ تخت وہ چوکی وہ مسہری وہ پلنگ
بیٹھ کر جس پہ تو مصروف دعا رہتی تھی
اپنے بچوں کے لئے شام و سحر مرتی تھی
اے مری ماں
اے مرے پیار میں ڈوبی ہوئی ماں
میں تجھے کیسے بتاؤں کہ یہ آنکھیں میری
آج تک بھول نہیں پائی ہیں چہرا تیرا
آج بھی ڈھونڈھتی رہتی ہیں نگاہیں تجھ کو
آج بھی دیکھتی رہتی ہیں سراپا تیرا
اے مری ماں
اے مرے پیار میں ڈوبی ہوئی ماں
تو نہیں ہے تو حوادث سے بھری دنیا میں
کون اب مجھ کو بلاؤں سے بچانے کے لئے
کوئی تعویذ گلے میں مجھے پہنائے گا
کون قرآن مقدس کی ہوا دے گا مجھے
کون منت کے مری آ کے بھرے گا کونڈے
کون باندھے گا مرے بازو پہ تعویذ امام
کون پہنائے گا اب سبز قبائے درویش
کون اب مجھ کو محرم میں بنائے گا فقیر
اب تو وہ پان کے بیڑے کی روایت بھی نہیں
وقت رخصت جو ترے ہاتھ سے کھا لیتا تھا
اے مری ماں
اے مرے پیار میں ڈوبی ہوئی ماں
اب یہاں کچھ بھی نہیں ہے تری یادوں کے سوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.