اے مرے ہمدم دیرینہ کئی دن پہلے
تجھ پہ لکھی ہوئی تحریریں جلا دیں میں نے
ایک مصرع جو قریب دل محزوں تھا بہت
ایک بوسیدہ سے کاغذ پہ اسے رہنے دیا
وہ کسی شاعر گمنام کا مصرع تھا مگر
ایسا لگتا تھا کہ برسوں کی شناسائی ہو
جی میں آتا ہے سبھی کو وہ سنا دوں لیکن
سوچتا ہوں کہ یہ پیمان وفا کے ہے خلاف
ایسا کرنے سے مرے عہد کا دم ٹوٹے گا
کچھ نہ ٹوٹے بھی تو الفت کا بھرم ٹوٹے گا
ہاں مگر ضبط کو سینے سے لگا کر رکھنا
ایک مدت ہی تو جینے کا مزا دیتا ہے
اس لیے آج تکلف نہ کروں گا کچھ بھی
چاہے یہ فعل مری جان اذیت ٹھہرے
سارے عالم میں تماشائے وفا ہو کہ نہ ہو
اب زمانے کو سناتا ہوں تو تو بھی سن لے
وہ کسی شاعر گمنام کا مصرع یوں ہے
ہم گنہ گار ہیں اقرار سے ڈر جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.