مجھ سا مبہوت عاشق
کیسی مخلوق تھی
آگ میں اس کا گھر تھا
الاؤ کی حدت میں
مواج لہروں کو
اپنے بدن کی ملاحت میں
محسوس کرتی تھی
لیکن وہ اندر سے
اپنے ہی پانی سے ڈرتی تھی
کتنے ہی عشاق
اپنی جوانی میں
پانی میں
اک ثانیہ
اس کو چھونے کی خواہش میں
نیچے عمق میں بہت نیچے اترے
مگر پھر نہ ابھرے
سمندر نے منتھن سے
ان کے وجودوں کو ضم کر لیا
دودھیا جھاگ نے
اور کہنہ نمک نے
انہیں اپنی تیزابیت میں گھلایا
بھڑکتی ہوئی آگ نے
جزر و مد میں لپیٹا انہیں
سر سے پا تک جلایا
مگر کوئی شعلوں سے کندن سا
سیپوں سے موتی سا
باہر نہ آیا
وہ اب بھی سمندر میں
اٹھلاتی سطحوں کے نیلے بہاؤ میں
اپنے الاؤ میں
قصر زمرد میں تنہا بھٹکتی ہے
اک با آہ آب و آتش میں
رنگوں کی بارش میں
اب بھی وہ زلفیں جھٹکتی ہے
تو عود و عنبر کی مہکار آتی ہے
قطرات اڑ کر
دہن کتنے گھونگوں کا بھرتے ہیں
اس کی جھلک دیکھنے کے لئے
آج بھی لوگ مرتے ہیں
اب بھی یہاں کشتیوں آب دوزوں
جہازوں کے عرشوں پہ
اس کی ہی باتیں ہیں
دنیا کے سیاح
ساتوں سمندر کے ملاح
اس کے نہ ہونے پہ
ہونے پہ تکرار کرتے ہیں
اس کی کشش میں
بہت دور کے پانیوں میں
سفر کے لئے
خود کو تیار کرتے ہیں
میں بھی یہاں
مضطرب اور بے حال
خستہ و پارینہ تختے پہ بہتا ہوا
ایک خفتہ جزیرے کے نزدیک
کیا دیکھتا ہوں
کہ وہ ایک پتھر پہ بیٹھی ہے
پانی پہ طاری ہے
اک کیف سا
چاندنی کی لپک
اور ہوا کی مدھر لے پہ
مچھلی سا نیچے کا دھڑ اس کا
شفاف پانی میں ہلتا ہے
ابریشمیں نور میں
عکس سیماب سا
اس کے گلنا چہرہ پہ کھلتا ہے
اب دیکھیے
مجھ سا مبہوت عاشق
اسے اپنی آغوش میں کیسے بھرتا ہے
غرقاب ہوتا ہے
مرتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.