مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے خطاب
اے علی گڑھ اے جواں قسمت دبستان کہن
عقل کے فانوس سے روشن ہے تیری انجمن
حشر کے دن تک پھلا پھولا رہے تیرا چمن
تیرے پیمانوں میں لرزاں ہے شراب علم و فن
روح سر سیدؔ سے روشن تیرا مے خانہ رہے
رہتی دنیا تک ترا گردش میں پیمانہ رہے
ایک دن ہم بھی تری آنکھوں کے بیماروں میں تھے
تیری زلف خم نجم کے نو گرفتاروں میں تھے
تیری جنس علم پرور کے خریداروں میں تھے
جان و دل سے تیرے جلووں کے پرستاروں میں تھے
موج کوثر تھا ترا سیل ادا اپنے لئے
آب حیواں تھی تیری آب و ہوا اپنے لئے
علم کا پہلا سبق تو نے پڑھایا تھا ہمیں
کس طرح جیتے ہیں تو نے ہی بتایا تھا ہمیں
خواب سے طفلی کے تو نے ہی جگایا تھا ہمیں
ناز سے پروان تو نے ہی چڑھایا تھا ہمیں
موسم گل کی خبر تیری زبانی آئی تھی
تیرے باغوں میں ہوا کھا کر جوانی آئی تھی
لیکن اے علم و جسارت کے درخشاں آفتاب
کچھ بہ الفاظ دگر بھی تجھ سے کرنا ہے خطاب
گو یہ دھڑکا ہے کہ ہوں گا مورد قہر و عتاب
کہہ بھی دوں جو کچھ ہے دل میں تا کجا یہ پیچ و تاب
بن پڑے جو سعی اپنے سے وہ کرنا چاہئے
مرد کو کہنے کے موقع پہ نہ ڈرنا چاہئے
اے علی گڑھ اے ہلاک تابش وضع فرنگ
ٹیمز ہے آغوش میں تیرے بجائے موج گنگ
وادیٔ مغرب میں گم ہے تیرے دل کی ہر امنگ
ولولوں میں تیرے شاید عرصۂ مشرق ہے تنگ
کب ہے مغرب کعبۂ حاجت روا تیرے لئے
آ کہ ہے بے چین روح ایشیا تیرے لئے
کشتۂ مغرب نگار شرق کے ابرو بھی دیکھ
ساز بے رنگی کے جویا سوز رنگ و بو بھی دیکھ
نرگس ارزق کے شیدا دیدۂ آہو بھی دیکھ
اے سنہری زلف کے قیدی سیہ گیسو بھی دیکھ
کر چکا سیر اصل مرکز پر تو آنا چاہئے
اپنے گھر کی سمت بھی آنکھیں اٹھانا چاہئے
پختہ کاری سیکھ یہ آئین خامی تا کجا
جادۂ افرنگ پر یوں تیز گامی تا کجا
سوچ تو جی میں یہ جھوٹی نیک نامی تا کجا
مغربی تہذیب کا طوق غلامی تا کجا
مرد اگر ہے غیر کی تقلید کرنا چھوڑ دے
چھوڑ دے للہ بالاقساط مرنا چھوڑ دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.