نئے آدمی کی تلاش میں:
اور پھر یوں ہوا
جو پرانی کتابیں، پرانے صحیفے
بزرگوں سے ورثے میں ہم کو ملے تھے
انہیں پڑھ کے ہم سب یہ محسوس کرنے لگے
ان کے الفاظ سے
کوئی مطلب نکلتا نہیں ہے
جو تعبیر و تفسیر اگلوں نے کی تھی
معانی و مفہوم جو ان پہ چسپاں کئے تھے
اب ان کی حقیقت کسی واہمے سے زیادہ نہیں ہے
اور پھر یوں ہوا
چند لوگوں نے یہ آ کے ہم کو بتایا
کہ اب ان پرانی کتابوں کو
تہہ کر کے رکھ دو
ہمارے وسیلے سے
تم پر نئی کچھ کتابیں اتاری گئی ہیں
انہیں تم پڑھو گے
تو تم پر
صداقت نئے طور سے منکشف ہوگی
بوسیدہ و منجمد ذہن میں کھڑکیاں کھل سکیں گی
تمہیں علم و عرفان
اور آگہی کے خزینے ملیں گے
اور پھر یوں ہوا
ان کتابوں کو اپنی کتابیں سمجھ کر
انہیں اپنے سینے سے ہم نے لگایا
ہر اک لفظ کا ورد کرتے رہے
ایک اک سطر کو گنگناتے رہے
ایک اک حرف کا رس پیا
اور ہمیں مل گیا
جیسے معنی و مفہوم کا اک نیا سلسلہ
اور پھر یوں ہوا
ان کتابوں سے
اک دن یہ ہم کو بشارت ملی
آنے والا ہے دنیا میں اب اک نیا آدمی
لے کے اپنے جلو میں نئی زندگی
ہم اندھیری گپھاؤں سے
اوہام کی تنگ گلیوں سے نکلیں گے
ہم کو ملے گی نئی روشنی
اور پھر یوں ہوا
لانے والے کتابوں کے
اور وہ بھی جو ان پہ ایمان لائے تھے
سب اپنے اپنے گھروں سے نکل کر
کسی سمت کو چل پڑے
ایسے اک راستے پر
جدھر سے نیا آدمی
آنے والا تھا
یا ہم کو اس کا یقین تھا
کہ وہ آئے گا
اور اسی سمت سے
بس اسی سمت سے آئے گا
اور پھر یوں ہوا
دیر تک ہم نئے آدمی کے رہے منتظر
دیر تک شوق دیدار کی اپنی آنکھوں میں مستی رہی
دیر تک اس کی آمد کا ہم گیت گاتے رہے
دیر تک اس کی تصویر
ذہنوں میں اپنے بناتے رہے
دیر تک اس خرابے میں اک جشن ہوتا رہا
اور پھر یوں ہوا
دیر تک
اور بھی دیر تک
جب نہ ہم کو ملا
آنے والے کا کوئی پتا
اس کے قدموں کی کوئی نہ آہٹ ملی
ہم نے پھر زور سے اس کو آواز دی
اے نئے آدمی!
اے نئے آدمی!
اور یہ آواز اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کے
بے نام صحراؤں سے لوٹ کے
پھر ہماری طرف آ گئی
اور پھر یوں ہوا
چند لوگوں نے سوچا
کہ شاید نیا آدمی
آئے گا اور ہی سمت سے
دوسرے چند لوگوں نے سوچا
اور پھر ہر طرف قافلے قافلے
اور پھر ہر طرف راستے راستے
اور پھر یوں ہوا
دیر تک اس نئے آدمی کی رہی جستجو
اس کو آواز دیتے رہے چار سو
کو بہ کو، قریہ قریہ اسے ہم بلاتے رہے
منزلوں، منزلوں
خاک اڑاتے رہے
اور پھر یوں ہوا
سب کے چہرے اسی خاک میں اٹ گئے
سب کی آنکھوں میں اک تیرگی چھا گئی
سب کو ڈسنے لگی راہ کی بے حسی
اور پھر سب وہ اک دوسرے کے لئے
اجنبی ہو گئے
اور پھر سب کے سب
دھند میں کھو گئے
اور پھر یوں ہوا
ہم نے پھر گھر پہ آ کر
کتابوں کے اوراق کھولے
انہیں پھر سے پڑھنے کی خاطر اٹھایا
ہر اک سطر پر غور کرتے رہے دیر تک
اور ہر لفظ کو
دوسرے لفظ سے جوڑ کر
سلسلہ حرف و نغمہ کا، صوت و صدا کا ملاتے رہے
اور پھر یاس و امید کے درمیاں
ڈھونڈتے ہی رہے اس نئے آدمی کا نشاں
اور ہمیں بس ملیں
اپنی آواز کی زرد، سوکھی ہوئی پتیاں
اور پھر یوں ہوا
ہم سے سورج کئی روز روٹھا رہا
آسمانوں سے اٹھتی رہیں
تہہ بہ تہہ بدلیاں
کالی کالی نظر آئیں سب وادیاں
کالے گھر، کالی دیواریں، کالی چھتیں
کالی سڑکوں پہ چلتی ہوئی کالی پرچھائیاں
یہ زمیں
کالے ساگر میں ٹوٹی ہوئی ناؤ کی طرح سے ڈگمگانے لگی
موت کی نیند آنے لگی
اور پھر یوں ہوا
ہم نے اپنے گھروں میں
جلائے خود اپنے دیے
ہم نے بکھرے ہوئے خواب، ٹوٹے ہوئے آئینے
پھر سے جوڑے
بجھے جسم کی راکھ سے
سر اٹھاتے ہوئے ایک ننھے سے شعلے کو
اور اپنے چہرے میں
اک اور چہرے کو دیکھا
پھر اپنے لہو کی صدائیں سنیں
اور اپنے لئے آپ اپنی کتابیں لکھیں
- کتاب : تیری صدا کا انتظار (Pg. 120)
- Author : خلیل الرحمن اعظمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.