پندرہ اگست
یہی وہ دن ہے آزادی کی جب پہلی بہار آئی
چمن میں ناچتی گاتی نسیم لالہ کار آئی
ہر اک ٹہنی پہ پھولوں کی قطار اندر قطار آئی
گھٹا کے روپ میں خود رحمت پروردگار آئی
شب تاریک کے پردے سے باہر آفتاب آیا
ہر اک ذرہ پکار اٹھا جہاں میں انقلاب آیا
یہی وہ دن ہے جب نخل تمنا میں ثمر آیا
غریبوں بیکسوں کے آہ و نالہ میں اثر آیا
غلامی کی شب یلدا کو پیغام سحر آیا
قفس اک خوب صورت آشیانہ پھر نظر آیا
پر پرواز مرغ شوق دل کو مل گئے پھر سے
تمناؤں کے پژمردہ شگوفے کھل گئے پھر سے
دل پر آرزو کو شان مستقبل کا خواب آیا
ہر اک ذرے کی خلوت گاہ میں خود آفتاب آیا
ستاروں کے حسیں جھرمٹ میں ہنستا ماہتاب آیا
زمیں اڑ کر فلک پر آ گئی وہ انقلاب آیا
نظر آنے لگے چاروں طرف سامان رعنائی
رگ و پے میں سرور آیا نظر میں روشنی آئی
نئی دنیا نئے ساماں نئی محفل نظر آئی
نئے رہرو نئے جادے نئی منزل نظر آئی
نئی الجھن نئے عقدے نئی مشکل نظر آئی
غرض طرفہ تماشا بزم آب و گل نظر آئی
ادھر امید کے روشن ستارے کچھ نظر آئے
ادھر شک کے گھنے سائے دل و جاں میں اتر آئے
یہی دن ہے ہوئے جب ملک خستہ حال کے ٹکڑے
ہوئے پنجاب کے ٹکڑے ہوئے بنگال کے ٹکڑے
اڑے تہذیب آدم کے سنہرے جال کے ٹکڑے
گرے کٹ کر کہیں ماں کے کہیں اطفال کے ٹکڑے
یہی وہ دن ہے جب اغیار کی امید بر آئی
سحر آئی وطن میں ظلمتیں لے کر مگر آئی
یہی وہ دن ہے جس کے ساتھ ساتھ آئی قیامت بھی
دلوں میں جاگ اٹھی نفرت بھی دیرینہ عداوت بھی
نہ کام آئی ہزاروں سال کی آپس میں الفت بھی
وہ حشر اٹھا کہ اب تک رو رہی ہے آدمیت بھی
جو ایوانوں میں رہتے تھے وہ بے گھر ہو گئے سارے
جو اپنے وقت کے قاروں تھے بے زر ہو گئے سارے
یہی وہ دن ہے جو آب بقا تیغ دو دم بھی ہے
یہی وہ دن ہے جو ابر کرم برق ستم بھی ہے
یہی وہ دن ہے جو دوزخ بھی ہے باغ ارم بھی ہے
کچھ احساس خوشی دل میں ہے کچھ احساس غم بھی ہے
نہ پوچھو ہم سے کیونکر زندگی کے دن گزرتے ہیں
یہ حالت ہو گئی ہے اب نہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.