پھیلتا پھیلتا شام غم کا دھواں
اک اداسی کا تنتا ہوا سائباں
اونچے اونچے مناروں کے سر پہ رواں
دیکھ پہنچا ہے آخر کہاں سے کہاں
جھانکتا صورت خیل آوارگاں
غرفہ غرفہ بہر کاخ و کو شہر میں
دفعتاً سیل ظلمات کو چیرتا
جل اٹھا دور بستی کا پہلا دیا
پنچھیوں نے بھی پچھم کا رستہ لیا
خیر جاؤ عزیزو مگر دیکھنا
ایک جگنو بھی مشعل سی لے کے چلا
ہے اسے بھی کوئی جستجو شہر میں؟
آسماں پر رواں سرمئی بادلو
ہاں تمہیں کیا اڑو اور اونچے اڑو
باغ عالم کے تازہ شگفتہ گلو
بے نیازانہ مہکا کرو خوش رہو
لیکن اتنا بھی سوچا، کبھی ظالمو!
ہم بھی ہیں عاشق رنگ و بو شہر میں
کوئی دیکھے یہ مجبوریاں دوریاں
ایک ہی شہر میں ہم کہاں تم کہاں
دوستوں نے بھی چھوڑی ہیں دال داریاں
آج وقف غم الفت رائیگاں
ہم جو پھرتے ہیں وحشت زدہ سرگراں
تھے کبھی صاحب آبرو شہر میں
لوگ طعنوں سے کیا کیا جتاتے نہیں
ایسے راہی تو منزل کو پاتے نہیں
جی سے اک دوسرے کو بھلاتے نہیں
سامنے بھی مگر آتے جاتے نہیں
اور جائیں تو آنکھیں ملاتے نہیں
ہائے کیا کیا نہیں گفتگو شہر میں
چاند نکلا ہے داغوں کی مشعل لیے
دور گرجا کے میناروں کی اوٹ سے
آ مری جان آ ایک سے دو بھلے
آج پھیرے کریں کوچۂ یار کے
اور ہے کون درد آشنا باورے!
ایک میں شہر میں، ایک تو شہر میں
- کتاب : Is Basti ke ik Kooche Men (Pg. 52)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.