کتابیں باندھ کر چلنے کو سب تیار بیٹھے ہیں
مگر چھٹی نہیں ملتی بڑے لاچار بیٹھے ہیں
ٹپکتی ایک جھنجھلاہٹ سی ہے چہرے سے بھی ان کے
پڑے ہیں سیکڑوں بل دیکھیے ماتھے پہ بھی ان کے
ہماری طرح شاید ماسٹر صاحب بھی ہیں بھوکے
ابھی جھلا کے دو لڑکوں کو وہ بھی مار بیٹھے ہیں
مگر چھٹی نہیں ملتی بڑے لاچار بیٹھے ہیں
ابھی چوتھی جماعت میں ہیں لیکن کیا قیامت ہے
پلندہ یہ کتابوں کا نہیں اٹھتا مصیبت ہے
بھلا اتنی بہت سی کاپیوں کی کیا ضرورت ہے
کہ جن کے واسطے بیچے ہوئے گھر بار بیٹھے ہیں
مگر چھٹی نہیں ملتی بڑے لاچار بیٹھے ہیں
یہ اپنے کام سے بچنے کا اچھا شاخسانہ ہے
وہ جب دیکھو یہی کرتے ہیں ان کا کیا ٹھکانہ ہے
یہ استادوں کی میٹنگ بھی بہانہ ہی بہانہ ہے
وہاں اڑتی ہیں گپیں ہم یہاں بے کار بیٹھے ہیں
مگر چھٹی نہیں ملتی بڑے لاچار بیٹھے ہیں
خدا جانے کہ یہ بیٹھے بٹھائے کیا خیال آیا
غریبی میں ستم ہم پہ بھلا یہ کس لیے ڈھایا
نیا ہو یونیفارم حکم یہ اسکول سے آیا
یہاں سینے کو ہم اپنی پھٹی شلوار بیٹھے ہیں
مگر چھٹی نہیں ملتی بڑے لاچار بیٹھے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.