شاہ دولہ چوہا
میں تھا ماندہ اداس
مقبرے کے پاس
ایک سبز حجلے میں
اپنے جمورے کا
بے چینی سے انتظار کر رہا تھا
مرجھائی ہوئی دھوپ
کاہی دولا شاہی
خانقاہ کی زرنگاہ
سیڑھیوں سے اترتی
دالان پار کرتی
حجرے کی سنہری جالیوں سے
چھن چھن گزرتی
مرمریں فرش پر
ٹوٹے ہوئے چتکبرے پروں کی طرح
ہلکان پڑی ہوئی تھی
ایک کونے میں
ہمالیائی سلک روٹ سے
اسمگل کیے ہوئے
بچیوں لڑکیوں عورتوں والے
چینی فولادی جوتے
پلوٹھی کے لڑکوں کے انتظار میں
پگھل پگھل کے
چھوٹی چھوٹی الٹے کٹوروں جیسی
بےپھندے کی آہنی
ترکی ٹوپیوں بنے بیٹھے تھے
میں چوریاں کرتا
سسکاریاں بھرتا
کراچی سے ملتان
ملتان سے لاہور
لاہور سے گجرات پہنچا تھا
طرح طرح کے گھناؤنے پیشوں
اور گھنے اندیشوں سے
لڑ بھڑ کے
فقیری اختیار کی تھی
یہی قومی مزاج
اور خطے کا رواج تھا
مگر دس برس تک
بھیک مانگ مانگ کے
تھک چکا تھا
ہمہ وقت منہ کھلا رکھنے
اور ہاتھ پھیلانے سے
انگلیاں اور ہتھیلیاں
دکھنے لگی تھیں
جبڑے کراہنے لگے تھے
ایک دور اندیش
پرنائے درویش کے
بر وقت مشورے پر
ادھر کا سفر اختیار کیا تھا
پانچ ہزار کی پوٹلی
خشخشی داڑھی والے
سجادہ نشین کے حوالے کر دی تھی
وہ ایک ناریکی سر والے
چودہ پندرہ برس کے ہنس مکھ
عجوبے کے ہم راہ
بغلی تہہ خانے میں
یہ کہہ کر اتر گئے تھے
آیا ابھی آیا
میں چڑھی دوپہر کا سایہ تھا
اب شام تلملا رہی تھی
سراسیمہ خیالوں میں
وسوسوں کے سنپولیے کلبلا رہے تھے
اچانک آواز آئی
صاحب ڈلیوری تیار ہے
تو کیا دیکھتا ہوں
بچارے مجاور کے
شانوں سے اکھڑے ہوئے
اور ٹوٹے ہوئے ہاتھ
مضبوط رسی سے
ننگی کمر پر بندھے ہیں
دیدوں پہ پٹی ہے
ہونٹوں پہ ٹانکے ہیں
گردن میں پٹا ہے
پٹے میں چمڑے کا
چوڑا سا تسمہ پڑا ہے
رضاکار چوہے نے
بلے کو میرے حوالے کیا
اور چپ چاپ آگے روانہ ہوا
اس کی جلتی ہوئی منتقم سرخ آنکھوں میں
صدیوں کے سوگ
جگر جگر جگمگا رہے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.