شہر اور میں
دل پہاڑوں پر چلا جائے کہ میدانوں میں ہو
بھیڑ میں لوگوں کی یا خالی شبستانوں میں ہو
شور پھر بھی تیز طوفانوں کی صورت ہر گھڑی
توڑتا رہتا ہے خلوت خواہ سینوں کا جمود
ریزہ ریزہ ہو گئے میری طرح کتنے وجود
اب نہیں ممکن کسی صحرا میں مجنوں کا ورود
ناتواں شخصیتیں برقی توانائی لیے
رات کے کالے بدن کو چاٹ کر ہیں مطمئن
جل رہا ہے ہر شجر اس شہر کا اب رات دن
اڑ رہے ہیں ہاتھ سے طوطوں کی صورت سال و سن
روشنی کا رنگ جیسے کچھ سمجھ آتا نہیں
شہر کی تہذیب کا رخ کس طرف ہے کیا پتہ
آدمی سادہ ہے یا خنجر بکف ہے کیا پتہ
کس لیے یہ شور مہمل صف بہ صف ہے کیا پتہ
میں نے ہر انداز سے سمجھا ہے سارے شہر کو
شہر جو خوابوں کے جنگل کے سوا کچھ بھی نہیں
عمر ساری چھین کر جس نے دیا کچھ بھی نہیں
جیسے میرے واسطے باقی رہا کچھ بھی نہیں
اپنے گالوں پر طمانچہ جڑ کے خوش ہو جاؤں میں
آج روشن قمقموں کے بیچ جاگا یہ شعور
یوں تو ہر موسم کے چہرے پر نمایاں ہیں سطور
اک پرندہ تک نہیں لیکن ہوا میں دور دور
مچھلیاں چھت پر سکھانے کے لیے جب خواہشیں
سیڑھیوں پر پاؤں رکھتی ہیں تو آ جاتی ہے چیل
ٹھونک دی جائے گی اب شاید سبھی ذہنوں میں کیل
اٹھ رہی ہے ہر طرف جلتے اندھیروں کی فصیل
گیروا کپڑوں میں لپٹا زرد مستقبل مجھے
مشورہ دیتا رہے گا اور میں مر جاؤں گا
- کتاب : Shoalon Ka Shajar (Pg. 32)
- Author : Chander Bhan Khayal
- مطبع : Sutoor Parkashan (1969)
- اشاعت : 1969
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.