شیر امداد علی کا میڈک
مگر تنگ نظر
مٹیالے تالاب میں
اس ادھ کھلے کنول پر
وہ بہار تھی
جو دیکھنے والی آنکھوں میں دھنک کھلاتی ہے
پھر پانی کا بلاوا الگ تھا
اس ساحرانہ کشش سے ہار کر
اپنا تہمد اتار کر
وہ مردہ پانی میں کود پڑے
جل کنبھی سے الجھے
تو ہفتے عشرے کے حمل کے مانند
نرم اور خام سروں والے
گل گتھنے
(صداکار میڈکوں کے
دم دار بچے)
شارک لہروں کے شور
سے ڈر کے
فرفر ہر طرف بھاگ کھڑے ہوئے
اور شیر امداد علی گلے گلے پانی میں تھے
اور کنول دور تھا....
بجلی چمکی
اور ایک دم دار آب خور
اس غبارے کی سرعت سے
جس میں ہوا بھری ہو
اور ہاتھ سے چھوٹ جائے
چھپکلی کی تلوار زبان کی طرح
سن سن کرتا ہوا
ان کے کھلے منہ کی سرنگ میں اتر گیا
دن گزرے
اور موسم بدلے
اور جگ بیت گئے
اک آواز تعاقب کرتی رہتی ہے:
''باہر آنے دو
اس زنداں سے باہر آنے دو''
درجنوں ڈاکٹروں اور سرجنوں کے
اکسرے کی خنک شعاعوں سے
جل کر دیکھ لیا
شہر بدل کر
ملک بدل کر دیکھ لیا
مگر لہو میں
وہی صدا ہلکورے لیتی ہے
''باہر آنے دو
اس زنداں سے باہر آنے دو''
شیر امداد علی پانی کی امانت غصب کیے
اپنے گھر میں زنجیر ہوئے بیٹھے ہیں
باہر پانی کھڑا ہے
اور پانی میں
پیپل کے پتوں کی طرح
سالے
خشمگیں آنکھوں والے
پیلے پیلے میڈک
اپنا گھیرا ڈالے
پڑے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.