کیا اب رات ایسے ہی
گزر جائے گی
یہ رات ہی تو ہے
جو تحلیل ہو جاتی ہے ایک نقطے میں
اور گھومتی ہے
میرے گرد کالے بھنبھناتے ہوئے
بھونرے کی طرح
وہ میرے کانوں مری آنکھوں
میری گردن اور میرے روئیں روئیں میں
بھنبھناتی ہے
میری بغلوں کے بالوں سے الجھتی ہوئی
میرے جسم کے کونے کھدروں میں
گدگداتی ہوئی
یہ رات میرے اوپر پھیل جاتی ہے
اچانک
اوڑھ لیتی ہے مجھے
میرے جسم کی پور پور میں
ایک جل ترنگ چھیڑ دیتی ہے
میں نیند میں اٹھتی ہوں
مرا حلق خشک ہو رہا ہے
پانی کا ایک گلاس ٹھنڈا یخ
میرے ہونٹوں میرے حلق میرے سینے
کو تر کرتا ہوا
میرے جسم کی جل ترنگ میں مل جاتا ہے
میں دروازے پر دستک دیتی ہوں
تم سن رہے ہو
رات کی جل ترنگ میرے جسم سے
پھوٹ رہی ہے
دروازہ کھلتا ہے
میں تمہارے آدھے ننگے بدن کو
دبوچ لیتی ہوں
تمہاری ناف کے گڑھے میں
ناک کی نوک گھسیڑتی ہوں
تم مسکرا رہے ہو
رات کی شرارت میرے جسم پر
پھیلے ہوئے دیکھ کر
تم ہنستے
رات کونوں کھدروں میں پھیل رہی ہے
میں تمہارے کپڑے اتار دیتی ہوں
اور وہ کھیل کھیلتی ہوں
جو رات میرے ساتھ کھیل رہی تھی
میں تمہارے جسم کے گرد
اپنی زبان اپنے دانتوں اور ناخنوں کے ساتھ
بھنبھنانے لگتی ہوں
تم مسکرا رہے ہو
تمہاری مسکراہٹ
میرے جسم کی پوروں کو اور کھول رہی ہے
میں زخمی کر دیتی ہوں تمہیں
تم ہنس رہے ہو
رات کے پروں پہ سوار بھونرے کی طرح
مجھے بھنبھناتے دیکھ کر
تمہاری کشادہ آنکھوں کے کونے
پھیلنے لگتے ہیں
تمہارا جسم اکڑ جاتا ہے
نہیں آج تم
تم کھلکھلاتے ہو
میں تمہارے اکڑے ہوئے جسم پر
اپنی کھلی ہوئی پوروں کو رکھ دیتی ہوں
تمہارا جسم رات کے جھاگ سے بھر جاتا ہے
تم ہنستے ہو
ہنستے ہی رہتے ہو
- کتاب : Jalta Hai Badan (Pg. 86)
- Author : Zahid Hasan
- مطبع : Apnaidara, Lahore (2002)
- اشاعت : 2002
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.