ذرا اپنی آنکھیں تو دینا
کہ دیکھوں تمہاری نظر سے
جہان تمنا
جہاں لوگ کہتے ہیں
نرگس نے اک پھول پھر سے جنا ہے
ہزاروں برس کی سزا جھیل کر
گماں اور افشاں کے رنگوں میں پھر سے
بہاروں کی خوشبو سفر کر رہی ہے
کہ لمحوں کی لہروں پہ ہر سو
نئی آرزو پر فشاں ہے
تمنا کی تنہائیاں منتظر ہیں
کہ شاید وہی وقت کا قافلہ
پھر ملے
جو ان کو سلا کر بتائے بنا چل دیا تھا
شکریہ
اپنی آنکھیں تو لو
ہمیں اپنی بے نوری اچھی
ہمیں کیا ملا
ہزاروں برس کا سفر
اور پھر
دیدہ ور
خود نظر خود گرفتہ
یہ پانی کے تختے پہ لٹکا ہوا پھول
گماں اور افشاں کے رنگوں کی ہجرت کا
تازہ نشاں
دے گیا داغ ہجرت کی اک دکھ بھری داستاں
یہ چشم تمنا
خدایا خودی تھی کہ تھی خود نمائی
یہ پھولوں کی دنیا بھی
اندھیر نگری ہے
اندھوں کی دنیا ہے
بے نور و بے خوف
انصاف اندھا ہے
پھولوں کو پھانسی کے پھندے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.