صلیب وقت
ایک گہری راز بھری چپ ہمیشہ اس کے چہرے پر کھیلتی رہتی جیسے خاموشی اس کے چہرے کا اہم حصہ ہو۔آنکھوں میں تا حدِ نظر سوچ کے دائرے ٹوٹتے پھیلتے اپنا گھر بناتے رہتے۔ماتھے پہ چند شکنیں وقت کے ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی تھی وہ بھی ضرورت کے تحت۔بہت کم لوگوں کو علم ہو پاتا کہ اب مزاج کے سمندر کی تہہ میں کون سا طوفان کروٹیں لے رہا ہے۔منجمد چہرے پر کئی کروٹیں کھلتی۔بندہ خواہ مخواہ پُراسرار سا لگنے لگتا۔مگر اس کے ساتھ یہ راز آج سے تو نہیں تھا۔شاید یہ اس کے پیدا ہونے سے اس کے ساتھ تھا۔دوست یار پوچھ پوچھ کر تھک ہار چکے تھے۔دوستی اور محبت کے دعوے کرنے میں وہ پوری طرح ناکام تھے۔وہ اپنے دوست کے چہرے کی شکنیں کبھی کم نہیں کر پائے۔ہمہ وقت چپ۔خوبصورت جاندار مردانہ ہونٹ۔دہکتے کوئلے۔جو کسی کو بھی جلا کر راکھ کر سکتے تھے۔مگر ان پر تو برف کے پہاڑ رکھے تھے۔شاید ہی کسی نے ان کو ہلتے دیکھا ہو گا۔بڑی بڑی مگر کسی گہری جھیل جیسی شربتی آنکھیں جو دنیا ڈبو دینے کوہمہ وقت تیار تھیں۔مگر وہ کسی ایک چیز پر اٹھتی تب تو کچھ ہوتا۔اوپر کو سلیقے سے جمے ہوئے بال،کسی لٹ کو ماتھے پرگستاخی کی اجازت نہیں تھی۔کوہ قراقرم سا اٹھا ہوا تیکھا ناک۔جو سانس لینے کے علاوہ رُعب ڈالنے کا کام بھی کرتا تھا۔صبیح پیشانی جس پرگویا سورج چمکتا تھا۔جیسے ا س سے شعاعیں پھوٹتی اور چہرے کا طواف کیے رکھتی۔ماتھے کی نمایاں رگ چہرے کو اور جلال بخش دیتی۔اس پراسرار چہرے میں کیا تھا۔تانبے اور سندور کا ملا جلادمکتا رنگ۔ جوانی بھی جیسے ٹوٹ کر برس رہی تھی۔چھ فٹ سے نکلتا قد اورتراشا ہوامجسمہ دیکھنے والے بُت بنے اس حُسن و جلال کے مجسمے کو دیکھتے۔ کیسے پڑھا؟کہاں رہا؟کیا کیا؟سب کچھ اک سر بستہ راز تھا۔نہ ماں کا پتہ نہ باپ کی خبر۔مگر چہرے سے خاندانی نجابت صاف اپنا پتہ دیتی تھی۔ کہ وہ کسی معمولی باپ کا بیٹا نہیں تھا۔کون تھا کہاں سے آیا،یہاں کب سے تھا،آگے پیچھے اس کے کون تھا۔ہر بندہ اس کی کھوج میں رہتا۔ دوست بھی جاسوس ہی بنے رہتے۔مگر ناکام۔وہ کیوں کھل کر کسی کو کچھ نہیں بتاتا تھا۔یوں یہ پتھر کبھی پگھلنے والا نہیں تھا۔وہ اپنے دفتر میں بیٹھا کسی فائل کو دیکھ رہا تھا۔جب اچانک ملازم نے بتایا کہ ایک وزیر زادی اس علاقے کی سیر کوآئی ہے۔وہ یہاں کے نئے ڈپٹی کمشنر سے ملنا چاہتی ہے۔کچھ دیر کوبڑی بڑی آنکھیں اوپر کو اٹھیں۔ملازم گڑبڑا گیا۔وہ جانتا تھا کہ صاحب فالتو لوگوں سے نہیں ملتے۔وہ کان لپیٹ کر واپس پلٹ گیا۔صاحب ضروری کام میں مصروف ہیں۔وہ بعد میں ملیں گے۔ کیا؟وہ اتنی بلند آواز سے چیخی کہ اس کے گارڈ نے ملازم کا گریبان پکڑ لیا۔کیا ہوا؟ میڈم کیوں ناراض ہیں؟یہ کون ہے جو ہم سے ملنے نہیں آیا۔وہ ہمیں جانتا نہیں ،ہم کون ہیں۔یہ سراسر ہماری توہین ہے۔ وزیرزادی جو خود بھی سیاست میں قدم رکھ چکی تھی۔سخت خفا تھی۔کیا کہا ڈپٹی کمشنر صاحب نے۔وہ جانتے ہیں نہ کہ وہ ہمارے آبائی علاقے میں ہیں۔سرکاری ملازم ہونے سے پہلے لوگ ہمارے ملازم ہوتے ہیں۔اس علاقے میں وہ ہمارے ملازم ہیں۔وہ ہمیں ملنے سے کیسے منع کر سکتے ہیں۔انہیں کہیے وہ آ کر معافی مانگیں۔وہ سخت سیخ پا تھی۔ملازم ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا۔بی بی صاحبہ وہ ذرا مختلف طبیعت کے آدمی ہیں۔ وہ کم ہی ملتے ہیں لوگوں سے۔آ۔۔آپ خود ہی چلی جائیں۔صائمہ شیرازی کے ماتھے پر کئی بل پڑ گئے۔وہ جرات اور نخوت سے بولی۔تم یہیں ٹھہرو اس نے گارڈ سے کہا۔اور خود آفس کے اندر چلی گئی۔وہ دروازے کی طرف پیچھا کیے کسی فائل کو دیکھنے میں مصروف تھا۔وہ کچھ دیر کمرے کو دیکھتی رہی۔انتہائی سادہ اور کتابوں سے بھرا ہوا۔بھینی بھینی خوشبو بھی تھی۔ایک گمبھیر سی آواز کمرے میں گونجی اور اس کے حواسوں پر چھا گئی۔واٹ از یور پرابلم ۔ٹیل می۔(What is your problem tell me) اب کے آواز میں کچھ نرمی تھی۔کرسی نہیں گھومی۔وہ بدستور اس کی طرف پیٹھ کئے ہوئے تھا۔اچانک وہ اس سحر سے نکلی۔اور چیخ اٹھی۔آپ خود کو کیا سمجھتے ہیں؟اتنا غرور کس بات پر ہے۔ہیں تو سرکاری ملازم۔میں خود ملنے آئی تھی۔مگر یہ عزت افزائی میں نہیں بھولوں گی۔آپ کو یہ تکبر مہنگا پڑ سکتا ہے۔وہ سر تاپا سلگ رہی تھی۔ شؤر(Sure)۔سوری میں ضرورکام میں مصروف ہوں۔اچانک وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ایک لحظہ کو آنکھیں صائمہ کے چہرے پر رُکی تھیں۔سوری کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔اور صائمہ اپنے حواس مجتمع کرتی رہی۔صرف ایک لمحہ۔اک انمٹ لمحہ۔ایک زندہ جاوید لمحہ۔اک لمحہ جو زندگی میں بنتا ہے اور شکار بھی کر لیتا ہے۔دو آنکھیں جو اس کے چہرے پرٹکی تھیں۔ دو آنکھیں جو اس وزیر زادی کو شکار کر گئیں۔وہ بے حس و حرکت کھڑی تھی۔۔سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ ہو اکیا تھا؟ اچانک گارڈ اندر آیا۔میڈم چلیں۔صائمہ شیرازی نے سر جھٹکا۔طنطنہ تھا نہ غصہ۔ رُعب تھا نہ غرور۔نخوت تھی نہ کوئی طراری۔وہ تو کوئی لوٹی پُٹی مسافر تھی۔منزل کہاں تھی؟
چوکڑی بھرنا بھول گئی تھی یہ ہرنی۔کتنے ہی دن گم صم سی رہی۔ماں نے ہزار بار پوچھا۔باپ کی اکلوتی لاڈلی۔ہنستے ہنستے یکدم اسے چپ لگ گئی۔کبھی کسی کو کچھ بتاتی بھی نہیں تھی۔ماں نے کتنی دفعہ پوچھا تھا۔باپ الگ پریشان۔صائمہ کے بغیر توکوئی گھر میں کھانا نہیں کھاتا تھا۔یہ کیا ہو گیا تھا۔اچانک شیرازی صاحب کو یاد آیاکہ وہ اپنے آبائی علاقے کی سیر کو گئی تھی۔جب واپس آئی تو یہ حالت تھی۔وہ بصیر پور گئی تھی۔ ٹیلوں اور وادیوں کے درمیان خوبصورت دیہات،کہیں کہیں جنگل بھی تھا ا ور جنگلی جانور بھی ۔بہت حسین اور سرسبز علاقہ تھا۔لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے۔پہاڑیوں اور ٹیلوں کی وجہ سے علاقہ کافی مشکل بھی تھا۔بصیر پور چونکہ تحصیل تھی۔لہذا یہاں ڈپٹی کمشنر صاحب کا آفس بھی تھا۔اور یہاں بازار بھی تھے۔ارد گرد کے دیہاتوں کے لوگوں کے کاروبار بھی تھے۔تھانہ بھی تھا۔سکول وکالج بھی تھے۔سڑکیں اور سیوریج کا نظام بھی تھا۔ سولہ لاکھ کی آبادی کا یہ شہر دوسرے بڑے شہروں سے کافی دور اور الگ تھلگ تھا۔اور اس علاقے سے منتخب ہونے والے ضمیر شیرازی ایم این اے اب وزیرِ آبپاشی تھے۔اور ان کی ایک ہی بیٹی تھی۔صائمہ شیرازی۔جس نے جرنلزم میں ایم اے کیا تھا۔اب ماس کمیونیکیشن میں کچھ اور کرنے کا ارادہ رکھتی تھی بلکہ سیاسیات بھی پڑھنے کا ارادہ رکھتی تھی۔دو دن پہلے ہی وہ اپنی آبائی حویلی میں آئی تھی۔ٹیلوں اور ندی نالوں کی سیر کرتے کرتے وہ تحصیل ہیڈ کوارٹر کی طرف نکل آئی۔تو اسے پتہ چلا کہ کچھ عرصہ پہلے ہی ایک نئے ڈپٹی کمشنر صاحب آئے ہیں۔عجیب پراسرار سا بندہ ہے۔کسی سے بات نہیں کرتا۔احکامات بھی دیکھ کر صادر کرتا ہے۔اور صائمہ شیرازی دیکھ کر ہنس پڑی۔اچھا وہ کوئی خلائی مخلوق ہے۔جی ایسا ہی ہے۔ایک کلرک نے تمسخر اڑایا۔ہم سے تو آج تک بات نہیں کی صاحب نے۔وہ شاید اپنا کوئی غصہ نکال رہا تھا۔ صائمہ نے توجہ نہیں دی۔۔چلتے چلتے وہ ڈپٹی کمشنر کے آفس کے سامنے رُکی۔ہوں تو مل لیا جائے ان سے بھی،وہ بالکل نارمل تھی۔باہر چوکیدار بیٹھا تھا۔وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔میڈم آپ ! اسلام علیکم۔وہ ہاتھ ماتھے تک لے آیا۔اور پھر اس کے بعد وہ اپنی نہ رہی تھی۔ گارڈ نے ساری کہانی شیرازی صاحب کے گوش گذار کی۔ہوں۔وہ سوچنے والے انداز میں گویا ہوئے۔ویسے اس بندے کی پروفائل کیا ہے؟ پتہ کرو۔اس کی ساری تفصیل مجھے چاہیے۔پھر اسے بلواؤں گا۔
ملے ہو اس سے۔نہیں صاحب۔میں تو کمرے سے باہر تھا۔اچانک ایک لمبا جوان آدمی باہر نکلا۔سب لوگ اسے دیکھ کر اٹین شن ہو گئے۔ میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا۔مگر صاحب بہت رُعب دار آدمی تھا۔ لوگ اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ہیں! تو پتہ کرو۔ایک ہفتے کے اندر اندر رپورٹ کرو۔وہ پُر سوچ انداز میں بیٹھے دور کی کوڑی لانے لگے۔ایسا کیا ہوا تھا،اس نے میری شہزادی سے کیا کہہ دیا کہ وہ چپ ہی ہو گئی۔اندر ہی اندر جلنے گھلنے لگی ہے۔اسے کچھ ہو نہ جائے۔میں اس بندے کو الٹا لٹکا دوں گا۔پریشانی کے عالم میں ماتھے پر ہاتھ رکھے وہ نجانے کیا کیا سوچتے جا رہے تھے۔صا ئمہ ۔ اچانک ہی اس کی خالہ زاد نائمہ کی آواز سنائی دی۔بچپن ہی سے گہری سہلیاں تھیں۔ صائمہ کی والدہ نے خاص طور پر اسے کراچی سے بلوایا تھا۔صائمہ! اور صائمہ جلدی سے اٹھ بیٹھی۔نائمہ تم!وہ کچھ لمحوں کو خوش ہو گئی۔ارے یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے میری شہزادی نے۔اٹھو جلدی سے تیار ہو جاؤ۔چائنیز چلتے ہیں۔تمہارے ساتھ چائنیز کھائے مدت ہو گئی۔صائمہ کو عجیب سی کسلمندی کا احساس تو ہوا۔کم کھانے پینے کی وجہ سے ویسے بھی کافی کمزوری محسوس کر رہی تھی۔آنکھوں کے گرد حلقے بن گئے تھے۔لگتا ہے کوئی عشق وشق کا چکر ہے۔صائمہ پھیکی سی ہنسی ہنس پڑی۔بڑا ہولناک،خطرناک اور خوفناک سا عشق لگتا ہے۔نائمہ چہکی۔جس نے زندگی سے بھر پور لڑکی کو یوں آدھ موا کر دیا ہے۔سارا وقت بولتے رہنے والی لڑکی کیسے چپ ہو گئی ہے۔وہ ہنس رہی تھی۔اور ادھر صائمہ کی آنکھیں ساون بھادوں بن گئیں۔وہ نائمہ کے کندھے پر سر رکھے ہچکیاں لے لے کر روتی رہی۔جب ذرا غبار کم ہوا تو نائمہ نے اسے پانی پلایا۔ ہُن۔ لگتا ہے معاملہ کافی سیریس ہے۔کچھ سوچنا پڑے گا۔چل باہر چلتے ہیں پھر اس بندے کا پروفائل بتا۔سیدھا کر دوں گی اسے۔ صائمہ جیسی حسین اور ذہین لڑکی کو دُکھ دینا ،زیر کرنا کوئی آسان کام ہے۔کچھ نہیں وہ آنسو صاف کرتی اٹھی۔واجبی سی تیاری کی۔ہلکی سی لپ سٹک لگائی۔چابی اٹھائی اور چل پڑی۔ڈرائیور جائے گا گاڑی لے کر۔والدہ صاحبہ نے کہا۔ٹھیک ہے خالہ۔زبیر! صائمہ اور نائمہ ۔بی بی کو لے جاؤ۔ساتھ رہنا۔جی بیگم صاحبہ۔وہ چائنیز ریسٹورنٹ میں بیٹھی سوپ پی رہی تھی۔جب صائمہ نے ساری سٹوری اس کے گوش گذار کی۔ ہن۔نائمہ نے پوری توجہ سے ساری بات سُنی۔حیرانی ہوئی ایسا رویہ۔غرور ہے بھی اور نہیں بھی۔عجیب سی بات ہے۔وہ اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔صرف اس نے ایک نظر تجھے دیکھا۔اور وہ آنکھیں تجھے بھولی نہیں۔جادو ہے ،سحریا کوئی طلسم۔ضمیر شیرازی صاحب نے ایک ہفتے کا وقت دیا تھااور آج ہفتہ پورا ہو گیا تھا۔سیکرٹری نے گارڈ کے آنے کی اطلاع دی۔اچھا تو تو ملے ہو اس ڈپٹی کمشنر سے؟جی سر۔ صرف دیکھنے کی حد تک میں ایک فائل پر دستخط کروانے کے بہانے گیا تھا۔سر۔بے بی صاحبہ سے بھی کوئی بات نہیں کی ہو گی اس نے۔کیوں؟ تم کیسے یہ کہہ سکتے ہو؟شیرازی صاحب کچھ برہم ہوئے۔سر۔وہ جھجکتا ہوا بولا۔ سروہ بندہ اتنا حسین اور رعب داب والا ہے کہ وہ نظر اٹھا کر دیکھ لے تو بندے کا پِتا پانی ہو جاتا ہے۔اور بے بی صاحبہ تو ٹھہریں نازک سی لڑکی۔بس انہوں نے غور سے دیکھ لیا ہو گا۔کیا بک رہے ہو؟ شیرازی صاحب جلال میں آ گئے۔کوئی آدمی محض ایسے جادو گر کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ دیکھ لے تو لوگ مرنے لگ جائیں۔کوئی اور بات اس کے بارے میں وہ دھاڑے۔صاحب وہ کسی دور دراز علاقے کا رہنے والا ہے۔لاہور سے مقابلے کا امتحان پاس کر کے پہلے کسی اور جگہ پہ رہا۔تھوڑا عرصہ ہوا ہے،بصیر پور تبادلہ کروایا ہے۔یہ جگہ اسے پسند ہے۔شاید اس جگہ سے اس کا کوئی تعلق ہو۔مگر ہمیں علم نہیں۔بس یہی سر۔کوئی آگے پیچھے۔شیرازی صاحب نے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے پوچھا۔نہیں سر کسی کو بھی کچھ پتہ نہیں ۔لگتا ہے خود ملنا پڑے گا اس سے۔میرے بصیر پور جانے کا بندوبست کرو اور ڈپٹی کمشنر صاحب کو بتا دو کہ میرے دورے کا انتظام کریں۔اب تم جا سکتے ہو۔
ڈھونڈ لیتا ہوں اس کی اوقات بھی، شیرازی صاحب منہ ہی منہ میں بڑبڑائے۔اگلے ہی ہفتے شیرازی صاحب بصیر پور میں تھے،اپنے آبائی حلقے میں۔چونکہ حلقہ میں کافی ترقیاتی کام کروائے تھے۔اس لیے لوگ انہیں پسند کرتے تھے۔جلسے کے سارے انتظامات مکمل تھے۔لوگ جوق در جوق آ رہے تھے۔شیرازی صاحب کی بے چینی دیدنی تھی۔وہ صرف ڈپٹی کمشنر کے منتظر تھے۔اچانک ایک کھلی جیپ رُکی،ایک لمبا جوان،شاندار آدمی اس میں سے اترا۔اس کی آنکھوں پر سیاہ گاگلز تھے۔ستواں ناک،صبیح پیشانی۔اس کی چال میں ایک وقار اور رُعب تھا۔سارے سیکرٹری اور کلرک اس کے پیچھے تھے۔شیرازی صاحب کے چہرے پرسوچ کی شکنیں پڑگئیں۔وہ سٹیج پر آیا تو شیرازی صاحب خود بخود کھڑے ہو گئے۔ہاتھ آگے بڑھایا۔ سجیل خان بھی اتنا بد اخلاق نہیں تھا۔جواباََ اس نے بھی ہاتھ ملایا۔اور سٹیج کی ایک طرف بیٹھ گیا۔شیرازی صاحب سوچ رہے تھے کہ وہ ان کمے قریب بیٹھے گا مگر وہ تو الگ تھلگ اپنی دنیا میں گم۔اچانک شیرازی صاحب کا سیکرٹری اس کے پاس آیا۔ضمیر شیرازی صاحب جلسے کے بعد آفس آئیں گے۔او۔کے۔اس نے کہا۔سیکرٹری واپس چلا گیا۔شیرازی صاحب جلسے سے تقریر کر رہے تھے۔انہیں پتہ ہی نہ چلاکہ وہ کب جلسہ چھوڑ کر وہاں سے جا چکا تھا۔دراصل سٹیج پر بیٹھتے ہی اس کی چھٹی حس نے اسے بتایاکہ کوئی اس کو دیکھ رہا ہے اس جلسے کی ایک طرف۔دو برقعہ پوش اس پر نظر جمائے ہوئے تھے۔کون ہو سکتے ہیں؟سجیل خان نے آنکھ کے اشارے سے اپنے پی۔اے کو بلایا اور ایک طرف اشارہ کیا۔پی ۔اے اشاروں کی زبان کافی سمجھنے لگا تھا۔وہ آہستہ خرامی سے جلسے کے ایک طرف بڑھنے لگاکہ آن واحد میں دونوں برقعہ پوش غائب ہو چکے تھے۔پی۔اے نے پھر بھی اپنی سی کوشش جاری رکھی۔اچانک گاڑیوں کی لمبی قطار میں سے ایک گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز سُن کروہ پلٹا۔شاندار لینڈ روور بیک کر رہی تھی۔برقعہ پوشوں کے ننگے چہرے دیکھ کر مسکرا دیا۔واپس آیا تو ڈپٹی کمشنر صاحب غائب۔وہ سیدھاآفس پہنچا۔سجیل خان آفس کی کھڑکی کے اس پارٹیلوں سے بھری زندگی دیکھ رہا تھا۔اس کی زندگی بھی تو کیل کانٹوں سے بھری پڑی تھی۔کسی نامعلوم آگ میں دہکتی بھڑکتی زندگی۔کچھ گمشدہ،کچھ لاپتہ،کتنے سوال ذہین کی چوکھٹ پر دستک دیتے تھک جاتے تھے۔ وہ اتنا تنہا،اکیلا اور سب سے الگ تھلگ کیوں تھا؟خاموشی اور لبوں کی چپ چہرے کی تہوں میں گھسی اداسی اور سنجیدگی کب اس کے چہرے کا حصہ بنی تھی۔کبھی کبھی اس کا دماغ تاریک غاروں میں کیوں بھٹکنے لگتا تھا۔ان غاروں میں کتنے ہی نامعلوم سائے ہاتھ پاؤں مارتے اسے پکڑنے کی سعی کرتے۔وہ جب بھی اس کے قریب ہوتے،یکدم روشنی کا جھناکا سا ہوتا۔اور وہ سائے دور کہیں ہوا میں تحلیل ہو جاتے۔اس کی آنکھوں کی پتلیوں پر محض رنگ رہ جاتے۔بے اختیار ہو جانے والی نمی کو اس نے واپس آنکھ کے روزن میں دھکیل دیا۔میں جتنا پتھر نظر آتا ہوں،کیا دراصل میں اتنا ہی پتھر ہوں۔یہ کون سا راز ہے جو مجھ پر منکشف نہیں ہوتا۔کون سا تالا میرے شعور اور لاشعور کے درمیان پڑا ہوا ہے۔ان تاریک غاروں میں کن کے سائے ہیں جو مجھے پکڑنا چاہتے ہیں۔میں سب کچھ کیوں بھول چکا ہوں۔دُکھ اور اذیت نے اس کے چہرے کی شکنوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ماتھا پکڑے وہ کتنی ہی دیر وہاں کھڑا رہا۔یہ میرے اردگرد کیا ہو رہا ہے؟
دروازہ کھلا ہونے کے باوجود ناک ہوا۔سر میں اندر آ جاؤں۔جی آئیے۔پی اے اندر آیا۔صاحب وہ۔ کیا؟ وہ صاحب زادی صاحبہ اور ان کی دوست تھیں۔لوگوں سے چھپ کر جلسے میں آئیں تھیں۔جیسے ہی انہوں نے مجھے آتے دیکھا،وہ چلی گئیں۔سجیل کے چہرے پر حیرت کروٹیں لے رہی تھی۔پتہ کرتے رہنا ان کا مسئلہ کیا ہے؟جی سر کولڈیا کافی ۔یس کافی۔وہ سیٹ پر بیٹھ کر آج کے جلسے کے بارے سوچنے لگا۔اس کی ساری کارکردگی پرفیکٹ تھی۔بصیر پور کے لوگ تھوڑے ہی عرصے میں نئے ڈپٹی کمشنر سے محبت کرنے لگے تھے۔یہ پُر اسرار سا شخص اندر سے کافی نرم دل تھا۔اس کے اندر کوئی ڈر نہیں تھابغیر کسی گارڈ کے وہ بصیر پور گھوم لیتا۔گھنٹوں ان ٹیلوں اور جنگلوں میں جا کروقت گذارتا۔ کسی کھوج میں رہتا۔مگر یہ تو من کی کھوج تھی،اندر وجود کی کھوج۔روح،دل ،دماغ،شعور،لاشعور،سوچ،مکان سے لامکانی کی سرحدوں تک اڑان،سمندر کی عمیق گم شدہ تاریک راہداریوں پر چہل قدمی۔بند آنکھوں کے پیچھے ہاتھ بڑھاتے سائے۔شعلوں کی سی لپکتی زبانیں۔ برفیلے منجمد اجسام۔آنکھیں ہی آنکھیں اپنی ساری وحشتوں کے ساتھ۔دم گھٹتی خوشبوؤں میں وہ تنہا گھرا زمانوں کے فاصلے طے کرتا۔ صدیاں اس کی پوروں میں سے ہو کر گذرتیں،لمحے کسی ریت کی ماند اس کے ننگے پیروں کو اپنا احساس کراتے گزرتے۔
عجب کشمکش تھی کہ اس سے رہائی ممکن نہیں تھی۔وہ روز ان خوفناک لمحوں کی صلیب پر لٹکتا۔اس بے پناہ اذیت سے ا س کا بدن چور چور ہوتا۔ مگر اسے دُکھ کی اس صلیب پر خود ہی لٹکنا تھا۔روز مرنا اور روز جینا تھا مگر کیوں؟اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔یہ ذہنیے کشمکش بڑھتی چلی جا رہی تھی۔اس سے پہلے کہ میں پاگل ہو جاؤں،مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔وہ ندی،نالوں،جنگلوں ،پہاڑوں کواپنی دستان سناتا مگر جواب کہیں سے بھی نہ آتا۔کچھ سرگوشیاں۔کچھ موہوم سی آوازیں جو اس کا تعاقب کرتی رہتی تھیں۔صاحب! چوکیدار اندر آیا۔صاحب ایک بات پوچھوں۔اس نے سرخ سُرخ آنکھوں سے اسے دیکھا تو اس نے فوراََ نگاہیں جھکا لیں۔اس میں سجیل کا یہ سجل روپ دیکھنے کی طاقت ہی نہیں تھی۔کہو۔کمرے میں گہری سی کسی وادی میں اتری ہوئی آواز گونجی۔وہ بھول گیاکہ کیا پوچھنے آیا تھا۔کافی لے آؤں۔ یس۔ سجیل صاحب کے ساتھ رہتے ہوئے سال ہونے کو آیا تھامگر ابھی تک وہ ڈھنگ سے اس سے کوئی بات بھی نہیں کر سکا تھا۔ یہ اس کی شخصیت کا کون سا رنگ تھا کہ لوگ اس سے بات کرنا بھول جاتے تھے۔اور یہاں سجیل خان اپنے ہونے نہ ہونے،اپنے وجود،عدم وجوداپنی ہستی کی ہونی نہ ہونی میں پھنسا ہوا تھا۔
صاحب !وزیر صاحب آئے ہیں۔او کے۔وہ استقبال کے لیے کھڑا ہو گیا۔منیر احمد دو کافی۔جی صاحب۔شیرازی صاحب اندر آئے۔ آئیے سر۔پلیز ٹیک آ سیٹ۔Please take a seatتھینکس۔آپکی کارکردگی بہت عمدہ ہے۔شیرازی صاحب نے سراہا۔ شکریہ سر۔کوشش ہے کہ لوگوں کی خدمت کر سکوں۔سجیل صاحب لوگ آپ کی بہت عزت کرتے ہیں۔قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور آپ کی مانتے بھی ہیں۔مجھے ایسا ہی لگا۔وزیر صاحب نے بات آگے بڑھائی۔شکریہ۔بمشکل ہی اس نے کہا۔کہ اپنی ذات کی دنیا سے بیرون ذات کا سفر وہ صدیوں میں طے کرتا تھا۔کافی آگئی۔سجیل خان صاحب کچھ پرسنل پوچھ سکتا ہوں۔یکدم سجیل کا چہرہ متغیر ہوا۔وہ جز بز نظر آنے لگا۔ یہ کیسا سوال کیا تھاوزیر صاحب نے۔اک آہ سی کھینچ کر اس نے ہاں کہا۔وزیر صاحب اس کی اندرونی کیفیت سے ناواقف تھے کہ وہاں کیا اتھل پُتھل مچی ہوئی تھی۔کتنے نادیدہ ہاتھ اس کی شہ رگ پکڑے اسے کھینچ رہے تھے۔چہرے پر نہ نظر آنے والی اذیت رقص کر رہی تھی۔وہ آنکھیں جھکائے ماتھے کو مسل رہا تھا۔کچھ اپنے بارے میں بتائیے۔شیرازی صاحب نے سوا ل کیا۔تو سجیل خان سوال کی سان پر تل تل کر کے کٹنے لگا تھا۔میرا نام سجیل خان ہے۔سی ایس ایس کر کے ادھر آ نکلا ہوں۔آگے کہاں جانا ہے نہیں جانتا۔جب ہوش آیا تو ذہن کسی سلیٹ کی طرح صاف تھا۔لالہ زبیر الدین خان صاحب نے یہاں تک پہنچایا تھا۔ان کو کسی جنگل سے زخمی،نیم مردہ حالت میں ملا تھا۔کسی نے تشدد کیا تھا شاید۔وہ اتنا ہی جانتے تھے۔پچھلے سال ان کی وفات ہوئی۔انہوں نے پڑھا لکھا کر آفیسر بنایا۔اب تک کچھ یاد نہیں آ سکا۔اس کی انکھیں سُرخ انگارہو رہی تھیں۔جیسے ابھی لہو ٹپکے گا۔سجیل خان نے سر جھٹکا۔چہرے پر کرب کے آثار تھے۔پہلی مرتبہ کسی سے یوں بات کی تھی اپنے بارے۔شیرازی صاحب پتھر کا بُت بنے بیٹھے تھے۔جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔نہ جانے ان پر کیا اثر ہوا تھا۔وہ اٹھے اور سجیل خان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔سلامت رہو۔پھر بات کریں گے۔وہ اسے اذیت کے خوفناک دوراہے پر چھوڑ کر چلے گئے۔درصل انہیں خود ہی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس سے کیا کہیں۔بس ان کے اندر کہیں دور دُکھ کی اک تہہ سی اتر گئی تھی کہ اپنی بیٹی کا درد بھول گئے تھے وہ۔کتنے ہی دن وہ سجیل کے بارے سوچتے رہے۔ایسا بھی ہوتا ہے۔انہیں یوں لگا جیسے ایسی کہانی انہوں نے اپنے ارد گرد کسی سے پہلے بھی سُن رکھی ہے۔سنگلاخ پہاڑوں میں رہنے والے کسی درویش سے۔
بہت دنوں بعد شیرازی صاحب آفس آئے تو الجھے ہوئے سے تھے۔اک نئی مصیبت گلے ڈال چکے تھے۔ سجیل خان کون؟اب وہ اسی کھوج میں تھے۔اتنا شاندار آدمی اور اتنی اذیت میں۔بے نامی کے دُکھ میں مبتلا،اک بے نشان چٹان۔مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ جیسے میں اس واقعے سے واقف ہوں۔کہیں کسی سے سُنا تھا۔ناقابل یقین تھا۔وہ آفس میں سر پکڑے بیٹھے تھے۔باہر سائل آئے بیٹھے تھے اپنے اپنے علاقے کے مسائل لیے۔کلرک فائلیں لیے بیٹھے تھے۔سیکرٹری نے کئی جگہوں پر میٹنگز فکس کر رکھی تھیں۔مگر سب بے کار۔سر تو کسی اور ہی دنیا کی کھوج میں گم لگتے تھے۔
سوچتے سوچتے وہ اچانک چہک اٹھے تھے۔وہ درویش صبور خان تھے جو اننت ناگ جموو مقبوضہ کشمیر سے کسی طرح بچتے بچاتے آئے تھے۔ ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا چند ماہ کا خوبصورت بچہ بھی تھا۔وہ بارڈر پار کر کے راستے کے مصائب اور مشکلات سہتے اسلام آباد پہنچے تھے۔ یہاں بھی رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔وہ ایک دوکان سے بمشکل ایک کپ دودھ لے پائے تھے کہ بچے کو پلا سکیں۔بچہ سہما ہوا اور چپ تھا۔ بچے کی قسمت تھی کہ شیرازی صاحب جو اس وقت وزیر نہیں بنے تھے،سیاست میں نئے نئے وارد ہوئے تھے۔ان کی گاڑی اسی بازار میں اس دوکان کے سامنے رُکی تھی۔ایک بوڑھے غریب آدمی کے پاس اتنا خوبصورت بچہ،وہ حیران ہوئے۔بابا جی۔میری بات سُنئیے۔ شیرازی نے پکارا۔بابا نے بچے کو سینے سے بھینچ لیا جیسے کوئی چھیننے والا ہو۔جی سرکار کہیے۔گاڑی میں بیٹھے اور مجھے بتائیے کیا مسئلہ ہے؟ میں سرکاری آدمی ہوںآپ کی مدد کروں گا۔دراصل اتنا خوبصورت بچہ دیکھ کر حیران ہوں،یہ آپ کا تو نہیں لگتا،آپ بزرگ ہیں۔کسی نے یہ بچہ چھین لیا تو کیا ہو گا۔بابا صبور خان واقعی ڈر گئے اور اپنی ساری صعوبتیں شیرازی کے گوش گذار کیں۔دراصل یہ بچہ ایک کشمیری سردار کفیل احمد مہر کا ہے۔ سردار کفیل احمد کشمیر کے ایک بڑے وکیل تھے۔ان کی بیوی سعدیہ احمد مقامی کالج میں لیکچرار تھیں۔سردار کفیل احمد کا چھوٹا بھائی لئیق احمد یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔اپنے دو ساتھیوں کی بھارتی فورسسز کے ہاتھوں موت پر،مجاہدین کے ایک گروپ میں شامل ہو گیا۔یہ سب کچھ سردار کفیل احمد کو تب پتہ چلا جب بھارتی فورسسز گھر کی تلاشی لینے آئیں۔سردار صاحب کی بہت عزت تھی،دبدبہ تھا۔مگر اس کاروائی سے وہ بہت پریشان ہوئے۔
لئیق احمد سے بہت رابط کیا مگر وہ نجانے کہاں گم تھا ۔جب سے یہ کنفرم ہوا تھا کہ وہ مجاہدین کے کسی گروپ میں شامل ہو چکا ہے اور بھارتی فورسسز کو کافی نقصان پہنچاتا ہے تو گھر پر چھاپوں میں تیزی آ گئی۔۔وکیل صاحب کے گھر کے ساتھ میری چھوٹی سی دودھ کی دُکان تھی وہ جب بھی آتے میری دُکان بھی الٹ پلٹ جاتے۔پھر ایک دن تو حد ہو گئی۔جب فورسسزکے کسی تازہ دم کمانڈر نے رات کے وقت چھاپا مارا۔میں خود اپنی دُکان سے اپنا خنجر لے کر وکیل صاحب کے گھر میں گھس گیا۔کہ وہ مجھے مار ڈالیں،چلو انہیں لاش چاہیے۔اور میں بھی چاہتا تھا کہ کسی کو تو جہنم واصل کروں گا ۔مگر انہوں نے توپہلے وکیل صاحب کی بوڑھی خالہ کوگولی ماردی۔پھر ان کی چھوٹی بہن مریم شفیق احمد کو پکڑ لیا۔اﷲ رسول کے واسطے کون سُنتا۔وکیل صاحب گھر سے باہر تھے۔ظالموں نے اس معصوم کی عزت برباد کی پھر اسے گولی مار دی۔وکیل صاحب کی اہلیہ چونکہ حاملہ تھیں وہ سوائے منتیں کرنے کے کچھ نہ کر سکیں اور بے ہوش ہو گئیں۔میں نے یہ سارا منظر دیکھا۔میں جانتا تھا کہ اب وکیل صاحب کی بیگم کی باری آئے گی،وہ پورے دنوں سے تھیں۔بھارتی درندے اپنا منہ کالا کر کے نکل گئے تھے۔لعنت ہو ان پر،سو بار لعنت ہو۔بابا صبور کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں جاری تھیں۔جیسے ہی فوجی باہر نکل گئے میں نے جلدی سے پانی لیا اور بیگم صاحبہ کے چہرے پر چھینٹے لگانے لگا۔وہ کچھ ہی دیر بعد ہوش میں آ گئیں۔مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔باہر کرفیو تھا۔سخت پہرہ تھا۔پھر بھی میں ہمت کر کے تھوڑی دور محلے کے دوسری طرف ایک دائی کو لینے چلا گیاچھپتا چھپاتا۔جب صغرا بی بی کو میں نے داستان سُنائی تو وہ ڈر گئی۔ نہ بابا میں نہیں جاتی۔دیکھو صغرا بہن وہ اپنا کام کر کے چلے گئے۔سردار کفیل احمد کی نسل ختم ہو جائے گی۔ان کے ہم پر احسان ہیں۔وکیل صاحب کے بیوی بچے کو بچا لو۔دیکھو صبور بھائی۔باہر کرفیو ہے ہم ویسے ہی مارے جائیں گے۔دیکھو بہن ایسے بھی مرنا ہے ویسے بھی۔کسی کی جان بچ جائے تو بُرا کیا ہے۔خیر بڑے ہی منتوں ترلوں کے بعد آدھی رات آگے پیچھے ہوئی تو ہم چھپتے چھپاتے کسی طر ح و کیل صاحب کے گھر کی پچھلی طرف سے اندر آئے۔وکیل صاحب کی بیوی درد سے تڑپ رہی تھی۔صغرا نے بیگم صاحبہ کو سنبھالا۔میں جلدی سے دودھ گرم کر کے لے آیا۔سعدیہ بی بی نے بڑی مشکل اور اذیت سے بچے کو جنم دیا اور خود اﷲ کو پیاری ہو گئیں۔صغرا نے لاشیں دیکھیں تو الٹے پاؤں بھاگنے لگی۔پتہ نہیں واپس پہنچی کہ نہیں۔اب بچے کو کیسے بچاؤں؟بچے کو کپڑے میں لپیٹ کر میں اپنی دُوکان میں گھس گیا۔
کیسے بچاوٗں بچے کو باہر کرفیو ہے۔اس دن میری ہمت ٹوٹ گئی۔میں اتنا رویا اتنا رویا کہ بس۔لگا اپنے ہی آنسووٗں میں ڈوب کر مر جاوءں گا۔وکیل صاحب گھر نہ لوٹ سکے تھے۔صبح ہوئی تو ایک ہمسائے کو ساری بپتا سنائی۔تم کسی طرح بچے کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ۔اس نے کچھ روپے اور کچھ خشک میوے مجھے دےئے۔اک پانی کا برتن بھی اور ایک برقعہ بھی دیا۔یوں اﷲ کی مدد سے وہ اس بچے کو بچانا چاہتا تھا۔دس دن کی خواری کے بعد سرحد پرپہنچا۔دعائیں مانگتا روتا رہا رب کے سامنے فر یاد کی کہ میری مدد فرما۔اس کی مدد سے ہی ایک دن رات کے وقت خاردار تاروں کے نیچے سے پہلے بچے کو اور پھر خود رینگ رینگ کر باڑکو پار کیا۔کچھ دیر ایک کھڈے میں دبکا رہا پھر کھڈوں اور ٹیلوں کی آڑ لے کر ایک گاؤں میں پہنچا۔ایک دُکاندار کو اپنی بپتا سنائی۔وہ بولا یہاں جاسوس پھرتے ہیں تم پہلی بس پکڑو اور پاکستان کے کسی شہر یا گاؤں چلے جاؤ،محفوظ ہو جاؤ گے۔یوں اگلی ہی صبح منہ اندھیرے آزاد کشمیر کے مٹالی گاؤں سے بسیں بدلتا آج ہی اسلام آباد پہنچا ہوں۔ سوچ رہا تھا کہ کل کوئی کام کاج اور گھر کا بندوبست کروں گا کہ آپ مل گئے۔شیرازی نے ساری داستان سُنی۔اف اتنا ظلم۔میں ایک دوست کے گھر بھیج دیتا ہوں۔وہاں کام بھی مل جائے گا اور رہائش بھی۔بچے کو بھی آزادی سے سنبھال پاؤ گے۔یوں بچے کو ایک محفوظ ٹھکانہ مل گیا۔دوست کی بیوی کو بچہ اتنا اچھا لگا کہ اس نے اسے گود لے لیا۔یوں وہ بچہ ان کے بچوں کے ساتھ نہایت عمدہ پرورش پانے لگا۔ بابا صبور کبھی واپس نہ جا سکا ۔ نہیں جانتا کہ وکیل صاحب کا کیا بنا۔امید ہے کہ وہ بھی شہید ہو چکے ہیں۔ورنہ ان کی کوئی تو خبر ہوتی کہ بابا صبور نے بہت سے دوستوں کو فون کر کے ان کی بہت تلاش کی تھی مگر کوئی بھی نہ ملا۔لگتا ہے کہ یہ وہی بچہ ہے۔مگر پھر اس کے ساتھ کیا ہوا۔وہ یہ کہانی نہیں جانتے تھے۔ پتہ نہیں وہ بچہ کہاں گیا اور یہ بچہ کون ہے؟ کیسے کھوج لگایا جائے؟ وہ سوچوں کے گورکھ دھندے میں الجھتے گئے۔یہ کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے؟ اس کی یاداشت غائب ہے تو یہ یہاں ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک کیسے پہنچا؟ کتنے سوال تھے مگر جواب ندارد۔ شیرازی صاحب نے اپنے پرسنل سیکرٹری کو کمرے میں بلایا۔مراد علی۔ یہ ڈپٹی کمشنر کا پنگا حل نہیں ہو رہا کسی ایجنسی کی مدد لو۔اسے پتہ نہ چلے۔مجھے اس کے بارے معلومات چاہیے۔ساری کی ساری۔کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے؟اس کا خاندان کون اور کہاں سے آیا تھا۔ اس کی یاداشت واقعی جا چکی ہے یا کوئی بہت بڑا اداکار ہے۔ڈرامہ کر رہا ہے۔ڈپٹی کمشنر کیسے بنا؟اس کے اب تک تنہا ہونے کی وجہ کیا ہے؟یہ سات سوال ہیں اور ان کا جواب چاہیے۔پیسے کی پروا نہیں کرنا۔کہیں دور دراز بھی جانا پڑے تو جا کر کھوج لگانی ہے۔سر۔ چھوڑیں ٹھیک کام کر رہا ہے۔چپ کرو۔ شیرازی صاحب اس سوال پر غضبناک ہو گئے۔جی۔جی سر۔مراد علی کی گھگی بندھ گئی۔سوری سر آج ہی کام ہو جائے گا۔مراد علی نے وہاں سے ٹل جانے میں خیریت سمجھی۔صاحب کا موڈ خراب ہو گیا تھا۔
اپنی بیٹی کے حوالے سے وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اسے یہ چاند چاہیے کھیلنے کو۔ایک دنیا دیکھ رکھی تھی۔سب اونچ نیچ سمجھتے تھے۔بیٹی کی بیماری وہ پہلے جان چکے تھے۔اب تو وہ اس چاند کو ٹٹول کردیکھنا چاہتے تھے کہ خالی روشنی ہی ہے یا صرف روڑے پتھروں سے بھرا پڑا ہے۔ وہ خاندانی رئیس تھے۔اکلوتی بیٹی۔اور سب کچھ بیٹی کا تھا۔نائمہ کوشش کر کے بڑی حد تک صائمہ کو زندگی کی طرف لے آئی تھی۔دونوں شاپنگ کے لیے جاتیں سیرو سیاحت۔ہوٹلنگ بھی۔ناران کاغان تک سیر کر آئیں۔صائمہ نے اپنی ماس کمیونیکیشن کی کلاسسز لینا شروع کر دیں۔مگر وہ چُلبلا پن وہ نٹ کھٹ انداز رخصت ہو گئے تھے۔اب وہ کافی سنجیدہ،سوبر اور چپ رہنے لگی تھی۔گھنٹوں خود کو کتابوں میں ڈھونڈتی رہتی۔لائبریری ہی اوڑھنا بچھونا بن گیا تھا۔
صائمہ۔صائمہ ڈیر۔نائمہ آوازیں دیتی لائبریری کی طرف آئی۔کیا ہے؟ کیوں شور کر رہی ہو؟لائبریری ہے یہ۔او ۔ سوری۔اچھا اٹھو میری بات سنو۔وہ پبلک لائبریری سے باہر آ گئیں۔ڈپٹی کمشنر کی خبر ہے۔وہ کیا؟ صائمہ یکدم پرجوش ہو گئی۔وہ نتھیا گلی جا رہا ہے۔ایک ہفتے کے لیے۔تمہیں کیسے پتہ صائمہ نے اسے گھورا۔تمہارے کام کی خبر لائی ہوں اور تم مجھے گھور رہی ہو۔دونوں ہنس پڑیں۔چلو نتھیا گلی چلتے ہیں۔ اس کا پتہ کرتے ہیں۔دیکھو نمی اسے پتہ چل تو بہت رسوائی ہو گی۔صائمہ فکر مندی سے بولی۔اتنی حسین لڑ کی د ادی اماں بنی اچھی نہیں لگتی۔ نائمہ نے اس کا ہاتھ دبایا۔صائمہ ہنس پڑی۔جانتی ہو ۔ نا ۔مجھے وہاں جانا کتنا پسند ہے؟I love Nathia Ghali وہ آنکھیں بند کر کے پوز بنا رہی تھی۔صائمہ نے اس کا کندھا ہلایا۔واپس آ جاؤ لڑکی۔ابھی ہم لاہور میں ہیں۔اچھا چلو جانے کا بندوبست کریں۔بابا اور اماں سے ملاقات کرنی ہے۔ڈرائیور کو کال کی۔وہ گاڑی لے کر پہنچ گیا۔سنو۔دی مال چلو۔کچھ شاپنگ کرنی ہے۔اچھا میڈم کس کے لیے۔نائمہ نے چھیڑا۔تم تو بس۔نتھیا گلی نہیں جانا۔اس نے معنی خیز انداز سے دیکھا۔
ہاں۔۔۔ایک لمبی ہاں کے بعد وہ اپنی لینڈ روور میں گھس گئیں ابھی گلابی گرمیوں کے دن تھے۔سورج چمکتا تھا مگر راتیں زرا آرام دہ ہو گئیں تھیں۔گرمی کی شدت کو ذرا سکون آ گیا تھا۔نتھیا گلی میں تو ذرا ٹھنڈک ہو گی۔ہوں نائمہ نے گمشدہ انداز میں جواب دیا۔
اچھا ہے مجھے سردی پسند ہے۔صائمہ نے باہر بھاگتی دوڑتی دنیا کو دیکھتے ہوئے خیالات کا اظہار کیا۔دی مال۔ایک شاندار شاپنگ مال ہے۔سب چیزیں مل جاتی ہیں۔نائمہ مطمین انداز میں چیزوں کو دیکھتی ہوئی بولی۔شاپنگ کرتے ہوئے اچانک وہ مردانہ حصے کی طرف نکل آئیں۔واؤ۔بڑی ورائٹی ہے۔نائمہ شوخی سے بولی۔صائمہ زیر لب مسکراتی رہی۔اس کی آنکھوں میں یکدم اک چمک سی امڈ آئی۔یہ جیکٹس دیکھو کتنی شاندار ہیں۔مہنگی بھی ہیں۔ہاں ایسی جگہوں پر ایسے ہی ہوتا ہے۔وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولی۔ادھر دیکھو۔صائمہ نے نمی کو دیکھا۔ یہ براؤن جیکٹ۔ہیں۔نمی نے دوبارہ صائمہ کو دیکھا۔تمہیں بڑی ہو گی یہ جیکٹ۔وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولی۔ویسے بھی یہ مردانہ جیکٹ ہے۔ صائمہ سر پیٹ کر رہ گئی۔الو کی پٹھی ادھر دیکھو۔وہ غصے میں آ گئی۔سجیل خان کو گفٹ بھیجوں تو کیسا رہے گا۔کیا؟ نمی نے اتنی زور سے کہا کہ لوگ ان کی طرف دیکھنے لگے۔مطلب گفٹ۔او۔مائی گاڈ۔ سُپرب آئیڈیا Superb Idea نمی نے نعرہ لگایا۔صائمہ جھینپ گئی۔ دونوں پورے خضوع و خشوع کے ساتھ جیکٹس الٹنے پلٹنے لگیں۔کافی تگ و داو کے بعد ایک سرخ براؤن جیکٹ انہیں پسند آئی۔ قیمت تو کافی تھی مگر وہ جیکٹ انہوں نے خرید لی۔ صائمہ بڑی مسرور تھی۔جو بھی ہو۔سجیل خان جیسا بھی ہے۔وہ اس سے محبت کرنے لگی تھی۔اور محبت اپنا اظہار بھی مانگتی تھی۔اسے خبر ہی نہ ہو اور وہ یہاں خاک ہو جائے،تو ایسی محبت کا کیا فائدہ۔سجیل خان کو پتہ ہونا چاہیے۔ بھیجنے کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔شاپنگ مکمل کر کے وہ ائیر پورٹ روانہ ہو گئیں۔
نتھیا گلی آئے ہوئے دو دن ہو گئے تھے۔وہ جنگلوں اور پا رکوں کی سیر کر کر کے تھک گئیں تھیں۔ہو سکتاا ہے وہ بندہ یہاں سے جا چکا ہو۔ ارے نہیں۔نمی نے اسے تسلی دی۔آخری خبریں آنے تک وہ یہیں کہیں ہے۔اس نے صائمہ کو تسلی دی۔چلو ادھر چل کے کافی پیتے ہیں۔ وہ گھنے جنگل میں بچھے کرسیاں میز دیکھ کر بولی۔ساتھ ہی ان کا ہوٹل بھی تھا۔اپنے ہی خیالوں میں وہ جنگل کے درخت گن رہی تھی کہ کسی کے قدموں کی آ ہٹ سنائی دی۔وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا عین اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔نمی سامنے ڈھابے سے پکوڑے خریدنے گئی ہوئی تھی۔صائمہ کا تو جیسے سانس ہی کہیں اٹک گیا تھا۔آپ میری جاسوسی کیوں کر رہی ہیں؟اب کے چپ رہنے کی باری صائمہ کی تھی۔ہم تو۔۔ صائمہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔الفاظ اس کے ہونٹوں پر ہی ٹھہر گئے۔وہ دشمنِ جاں انہی قاتلانہ آنکھوں کے ساتھ اس کی جان کھینچ رہا تھا۔ ہم ہم۔تو۔سیر۔یہ کیسا رعب تھا۔جلال تھا یا خوف تھا۔دو آنسو صائمہ کے سندوری گالوں ہر لڑھک گئے۔
اچانک سجیل خان کو بھی احساس ہوا کہ اس نے لڑک کو زیادہ ہی ڈرا دیا ہے۔سوری۔وہ غصے سے اسے دیکھتا ایک طرف جنگل میں اتر گیا۔جب تک نائمہ پہنچی،صائمہ ادھ موئی پڑی ہوئی تھی۔چہرے پر رنگ آ ،جا رہے تھے۔کیا ہوا صائمہ میری جان۔اس نے پکوڑے وہیں پھینک دئیے۔صائمہ زرد ہوتی جا رہی تھی۔اٹھو جلدی سے کمرے میں چلو۔شائد ٹھنڈ لگ گئی ہے۔
صائمہ بے دم سی اندر آئی اور بیڈ پر گر پڑی۔چوکیدار بھاگا ہوا آیا،میڈم کی طبعت ٹھیک نہیں۔ہمیں فوری اسلام آباد جانا ہے۔اس نے جلدی جلدی چیزیں بیگ میں ٹھونسیں۔صائمہ کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹا دیا۔وہ تو صائمہ کو ویسا ہی فریش بنانا چاہتی تھی۔مگر یہاں تو بازی ہی پلٹ گئی تھی۔کیا ہوا تھا؟ صائمہ کچھ نہیں بتا سکی تھی۔دعائیں مانگتی وہ اسلا م آباد پہنچی۔فیملی ڈاکڑ پہنچ گئے۔چیک اپ کے بعد نیند کی دوا دے دی گئی۔
اس نے گارڈ کو طلب کیا۔تم بتاؤ کیا ہوا تھا؟ نائمہ بی بی میں تو ادھر سامنے ہی تھا۔بے بی چائے پی رہی تھیں۔اچانک ایک لمبا جوان سا آدمی اوپر والی سڑک سے نیچے آیا۔وہ شاید ایک منٹ بھی نہیں رُکا اور نیچے کی طرف اتر گیا۔میں نے شکل نہیں دیکھی۔اتنی دیر میں آپ پہنچ گئے۔میں سامنے ہی تھا۔کہیں وہ سجیل خان ہی نہ ہو۔وہی تباہی کرتا ہے۔اب کے وہ مجھ سے نہیں بچے گا۔حد ہوتی ہے مغروری کی۔آخر اس کو تکلیف کیا ہے؟ نائمہ غصے سے بھر گئی۔مجھے بصیر پور جانا پڑے گا۔صائمہ کے لیے اس کا دل بہت گداز تھا۔آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں۔شام تک ضمیر شیرازی صاحب بھی پہنچ گئے تھے۔انہیں کھد بُد لگ گئی۔ہنستی کھیلتی گئی تھیں۔وہاں کیا ہوا تھا؟انہوں نے اپنے سیکرٹری کو فون کیا۔پتہ کرو آج کل سجیل خان کدھر ہے؟ جی سر اسی وقت اس نے بصیر پور فون کیا۔تو پتہ چلا کہ سجیل خان اپنے گھر پہ ہے۔پچھلے دو چار دن وہ غائب رہا ہے۔کہاں گیا تھا۔سر یہ کسی کو پتہ نہیں۔ شیرازی صاحب بہت پریشان تھے۔اگلا پورا ہفتہ صائمہ بخار میں مبتلا رہی۔اور نائمہ سجیل سے دو دو ہاتھ کرنے کے منصوبے بنانے لگی۔
صائمہ اب ٹھیک تھی۔چلو لائبریری چلتے ہیں۔چلتے ہیں۔مگر پہلے مجھے یہ بتاؤ وہ اچانک کہیں سے نکلا،تمہارے سامنے آیا۔اس نے کچھ کہا اور تم مٹی کا مادھو کچھ کہہ بھی نہیں سکیں۔نائمہ غصے میں تھی۔پتہ نہیں کیا ہوا تھا۔بس وہ سامنے آیا۔اس نے دیکھا اور کہا کہ میں اس کی جاسوسی کر رہی ہوں۔میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ یہ کہہ کر غائب ہو گیا۔اس نے میری بات سنی ہی نہیں۔دو موٹے موٹے آنسوصائمہ کے سندوری گالوں پرلرزنے لگے۔اچھا۔اسے تو میں دیکھ لوں گی۔یاد کرے گا۔نائمہ تم ایسا کچھ نہیں کرو گی۔۔صائمہ نے سختی سے کہا۔وہ بندہ ہتھے سے اکھڑ جائے گا اور پھر بابا کی عزت۔جو کچھ بھی ہو میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔اچھا جی۔تو اس کے سامنے آتے ہی دھڑام سے کیوں گر پڑتی ہو۔ثابت قدم رہ کراس سے بات کرو۔نائمہ نے ناحصانہ انداز میں اسے سمجھایا۔نہیں میں اسے اپنے دل سے نکال دوں گی۔یہ اتنا آسان نہیں ہے مائی ڈیر۔اتنا مشکل بھی نہیں۔صائمہ اک دُکھی مسکراہٹ سے بولی۔دیکھتے ہیں۔
کل ہوسٹل جانے کی تیاری کرنی ہے۔چلو اٹھو۔کلاسسز مس ہو رہی ہیں۔ماشا اﷲ میری بنو بڑی بہادر ہے۔نائمہ نے مذاق کیا۔ہاں ہوں نا۔صائمہ نے کہا۔اب وہ قدرے فریش لگ رہی تھی۔اگلے دو دن تیاری میں لگ گئے۔دونوں لاہور آئیں۔صائمہ تو سٹڈی میں لگ گئی۔نائمہ شاپنگ میں۔اسے جلدی کراچی واپس جانا تھا۔سکول کا بندوبست والدہ کے سپرد کر کے آئی تھی۔وہ بھی دیکھنا تھا۔اپنے ذاتی ہائی سکول و اکیڈمی کی پرنسپل تھی۔واپس تو جانا ہی تھا
سجیل تیزی سے پگڈنڈی پر چلنے لگا۔یہ لڑکی کیا چاہتی ہے؟ بار بار سامنے آ جاتی ہے۔وہ سوچتا چلا جارہا تھا۔میں تو خود تباہ حال،تباہ قسمت ہوں۔خود اپنی تلاش میں ہوں۔اپنی کھوج پہ نکلا ہوا ہوں۔اپنا پتہ نہیں ملتا۔کسی کو کیا راستہ دکھاؤں گا۔کاش کوئی سراغ ملتا۔میں کون ہوں ، کہاں سے آیا ہوں۔سجیل خان ہوں یا اور کچھ۔لوگ میری کھوج میں ہیں اور میں اپنی کھوج میں۔اب تک اپنا مسئلہ تو حل کر نہیں پایا۔یہ لڑکی۔لڑکی وہ اس کے بارے میں سوچنے لگا۔وہ تو لگتا ہے بیمار سی ہے۔وہ پہلے دن والی تیزی طراری نہیں۔میں نے خواہ مخواہ اسے جاسوس کہہ دیا۔میرا رویہ با لکل ٹھیک نہیں تھا۔ہو سکتا ہے وہ وہاں ویسے ہی سیاحت کے لیے آئی ہواور میں اف،میں بھی کیا کروں۔اس نے سر پکڑ لیا۔ہر وقت دماغ گھوما رہتا ہے۔سمجھ تو کچھ آتی نہیں۔دماغ کے ان وحشی خیالوں سے کب نکلوں گا۔مجھے واپس جا کر اس لڑکی سے معذرت کرنی چاہیے۔یہی سوچ کر وہ واپس پلٹاتو سہی مگر یہ سوچ کر کہ لڑکی کچھ غلط نہ سمجھ بیٹھے وہ واپس ہو لیا۔
ڈرائیور سے گاڑی نکالنے کاکہہ کر وہ واش روم میں چلا گیا۔صاحب گاڑی تیار ہے۔وہ تیار ہو کرباہر نکل آیا۔دوست کا خوبصورت فلیٹ جہاں وہ اکثر رہتا تھااور سکون حاصل کرتا۔صاحب اتنی جلدی۔آپ تو ایک ہفتے کے لیے آئے تھے۔بس چلو۔اتنا کہہ کر وہ اپنی سفاری میں گھس گیا۔پتہ نہیں کیا ہوا تھا۔لڑکی کی بیمار سی رونی صورت سامنے آ جاتی تو اسے اپنی زیادتی کا احساس ہونے لگتا۔اس مرجھائے سے چہرے میں بھی بلا کی کشش اور حسن تھا۔دھلی ہوئی شفاف سیاہ آنکھیں،گولڈن براؤن خوبصورت تراش کے بال۔نازک سی ناک اور خوبصورت گلابی ہونٹ جن پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔سوگوار سا حسن اس کے ملیح چہرے پر جچ رہا تھا۔یہ میں نے کب اسے اتنی تفصیل سے دیکھا بھلا۔حیرت ہے۔وہ اتنی خوبصورت ہے۔میں نے تو کبھی عورتوں پر غور ہی نہیں کیا۔سوچ کی سمت مڑ گئی۔میں تو خود کے عذابوں سے آگے جاتا ہی نہیں۔
ایساکیا ہوتا ہے کہ انسانی نفسیات الجھ کر رہ جاتی ہیں۔مقصد کسی کے ذہین پر بوجھ ڈالنا نہیں۔بس کچھ گرہیں کھولنا ہوتا ہے۔گرہیں کیسے کھلیں گی۔یہ زندگی جیسے گزر رہی ہے اسے ایسے ہی گزارا جائے یا ان منجمد حالات سے آگے بڑھا جائے،کہیں تو کوئی پگھلا ہوا پانی کا چشمہ ملے۔کہیں تو شفاف بہتی ندی میں اپنا چہرہ دیکھنے کو ملے،کہیں پر تو ہاتھوں پر لگی حالات کی ریت دھو پائیں۔کہیں تو اپنے پیروں سے وقت کی گرد جھاڑ کر اگلے پڑاؤ کی طرف بڑھ سکوں۔میرا چھپا ہوا ماضی ہی کیوں؟ساری تاریکیاں لے کر میرے پیچھے پڑا ہے۔وہ مجھے سکون سے جینے نہیں دیتا۔کیا کروں؟ سائیکاٹرسٹ بھی ہار گئے۔ڈاکڑوں نے بھی ہاتھ اٹھا دئیے۔آخر یہ گتھی کیسے سلجھے گی۔میں زندگی میں کیسے آگے بڑھوں گا۔زندگی اس سے زیادہ اور کیا اذیت ناک ہو گی۔کہ اپنے ساتھ بھی وقت نہیں گزرتا۔زندگی کسی تاریک کمرے میں وحشتوں کی نظر ہو جاتی ہے۔میں زندگی کے سفر میں بھی کسی کو شامل نہیں کر سکتا۔اپنے دکھ کیسے دوں؟اپنی اذیت میں کیسے شامل کروں؟
سجیل سرپکڑے بیٹھا تھا۔وہیں ایک اداس،پژمردہ،گھبرایا ہوا چہرہ اس کی تاریکی میں جگمگانے لگا۔پھر اپنی زیادتی کے احساس نے اسے کچلنا شروع کر دیا۔مجھے اسے سوری کہنا پڑا گا ورنہ یہ مصیبت ٹلنے والی نہیں۔مگر یہ خوبصورت سی مصیبت بار بار آنکھوں کے آگے آنے لگتی تھی۔اپنا ہی تجزیہ کرتے تو عمر گزری تھی۔تنہائیوں کے آسیب نے یہی سب تو سکھایا تھا۔تو کیا وہ بد تمیز سی لڑکی مجھے اچھی لگی ہے۔کتنی اکھڑ اور مغرور۔ اسے یاد آیا توپھر نتھیا گلی میں وہ اتنی مختلف کیوں لگی۔کہیں وہ مجھ میں انوالو involve تو نہیں ہو گئی۔اکثر خواتین کو میں اچھا لگ جاتا ہوں۔ خانسامہ نے کھانے کو پوچھا۔کافی دے دو۔سر سینڈ وچ بنا دوں۔آپ کافی دیر سے صرف کافی پی رہے ہیں۔بھوک تو نہیں ہے پھر بھی لے آؤ۔خانسامہ جلدی سے پلٹ گیا۔پچھلے ایک سال سے وہ سجیل خان کے ساتھ تھاصاحب کی چپ سے وہ بڑا تنگ تھا۔آج خلاف توقع صاحب کا جواب سُن کر وہ خوش ہو گیا۔کسی تبدیلی کے نشان ہیں وہ سوچنے لگا۔اﷲ کرے۔صاحب کو ان کے گھر والے مل جائیں۔ خانسامہ اصغر یہی سوچ رہا تھا۔
اگلے دن وہ آفس پہنچا تو ڈھیر ساری فائلیں دیکھنی تھیں۔کچھ مقامی لوگوں سے میٹنگز بھی تھیں۔پی اے ڈائری لے کر آگیا۔سارا دن مصروفیت باہر جانے کا بھی وقت نہیں ملا۔دو دن اسی مصروفیت میں گزر گئے۔آج موسم میں کچھ خنکی تھی۔پھر بھی اچھا لگ رہا تھا۔آفس پہنچا تو ایک سرپرائز موجود تھا۔خوبصورت پیکنگ والا ایک گفٹ پیک۔
علی احمد یہ کیا ہے؟ چوکیدار کو بلایا۔سر ٹی سی ایس ہے۔کچھ دیر پہلے ہی آیا ہے۔چیک کرو۔کھولو اسے۔سر میں! علی احمد جھجک گیا۔کھولو۔اب کہ آواز میں جلال تھا۔جی جی سر۔اس نے ٹیبل سے کاغذ کاٹنے والی چھری اٹھائی اور بڑی احتیاط سے پیکٹ کھولنے لگا۔سجیل خان کھڑا دیکھ رہا تھا۔کھٹاک سے صائمہ شیرازی اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔وہ ایک لمحے میں ہی سمجھ گیاکہ یہ پیکٹ اسی نے ہی بھیجا ہے۔نہایت اعلیٰ پیکنگ میں ایک شاندارلائٹ براؤن مخملی جیکٹ تھی۔نہایت قیمتی اور سائز بھی پرفیکٹ۔سر میں جاؤں۔علی احمد نظریں جھکائے باہر نکل گیا۔اس کے لیے یہ گفٹ کسی بم دھماکے سے کم نہیں تھا۔صاحب جیسی چپ شاہ شخصیت کے پتھر مزاج میں کسی نے کنکر تو پھینکا تھا۔اور یہ جرات وزیر صاحب کی بیٹی کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا تھا۔اب وہ سب جاننا چاہتے تھے کہ حالات کس رخ پہ جائیں گے۔ڈپٹی کمشنر صاحب وزیر صاحب سے پنگا لیں گے یا اس تحفے کو شرف قبولیت بخشیں گے۔سارے سٹاف کو پتہ چل گیا تھا۔سارے اپنی اپنی جگہ پر بے چین تھے کہ اب کیا وقوع میں آتا ہے۔پتھر میں سیندھ لگ گئی تھی۔صاحب کیا کرے گا۔میڈم کا کیا رد عمل ہوگا سب منتظر تھے۔چوکیدار علی احمد کلرک نصر اﷲجان کے پاس کھڑا تھا۔پی اے نے اپنی ٹیبل سے جھانکا۔آنکھوں کے اشاروں سے کچھ بات ہوئی۔
سنو وہ پیکٹ میں کیا تھا۔نصر اﷲجان نے علی احمد سے پوچھا۔مروائے گا کیا؟چپ رہ علی احمد نے اشارہ کیا۔ویسے انفارمیشن کے لیے بتا دے آپس کی بات ہے۔پی اے باسط علی کی نظریں انہی پہ ٹکی ہوئی تھیں۔کسی نے بڑی قیمتی جیکٹ کا تحفہ بھیجا ہے صاحب کو۔اچھا۔ نصر اﷲ نے حیرت کا اظہار کیا۔یار ویسے صاحب ہے بڑا قسمت والا۔کہاں یار۔ علی احمد افسردہ سا ہو گیا۔وہ کیوں بھلا۔نصر اﷲ نے کریدا۔یار جس بندے کے آگے پیچھے کوئی نہ ہو۔وہ خود بھول چکا ہو کہ وہ کون ہے۔ماں باپ کون تھے۔کس علاقے کا ہے۔اتنا اکیلا سارا دن کسی عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔چپ چاپ،خاموش۔سوچتے رہنا۔اور پھر اس مرض کا علاج بھی کوئی نہیں۔ہاں یار یہ بات تو ہے۔نصر اﷲ بھی اداس ہو گیا۔یار اتنا شاندار آدمی۔خوبصورت،جوان پڑھا لکھا۔رُعب اتنا کہ شیرازی صاحب جیسے وزیر گھبرا کر بات کرے۔وہ بندہ ذہنی طور پر خود گمشدہ ہے۔یار ویسے دکھ تو بہت ہے۔لیکن ایک بات ہے علی احمد۔بندہ ہے بندے کا پتر۔اپنے کام میں ماہر۔کام سے کام۔اور لوگوں کو اس کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں۔کسی اچھے والدین کی اولاد ہے۔لکھ لو۔نصر اﷲ نے قطعی انداز میں کہا۔اچھا خون ہے تبھی نظر آتا ہے نا۔یہ تو ہے۔علی احمد نے ہاں میں ہاں ملائی۔
گھنٹی بجی۔علی احمد آفس کی طرف بھاگا۔نصر اﷲ اپنی کھد بدھ سمیٹتا کام میں لگ گیا۔یس سر۔علی احمد یہ پیکٹ سمیٹو اور الماری میں رکھ دو۔یس سر۔علی احمد نے پھر جیکٹ کو چھوا۔ویلوٹ کی جیکٹ جس پر غالباََ سونے کے بٹن تھے۔علی احمد کو ایسا ہی لگا تھا۔بڑے پیار سے بڑی احتیاط سے اس نے جیکٹ کوسمیٹ کر ڈبے کو و یسے ہی بند کیا۔اور اسے الماری میں رکھ دیا۔کوٹ باگھ کے پنچائیت والوں نے آنا تھا۔جیسے ہی پہنچیں مجھے فوراََ بتائیں۔وہ لوگ لیٹ ہو گئے ہیں سب کے لیے چائے پانی کا بندوبست کر لینا۔ہاں نصر اﷲ جان صاحب کو بھیج دیں۔ سر! کافی،چائے یا قہوہ پسند فرمائیں گے۔کیا ہونا چاہیے۔سجیل خا ن نے سوال کر دیا۔سرجو آپ پسند فرمائیں۔نہیں جو آپ پسند فرمائیں۔کیا کروں؟ وہ پریشان حال باہر نکلا۔صاحب بھی مصیبت میں ڈال دیتے ہیں۔دوسرے کلرک۔راجہ جوشی نے پوچھا۔کیا ہوا۔صاحب کو اس وقت کیا پلاؤں۔جانی واکر لے جا۔پی اے کی دور بیٹھے ہنسی نکل گئی۔بھائی میرے ۔صاحب جو پیتے ہیں یعنی کافی۔نہیں وہ میں پوچھ بیٹھا تھا کہ کافی ، چائے یا قہوہ۔انہوں نے کہا جو تم چاہو۔اور میں اب مصیبت میں پڑ گیا ہوں۔کیا لے کر جاؤں۔قہوہ لے جانا پی اے نے صلاح دی۔ٹھیک ہے۔
وقت گذرنے لگا تھا۔دو ہفتے بعد شیرازی صاحب کے آفس میں کافی گہما گہمی تھی۔ایک 93 سالہ بزرگ ان کے سامنے بیٹھا تھا۔یہ لالہ زبیر الدین خان کے ذاتی ملازم رہ چکے تھے۔بزرگی اور بیماری کے باعث کافی غائب دماغ ہو چکے تھے پھر بھی کھبی کبھی کام کی بات کر دیتے تھے۔سیکرٹری کو بلاؤ۔شیرازی صاحب نے گارڈسے کہا۔جی سر سیکرٹری بھاگا آیا۔آج کی تمام میٹنگز کینسل۔میں یہاں پر نہیں ہوں۔ کھانے کا آرڈر دے دو۔جی سر۔اور پھر وہ مکالمہ شروع ہوا جس نے سجیل خان کی راہیں متعین کرنی تھیں۔یہ لالہ زبیر الدین خان کون تھے؟ شیرازی صاحب نے بابا رحیم سلطان خان کو جوس کے دو گلاس پلانے کے بعد سوال کیا۔آپ نہیں جانتے بابا سلطان نے مصومیت سے سوال کیا۔نہیں ۔آپ بتائیں ان کے بارے میں،وہ ہمارے دور پار کے بزرگ تھے۔ان کے بارے جاننا چاہتا ہوں۔ شیرازی صاحب نے اپنے جذبات کو پوشیدہ رکھا۔بابا سلطان کافی د یر آنکھیں بند کیے سوچتے رہے۔جیسے وہ کچھ یا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اذیت ان کے چہرے پر پوری طرح عیاں تھی۔مدتوں پیچھے جانا آسان کام نہیں تھااور پھر وہ تو بزرگ تھے۔اتنی جلدی یاد آنا بھی شائد ممکن نہیں تھا۔شیرازی صاحب کو بہرحال انتظار کرنا تھا۔
لالہ زبیر الدین خان بہت بڑے زمیندار تھے۔ہرنائی کے گرد ونواح میں وہ بے تاج بادشاہ تھے۔آپ جانتے ہیں نا۔ہرنائی۔ بلوچستان کا شہر ہے۔اب تو ضلع کا نام بھی ہے۔بابا سلطان نے سمجھانے کے انداز میں بتایا۔اس کی تاریخ پتہ ہے آپکو۔بابا نے یکدم آنکھیں کھول کر شیرازی صاحب کو دیکھا۔وہ بوکھلا سے گئے۔بابا کا یہ انداز تو نیا سا تھا۔یوں لگا جیسے بابا کہیں بلوچستان میں گم ہو گئے ہیں۔بابا جی آپ لالہ زبیر الدین کے بارے میں بتائیں۔نہیں ۔بالکل نہیں۔بابا نے شیرازی کی بات کاٹ دی۔لالہ زبیر خود ایک تاریخ ہے۔تاریخ کے بغیر بات آگے نہیں بڑھتی۔بابا نے کہا۔ٹھیک ہے بابا جی۔بتائیے۔شیرازی نے بور ہوتے ہوئے کہا۔اسے یہ تاریخ تو سُننی پڑے گی۔تاریخ بتاتی ہے، اشکوک اعظم کے بعد تقریباََ دو ہزار سال سے زائد عرصے تک یا تو برصغیر پر وسطی ایشیا،افغانستان،ایران ،عرب،یونان اور بعد کے زمانے میں برطانیہ سمیت دوسری یورپی اقوام حملہ آور ہوئیں اور اس وسیع رقبے کے ملک کو یا تو مستحکم کیا یا لوٹ مار کر کے رخصت ہو گئیں یعنی یہاں قومیں آتی رہیں اور ان علاقوں کو فتح کرتی رہیں۔پھر انگریز قابض ہو گئے۔انہوں نے کوئٹہ شہر بسایا۔سن کیا تھا یاد نہیں۔بابا ماتھے پر ہاتھ مار کر بولا۔ہاں یا آیا غالباََ 1878 کا سن تھاپھر انگریزوں نے ہرنائی سے کوئٹہ تک ریلوے لائن بچھا دی۔کتنا اچھا کیا۔بابا سلطان خیالوں میں ہرنائی کے ریلوے اسٹیشن پر گھوم رہا تھا۔مگر بلوچ اور دیگر قبائل نے بڑا نقصان کیا۔ادھر مری اور بگٹی قبائل بہت تھے۔اب تو ریلوے لائن کو تباہ کر دیا ہے، ظالموں اورد ہشت گردوں نے۔یہاں ایک وولن مل ہوا کرتی تھی۔کیا اعلیٰ کام تھا۔میں بھی اوائل جوانی میں اس میں کام کرتا تھا۔ہماری بھیڑوں کی اون جاتی تھی کارخانے میں۔اب تو یہ مل بھی کھنڈرات میں بدل گئی ہے۔یہ مل1971کے قریب چلتی تھی۔بس دنیا چیزیں بناتی ہیں ہم تباہ کرتے ہیں۔بابا بہت غمزدہ ہو گئے تھے۔یہیں تھے لالہ۔ان کے والد کی بہت سی زمینیں تھیں۔ انگریز کی ریلوے لائن ان کی زمینوں میں سے گزری تھی۔لالہ زبیر الدین نے یہیں آنکھ کھولی تھی۔پانچ بہن بھائی۔لالہ سب سے چھوٹے۔ لالہ نے ہرنائی کے سکول اور کالج میں پڑھائی کی۔پھر اگے پڑھنے کے لیے کراچی چلے گئے۔لیکن ان کا دل توہرنائی اور زیارت میں ٹکا رہتا۔یہاں اسکے والد صاحب کی کانیں بھی تھی،کوئلے کی کانیں۔بس ہرنائی کے ساتھ بڑی بڑی زیادتیاں ہوتی رہیں۔ہرنائی بلوچستان کا سب سے خوبصورت علاقہ ہے۔اور مشہور زمانہ زیارت کے قریب ہے۔صنوبر کے جنگلات ہیں اور زیتون کے جنگلات بھی ہیں۔آپکو پتہ ہے یہ زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے۔یہاں بہت سارے پھل بھی پیدا ہوتے ہیں۔بابا سلطان اپنی دھن میں بچے بن چکے تھے۔ بابا سلطان۔آپ تو ہرنائی صوبہ بلوچستان کی تاریخ بتاتے جا رہے ہیں۔مجھے لالہ کے بارے کچھ بتائیے۔دیکھو صاحب میں بھی پڑھا لکھا ہوں۔میڑک کیا تھاپھر گورنمنٹ کالج ہرنائی میں بھی داخلہ ہوا مگر ایف اے میں تھا جب والد صاحب،لالہ زبیر الدین کے والد صاحب کی کان میں اک تودہ گرنے کے باعث وفات پا گئے۔تب مجھے بابا کی جگہ کام مل گیا۔ان دنوں لالہ بھی وہاںآتے تھے۔ایک دن مجھے اپنے دفتر لے گئے اور اپنے کام پر رکھ لیا۔میں چونکہ پڑھا لکھا تھا ا س لئے حساب کتاب بھی دیکھنے لگا۔لالہ کی محبت نے مجھے وہاں سے کہیں جانے ہی نہیں دیا۔میں لالہ زبیر کا سایہ بن گیا۔ہم اکٹھے شکار کھیلنے جاتے۔مارخور کا شکار کرتے۔چکورکا بھی۔پھر ہم گرمیوں میں زیارت چلے جاتے۔وہ کیوں؟ شیرازی صاحب نے لقمہ دیا۔صاحب ہرنائی میں بہت گرمی پڑتی تھی۔حالانکہ دونوں علاقے قریب قریب ہیں پھر بھی ایک گرم اورسردہے۔بس زندگی یونہی گزرتی رہی۔لالہ نے اپنے علاقے کی ترقی کے لیے بھی کافی کام کیا۔بہت سے سکول بنوائے۔لوگوں کوروزگا ردیا۔ایک اور بات بتاؤں۔جی ضرور۔وہاں قبائل کی لڑائیاں بہت ہوتی ر ہتی ہیں۔کسی نہ کسی بات پہ ہوتی رہتی ہیں۔یہ بلوچستان میں عام ہے۔لالہ کے بھی بہت سے دشمن تھے۔تودشمنیاں بھی چلتی رہتی تھیں۔کوئٹہ میں لالہ کے والد صغیرالدین خان صاحب کے ایک دوست اور دور کے عزیز تھے۔وہ بہت عرصہ سے کوئٹہ میں رہتے تھے۔ان کا بیٹا فوج میں چلا گیا تھا۔ان کی بھی بہت دشمنیاں تھیں۔ لیکن گل ضمیر چونکہ فوج کے میجر تھے اس لیے ان کا خاندان بچا رہتا تھا۔بابا سلطان آپ کدھر کو نکل گئے۔مجھے تو لالہ زبیر الدین اور سجیل خان کے بارے جاننا ہے۔وہی توبتا رہا ہوں۔لالہ زبیرالدین نے دو شادیاں کیں مگر اولاد سے محروم تھے۔ان کے باقی بھائیوں کی اولادیں تھیں۔
وہ اکثر کراچی جاتے رہتے تھے اور ان کے بہت گہرے دوست میجر گل ضمیربھی کراچی میں ہی رہتے تھے۔ان کی بیوی وہاں کے ایک سیٹھ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ان کا ایک بیٹا تھا۔آزان ضمیر۔ایک بدقسمت دن میجر کی فیملی لالہ کے ساتھ سمندر کنارے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے۔میں بھی لالہ کے ساتھ ہی تھا۔اچانک ایک ٹیکسی پر کچھ لوگ آئے،بندوقیں نکالیں اور ھڑادھڑ گولیاں چلا دیں۔چار گولیاں میجر کو لگیں۔خوف و ہراس پھیل گیا۔بھگدڑ مچ گئی۔لالہ نے اپنی تکلیف بھول کر جلدی سے میجر کو پکڑا۔سنو لالہ میرے بیٹے کو ساتھ لے جاؤ۔اور بچا لو۔اپنا بیٹا بنا لو۔وہ لوگ اسے بھی مار ڈالیں گے۔پولیس آئے تو کہنا تمہارا بیٹا ہے۔پھر پولیس،ہسپتال،دشمنی،بدلہ اور نجانے کیا کیا چلتا رہا۔لالہ کو بچے کی فکر تھی۔پہلے ماں اور پھر باپ دونوں دم توڑ گئے۔لالہ بھی ہسپتال میں تھے۔ان کے بازو کی گولی نکال دی گئی۔بچہ بُری طرح سہم چکا تھا۔اسکی آنکھوں کے سامنے ماں باپ تڑپتے رہے۔ان کا بہتا خون اس نے دیکھا۔وہ چیخنا چاہتا تھا۔بس اپنی چیخ اندر ہی دبا گیا۔بچے کو میں ہی سنبھالتا رہا۔سیٹھ نے بچے کو لینے کی بڑی کوشش کی۔میڈیا میں بھی شور مچایا۔مگر لالہ نے کسی کی بھی نہ چلنے دی۔ میجر کے آخری الفاظ اسے کبھی بھولے ہی نہیں۔وہ اسے بھی مار ڈالیں گے۔لالہ کے لیے اسے ہرنائی میں رکھنا مشکل تھا۔دشمنوں کو خبر تھی کہ لالہ زبیرالدین میجر گل ضمیر کا دوست ہے۔چونکہ لالہ کی حثیت مستحکم تھی لہذا وہ لالہ کو کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔لالہ نے بچے کے بارے خود فیصلہ کیا۔سیٹھ صاحب کو سمجھا دیا گیا تھا کہ بچے کی زندگی کو خطرہ ہے اس لیے چپ رہیں اور وہ چپ ہو گئے۔
بیٹھے بیٹھے ووپہر ہو گئی تھی۔صاحب مجھے تو بھوک لگ گئی۔اب نہیں بولا جاتا وہ بیٹھے بیٹھے ہانپ گئے۔گھنٹی بجی چوکیدار جلدی سے اندر گیا۔ کھانا لے آؤ۔کھانا لگ گیا۔بابا جی کھانا کھانے لگے۔آپ بھی کھائیں۔میں ذرا پرہیزی کھانا کھاتا ہوں۔ابھی آجائے آپ بسم اﷲ کریں۔ ویسے مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟آپ کو لالہ سے کیا دلچسپی ہے؟بابا جی آپ پہلے ساری کہانی مجھے بتائیے پھر میں آپ کو کہانی سُناؤں گا۔ہاں ضرور پوچھیں۔لالہ تو کبھی مجھے بھولے ہی نہیں۔بس آج تو انہیں بہت یاد کر لیا ہے۔بہت دُکھی ہو گیا ہوں ۔لگتا ہے جیسے ابھی مجھے آواز دیں گے،سلطان! اور میں کہوں گا جی سلطان کی جان! اور وہ زور سے قہقہ لگائیں گیااور کہیں گے تم تو میری اماں جان بن جاتے ہو۔میری جان قربان لالہ۔اور وہ کہتے سلطان،میں اپنے بعد صرف تم پر بھروسہ کرتا ہوں۔بابا کی آنکوں میں آنسو آ گئے۔لالہ تم کہاں چلے گئے۔بابا سلطان باقاعدہ رونے لگے۔بابا سلطان حوصلہ کرو۔آپ نے تو عمر گذاری ہے ان کے ساتھ۔اس بچے کا پھر کیا بنا۔ شیرازی صاحب اصل موضوع کے قریب تھے۔انہوں نے کراچی میں ہی مجھے کہا تھا کہ اگلی فلائٹ سے بچے کو لاہور میرے دوست کے پاس لے جاؤ۔میں بعد میں آتا ہوں۔ہم چونکہ بچے سے اکثر و بیشتر ملتے رہتے تھے اس لیے بچہ ہمارے پاس گھبرایا تو نہیں بس چپ ہو گیا۔چپ شیرازی صاحب چونک گئے(سجیل خان)۔پھر! میں لالہ کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا مگر یہ کام بھی اہم تھا۔لالہ کے دو بھائی اور دو بہنیں ان کے پاس پہنچ گئے تھے۔بیویاں بھی آگئی تھیں۔میں اذان ضمیر کو لے کر لاہور آ گیا۔یہاں ڈاکڑ شہزاد اجمل لالہ کے یونیورسٹی کے وور کے گہرے دوست تھے میں ان کے گھر آیا۔ان کو ساری کہانی سنائی۔وہ بہت دُکھی ہوئے۔اپنی انیکسی ہمیں رہنے کو دے دی۔لالہ نے اخراجات کے لیے ایک بڑی رقم کا چیک مجھے دیا۔وہ بچے سے بہت پیار کرتے تھے۔آہستہ آہستہ بچہ ان سے کافی مل گیا۔ میں بچے کو روز سیر کروانے لے جاتا۔ڈاکڑ صاحب کے بچے بھی اس پیارے سے بچے کا بہت خیال رکھتے تھے ۔اپنے ساتھ خو د کھانا کھلاتے تھے۔کھیلتے۔سیر کے لیے لے جاتے۔لالہ روز ٹیلی فون کر کے اس کا حال پوچھتے۔لالہ نے مجھ سے کہا،لاہور میں کوئی اچھا سا گھر دیکھو۔اذان ضمیر کے نام سے خریدو۔ڈاکڑ کے گھر کے قریب ہی ایک خوبصورت گھر مل گیا۔لالہ خود آئے۔ڈاکڑ شہزاد کا شکریہ ادا کیا۔
لالہ میرا ایک مشورہ ہے۔ہاں کہو ڈاکڑ۔لالہ اگر تم اسے اپنا بیٹا بنا کرپالنا چاہتے ہو تو اس کو اپنا نام دو۔لالہ کچھ دیر سوچتے رہے۔اس کا نام اس کے حفاظتی نقطہ نظر سے تو تبدیل کر سکتا ہوں۔مگر وہ اپنے والدین کے بارے جانتا ہے۔اور پھر یہ میرے دوست کی اکلوتی نشانی ہے۔
ولدیت وہی رہے گی،نام بدل دیتا ہوں۔ہا ں چلو یہ ٹھیک ہے۔ڈاکڑ نے کہا۔یوں بچے کا نام اذان ضمیر سے سجیل خان ولد گل ضمیر خان ہو گیا تھا۔شیرازی نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔تو بلاآخر سجیل خان کا عقدہ حل ہو گیا۔وہ واقعی ایک بڑے خاندان کا چشم چراغ ہے، معمولی بچہ نہیں ہے۔شکر ہے خدا کا۔میری بیٹی کی پسند معمولی نہیں ہے۔اب میں بے فکر ہوں۔میری بیٹی اس کی وجہ سے کتنی اذیت میں رہتی ہے۔پھر کیا ہوا؟ شیرازی صاحب نے اب کے سکون سے پوچھا۔وہ بہر حال اس کے بارے جاننا چاہتے تھے۔کھانا پسند آیا۔ہاں ہاں بیٹے۔اب کے بابا جی کافی ریلیکس تھے۔
یہ بھی ایک لمبی کہانی ہے۔آج سے 25 سال پہلے کی کہانی۔سجیل خان کو سب پیار سے سجو بابا کہتے تھے۔ان کو ڈاکڑ شہزاد کے بچوں کے ساتھ بڑے سکول میں داخل کروایا گیا۔ایک گارڈ اور ڈرائیور ہمیشہ سجو بابا کے ساتھ ہوتے۔لالہ زبیر ایک لمحے کی غفلت بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔لالہ کو کاروبار کی وجہ سے بلوچستان میں ہی رہنا پڑتا لیکن ان کا دل لاہور میں ہی لگا رہتا۔اپنی کوئی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ساری شفقت،محبت سجو بابا کے لیے تھی۔سجو بابا تھے تو بچے مگر ایک چپ نے انہیں جکڑ لیا تھا۔بہت کم ہنستے۔بہت کم کھیلتے۔بس چپ چاپ الگ تھلگ رہتے،سکول کا کام کرتے رہتے۔لالہ اسے دیکھ کر بہت دُکھی ہو جاتے۔کون سی نعمت تھی جو سجو کے لئے انہوں نے مہیا نہیں کی۔کچھ عرصے کے بعداپنی چھوٹی بیوی کو مستقل سجو کی دیکھ بھال کے لیے بھیج دیا۔
سجو کے لیے تو سب کچھ حاضر تھا۔پھر وقت گزرنے لگا۔میجر صاحب کے دشمن ان کے بیٹے کی تلا ش میں تھے۔یوں وہ لالہ زبیرالدین کا پیچھا بھی کرتے رہتے۔خاندانی اور زمینوں ،جائیدادوں کے جھگڑوں نے سینکڑوں لوگوں کو موت کی بھینٹ چڑھا دیا تھا پھر بھی یہ آگ ٹھنڈی نہ ہو سکی تھی۔میجر گُل ضمیر کے دادا نے اپنے دادا کی زمین حاصل کرنے کے لیے اپنے ہی چچاؤں اور ان کے بچوں کا خون بہایا۔پھر انہوں نے بھی ان کے بہت سے لوگوں کو مارا۔ایسی دشمنی لی جو جنگوں کی صورت اختیار کر جاتی۔نسلوں کی نسلیں بدلے کی آگ میں جلتی تھیں۔عورتیں بھی پس جاتیں۔عزت،غیرت بس نام کی رہ جاتی۔پولیس،پولیٹیکل ایجنٹ،حکومتی کارندے اس خونی جنگ کو رکوانے کی اپنی سی کوشش کرتے تھے۔جرگے بیٹھتے تھے مگر لاحاصل۔مقدمے بازیاں،گرفتاریاں،پھانسیاں،سزائیں،قبضے۔کچھ بھی نہ اس جنگ کو روک سکا۔کہیں نہ کہیں کوئی قاتل ضرور پلتا رہتا۔میجر کی نسل نے بھرپور کوشش کی کہ اس جنگ کو روکا جا سکے۔امن کی کوئی صورت پیدا ہو،اگلی نسلیں بچ جائیں ۔مگر وہ ناکام رہے۔حتیٰ کہ اپنا آبائی علاقہ بھی چھوڑ دیا اور کراچی شفٹ ہو گئے۔اپنی ساری زمین جائیداد بھی تایا زادوں اور چچاؤں کے نام کر دی۔مگر وہ نفرت کی اس آگ کو نہیں بجھا سکے جو اب تک سلگ رہی تھی۔یوں میجر گل ضمیر کو اپنے دادا کے گناہوں سزا بھگتنا پڑی۔مگر دشمنوں کے سینے میں لگی آگ ٹھنڈی نہ ہو سکی۔وہ جانتے تھے گل ضمیر کا ایک بیٹا بھی ہے۔وہ اس کا تخم ختم کر دینا چاہتے تھے۔مگر وہیں انہیں لالہ زبیر الدین جیسے ایک با اثر شخص سے واسطہ پڑا۔بچے کو لالہ سے چھین لینا آسان نہیں تھا۔پھر بھی وہ اپنی سی کوشش تو کرتے رہتے۔
سجو خان ایک بیبا بچا تھا۔ماں باپ کی خون میں لت پت لاشیں دیکھنے والا۔گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سننے والا۔انسانی بربریت کی نشانیاں اس کے دماغ میں تھیں۔بس وہ چپ رہتا۔جیسے وہ کچھ سوچتا رہتا۔کچھ کھوجتا رہتا۔اتنی چھوٹی سی عمر میں ہی وہ جانتا تھا کہ اس کے ماں باپ مر چکے ہیں۔اس کے ہر سال اول آنے پرلالہ جشن مناتا۔وہ گورنمنٹ کالج سے بی ایس سی کر رہا تھا جب خدا نے لالہ کی دُعا سُنی۔ اس کی چھوٹی بیوی ماں بننے والی تھی۔لالہ کی سجو سے محبت اور بڑھ گئی۔ادھیڑ عمر میں لالہ کا وارث آنے والا تھا۔جیسے ہی سجو کی فرسٹ ڈویثرن،سکالر شپ اورگولڈ میڈل ملنے کی خبر آئی۔وہیں لالہ کے گھر دو جڑواں بیٹے پیدا ہوئے تو سارے ہرنائی اور اردگرد میں بھر پور جشن منایا گیا۔غریبوں میں خیرات کی گئی۔لالہ کا بس نہ چلتا تھا کہ بچوں کو لاہور لے جاتا اور سجو سے ملواتا۔سجو بھی خوش تھا کہ بابازبیر الدین کی جھولی خدا نے بھر دی تھی۔اکٹھے دو بیٹوں کے ساتھ۔مگر سجو ہرنائی نہیں جا سکتا تھا۔کوئٹہ تو بالکل بھی نہیں۔ہرنائی میں جشن کے دوران ہی لاہور میں لالہ کے لے پالک بیٹے سجو کی خبریں بھی عوام میں پھیل گئیں۔دشمنوں تک بھی خبر پہنچی تو وہ تڑپ اٹھے۔تو میجر کا بیٹا لاہور میں ہے۔لاہور کون سا دُور ہے۔ ڈھونڈھ لیں گے۔تایا زاد کبیر گل نے نفرت سے کہا۔اپنے باپ اور بھائیوں کا بدلہ تو پورا کرنا ہے نا۔ ملازموں کوجاسوسی پر لگا دیا گیا۔
وہ باٹنی پڑھنا چاہتا تھا۔پھولوں،پودوں،درختوں سے اسے بچپن سے لگاؤ تھا۔وہ گھنٹوں درختوں کے پاس بیٹھا انہیں دیکھتا۔ان سے باتیں کرتا۔وہیں ایک دن گھر کے خوبصورت سے گارڈن میں ایک درخت سے باتیں کرتے اچانک ہی شہلا شہزاد اندر آئی۔سجو نے شہلا کی ہنسی سُنی تو یکدم پلٹ کر دیکھا۔اچھاتو جناب باٹنی پڑھیں گے۔ہُن۔میں بھی باٹنی میں ہی داخلہ لے رہی ہوں۔شہلا نے شوخی سے کہا۔وہ زندگی سے بھرپور،پیاری سی، نازک سی لڑکی تھی۔بچپن میں اکٹھے پڑھ کر جوان ہوئے تھے۔مگر سجو کی خاموش طبعت کی وجہ سے یہ گپ شپ صرف گھر تک محدود رہتی۔کبھی آگے بڑھ کر محبت تک نہیں پہنچی تھی۔حالانکہ شہلا ایک مدت سے سجو کو اندر ہی اندر پسندکرتی اور سراہتی بھی تھی۔ شہلا کے والدین بھی اس سلجھے ہوئے لڑکے کو پسند کرتے تھے۔شہلا کا بھائی ارمان بھی سجو کا اچھا دوست تھا۔ارمان سے چھوٹا احسان، سجوکا زیادہ دوست تھا۔یوں سجو کو فیملی کی کمی کبھی محسوس نہیں ہوئی۔اتنے چاہنے اور محبت کرنے والے لوگ اردگرد تھے۔مگر آپ تو سی ایس پی آفیسر بننا چاہتی تھیں۔بس موڈ بدل گیا۔بس اب پھولوں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔سجو نے چونک کر اسے دیکھا۔شہلا کی نیلی آنکھوں میں کچھ ایسا تھاجو پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا۔سجو کچھ دیر کو حیران ہوا۔عجیب سا گدگداتا ہوا جذبہ تھا۔
ہُن۔تو آپ اب پھولوں سے باتیں کریں گی۔ہاں تو۔وہ لاڈ سے بولی۔چہرے پر بلا کی رونق اور شرماہٹ تھی۔سجو کو پہلی مرتبہ شہلا بہت پیاری لگی۔شرماتی،گنگناتی رواں ندی کی مانند،جو اپنا احساس کروا کے گزر تی ہے۔وہ یہ کہہ کر بھاگ گئی۔سجو کتنی ہی دیر سوچتا رہا۔اسے پتہ چل گیا تھا کہ شہلا اسے پسند کرنے لگی ہے اور اب اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔(ناٹ بیڈ) اس سے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ دونوں نے باٹنی میں سٹڈی شروع کر دی۔سارادن مشکل مشکل پودوں ،درختوں کے نام یاد کرنا۔ان کی کارکردگی،ان کی صفات،اجناس، عوامل،انسانی صحت پر ان کے اثرات،ان کی پیدائش،ان کی عمر،ملکوں ملکوں ان کے بڑھنے پھلنے پھولنے کے طریقے،مختلف آب و ہوا، مختلف قسم کی مٹی میں ان کی پیداوار،صدیوں ،سالوں پرانے درخت پودے،ان کی عمروں پر تحقیق۔اف توبہ۔Not a easy job آسان نہیں ہے۔ایک دن وہ ناشتہ کرتے ہوئے بولی،پتہ نہیں سجو کیسے کر لیتا ہے یہ سب۔اور ڈاکڑ صاحب نے بیٹی کی اس بے تکلفی پر غور کیا۔مسکرائے۔تو سجو سٹڈی میں تم سے بہتر ہے۔ہاں ڈیڈی۔شہلا نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔وہ تو گولڈ میڈلوں کے پیچھے پڑا ہے۔اسے تو تحفے میں درخت اور پودے ملنے چاہیے۔ ڈاکڑ صاحب ہنس پڑے۔جیلس نہیں بے بی۔خود بھی محنت کرو۔ہاں ڈیڈی کرتی تو ہوں۔دیکھ لویہ سبجیکٹ تم نے خود منتخب کیا ہے۔شائد سجو کو دیکھ کر۔او ڈیڈی ہر قسم کی پڑھائی مشکل ہے۔تو ابھی کچھ نہیں بگڑا،مضمون بدل لو۔ نہیں ڈیڈی۔ اب یہی پڑھوں گی۔ٹھیک ہے۔سجو سے ہیلپ لیا کرو۔ڈیڈی نے دیکھا۔سجو کے نام پر وہ مسکرائی تھی۔اس کی آنکھوں میں جو تھا وہ ڈیڈی کو پتہ چل گیا تھا۔تو یہ بات ہے۔سجو کو پسند کرنے لگی ہے۔پتہ نہیں سجو کا کیا رویہ ہے۔ہاں شہلا بیٹی۔سجو کو کہنا شام کا کھانا ہمارے ساتھ کھائے۔جی ڈیڈی۔وہ یکدم کھل سی گئی تھی۔بیٹی سے محبت بھی تو بہت تھی۔اس کے چہرے پر آزردگی کی لہر نہیں دیکھ سکتے تھے۔اور سجو کے ساتھ تو عمر گزری تھی۔بُرا نہیں۔اگر سجو اس گھر کا داماد بن جائے تو۔وہ تو دور تک سوچتے ہوئے بیگ پکڑے ہاسپٹل روانہ ہو گئے۔
وقت اپنی رفتار سے چلنے لگا۔دونوں اکثر اسائنمنٹ سنبھالے جناح گارڈن کے بوٹینیکل گارڈن میں درختوں سے چپکے پائے جاتے۔انہی درختوں میں چلتے ان پودوں سے باتیں کرتے۔وہ دونوں اپنی باتیں کرنے لگے تھے۔شہلا جتنی شوخ تھی سجو اتنا ہی خاموش اور سنجیدہ مگر جوڑی بڑی شاندار تھی۔لالہ اس مرتبہ کافی دیر کے بعد لاہور آئے تو بیوی بچوں کو بھی ساتھ لائے۔سجو خوش ہو گیا۔وہیں ڈاکڑ صا حب نے لالہ سے کھانے پر گپ شپ کرتے سجو کی شادی کے بارے بات چھیڑ دی۔سجو کی شادی! یار ابھی اسے جاب کرنے دو۔او ۔لالہ یار جاب ہی کرنی ہے ساری زندگی۔پتہ نہیں ابھی اس کا کیا موڈ ہے؟ لالہ تھوڑے تذبذب سے گویا ہوئے۔پوچھ لیتے ہیں۔ڈاکڑ نے جلدی سے کہا۔ ڈاکڑ میں جانتا ہوں رشتہ تمہارے گھر میں ہے۔ہے نا۔دونوں زور سے قہقہ لگا کرہنس پڑے۔لو جی پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔پھر بھی میں سجو سے بات کر لوں۔پھر۔ہاں کروں گا۔میں اس کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا۔لالہ نے کہا۔ٹھیک ہے لالہ۔ایسا ہی ہونا چاہیے۔ویسے وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔میں اور میری بیوی دونوں خوش ہیں۔تو میں بھی خوش ہوں۔بس سجو کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔ چلو بات کر کے پھر کوئی فنکشن رکھتے ہیں ان کے لیے۔ٹھیک ہے۔لالہ زبیر الدین خوش ہو گئے۔دن بھر سیرو سیاحت،ہوٹلنگ،شاپنگ۔لالہ کے بچے ظہیر اور سمیر تو سجو کے پکے دوست بن گئے تھے۔وہ اس کے کمرے میں گھستے اور اس کے کان کھاتے رہتے۔وہ بھی کچھ دیر کو سارا ماضی بھول جاتا اور بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتا۔بچے اسے سجو بھائی جان کہتے تو لالہ کا سیروں خون بڑھ جاتا۔تم میرے بڑے بیٹے ہو۔لالہ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔پہاڑوں میں رہنے والے محبت میں بھی انتہا کر دیتے ہیں۔اور یہ محبت تو بلوچستان کے پہاڑوں سے بھی بلند اورگوادر کے سمندر سے گہری تھی۔وقت کا گھوڑا دُلکی چال چلتا رہا۔سجیل خان آج آپ سے کچھ خاص بات کرنی ہے۔وقت ہو تو کہیں بیٹھ کر بات کریں۔جی با با۔ضرور۔دونوں چائے کے کپ لے کر آم کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ارے کافی بُور پڑا ہے۔ہاں با با۔پچھلے سال بھی اچھا پھل لگا تھا۔با با ہرنائی ادر زیارت دیکھنے کو دل کرتا ہے۔کیا میں وہاں کبھی نہیں جا سکتا۔سجیل نے اتنی حسرت سے کہا کہ با با کا دل کٹ کر رہ گیا۔تم پہاڑوں کے بیٹے ہو،تم جانتے ہو کہ وہاں تمہاری جان کے دشمن تمہاری گھات میں ہیں تمہای زندگی اور حفاظت کی خاطر تمہیں یہاں روک رکھا ہے ،کوشش کروں گا کسی وقت تمہیں وہاں لے جا سکوں۔بابا وہاں آ پ کی کوئلہ کی کانیں ہیں ۔میں انہیں بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ہاں ضرور۔جب آپ کی مرضی ہوئی۔اچھا اب ایک خاص بات سنو۔تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے۔اس نے حیرت سے بابا کی طرف دیکھا۔ لڑکی۔یکدم شہلا چھلانگ لگا کر اس کی آنکھوں میں اتر آئی۔بابا آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔تمہاری شادی کے بارے سوچ رہا ہوں۔ شادی۔بابا ابھی تو میں پڑھ رہا ہوں۔جاب کرنی ہے۔تو پڑھتے رہو۔نوکری کا بھی سوچ لیں گے۔ابھی تو ہم منگنی کرنا چاہتے ہیں۔ہم۔ ہاں میں او ر ڈاکڑ شہزاد۔تو آپ پہلے سے فیصلہ کر چکے ہیں۔تمہاری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔تم اگر انکار کر دو تو ہمیں سب منظور ہو گا۔بابا آپ جانتے ہیں کہ میں انکار نہیں کر سکتا۔جیسے آپ کی خوشی۔میرا بیٹا۔بابا نے سجیل کا ماتھا چوم لیا۔
بابا ایک بات ہے۔کہ امتحان قریب ہیں یہ تقریب امتحانوں کے بعد رکھیں تو بہتر ہے۔جیسے تمہاری خوشی۔جب کہو گے تب۔ڈاکڑ شہزاد بھی خوش ہو گئے۔طے پایا کہ پیپر ختم ہونے کے بعددھوم دھام سے منگنی کی رسم ادا کی جائے گی سجیل تو نارمل ہی تھامگر شہلا کے تو پاؤں زمین پر نہ ٹک رہے تھے۔فوراََ ہی اس کا فون آ گیا۔مبارک ہو سجیل خان۔سُنا ہے تم نے ہاں کر دی ہے۔شہلا شرارت سے گنگنائی۔تو آپ اس محاذ پر کامیاب ہو گئیں۔تم خوش نہیں ہو۔شہلا یکدم اداس ہو گئی ۔ارے میں نے ایسا کب کہا۔تم لڑکیاں بھی نا بس۔ تم خوش تو میں خوش۔اب خوش۔ شہلا کھلکھلا کر ہنس پڑی۔تم زندگی سے بھری ہوئی ہو اور مجھے زندگی کی طرف لے آئی ہو۔تمہارا شکریہ۔لو ۔یو۔ ڈئیر۔بس یونہی میری زندگی میں شامل رہو۔او کے۔او کے۔
پیپرز سر پر آ گئے ہیں۔باقی سب باتیں اس کے بعد۔او ۔کے باس۔شہلا نے مسکرا کر فون بند کر دیا۔پیپرز ہو گئے۔کتنے ہی دن تو جاگتے رہنے کی تھکن اتارنی تھی۔لالہ واپس جا چکے تھے۔ شہلا کو جب بھی موقع ملتا سجو سے ملنے آ جاتی۔ مسٹر سجیل خان۔ وہ سٹڈی میں کسی کتاب میں گم تھا۔وہ آوازیں دیتی اندر آئی۔اف یہ کتابیں،یہ درخت۔میں کہیں ہوں آپ کی زندگی میں کہ نہیں۔وہ شکوہ کرتی سامنے بیٹھ گئی۔ آپ کہاں کتابوں اور درختوں سے باتیں کرنے دیتی ہیں۔جب دیکھو آفت بنی آپ ہمارے حواسوں پرنازل ہوئی رہتی ہیں۔آپ تو مڑ، بینگن ،شلجم،گاجر،پیپل،چیڑ،پڑتل،دیار،صنوبر،گلاب چنبیلی میںآپ کی ہی صورت آویزاں رہتی ہے۔اف یہ باٹنی ۔شہلا نے منہ بسورا۔ چلو میں کچھ بنا کر لاتی ہوں۔وہ آنکھیں بند کئے کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھاجب ایک نرم سے ہاتھ نے اس کے خوبصورت بالوں کو چھوا۔ سجیل نے اس کے کندھے سے ٹکا دیا۔شہلا کے نرم ہاتھ اس کے بالوں کا مساج کر رہے تھے۔سجیل جیسے کسی دوسری دنیا میں تھا۔ نرم بادلوں پر اڑتا ہوا۔چہرے پر سانسوں کی گرمی بکھری تو سجیل نے آنکھیں کھول دیں۔شہلا کا چہرہ اس کے اوپر تھاعجیب خمار تھا ان نیلی آنکھوں میں۔لرزتے ہونٹ جل رہے تھے۔اس سے پہلے کہ یہ آگ سجیل کے ہونٹوں تک پہنچتی۔سجیل نے شہلا کا ہاتھ پکڑا۔بیٹھو۔سجیل کیا ہوا وہ خمار آلودہ آواز میں بولی۔صرف ایک Kiss کرنے دو،ترس رہی ہوں۔جانتا ہوں۔بس ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔بیٹھو ادھر۔ سجیل نے اس کا نرم سا ہاتھ پیار سے دبایااس کے خوبصورت بالوں کو چھوا۔آؤ چائے پئیں۔تم بہت اچھی چائے بناتی ہو۔ یہ دیکھو مجھے کتنی عمدہ کتاب ملی ہے۔شہلا بہت سنجیدہ تھی۔کیا ہوا۔ اتنی چپ۔سجو خان کبھی کبھی لگتا ہے جیسے ہم کبھی مل نہیں پائیں گے۔اک فرشتہ اس کوشش کے درمیان جگہ بناتا رہتا ہے ۔شہلا ڈئیر! تم تو بچپن سے جانتی ہو میری ٹریجڈی کو۔میں تمہیں اپنی ٹریجڈی میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا۔لیکن تمہاری محبت اور خوشی کے آگے ہار گیا ہوں۔اور یہ کہ سارے خدشات کے باوجود تم مجھے اچھی لگتی ہو۔تمہارے لیے ڈرتا تو ہوں پر کیا کروں؟ بہت مطلب پرست ہوں۔اک زخمی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی ۔شہلا اٹھی اور بھاگ کر اس کے بازؤں میں سما گئی۔میری زندگی بھی تمہیں لگ جائے سجیل۔خوبصورت آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھی۔سجیل نے اس کے نازک ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔ایسا نہ کہو۔تم لمبی زندگی جیو میری جان۔ماحول مکد رہو گیا۔دونوں نے اداسی سے چائے پی۔سجیل بہت اداس تھا۔والدین کے مقتول ہیولے اس کے سامنے رقص کرنے لگتے اور وہ ڈر کر منہ چھپانے لگتا آج پچیس سال بعد بھی وہ زخم تازہ تھے۔ منہ پر کپڑا لپیٹے لوگ آج بھی خوابوں میں اسے ڈراتے تھے۔کتنی ہی دیر وہ اپنے مستقبل کی باتیں کرتے رہے۔شہلا کب کی جا چکی تھی مگر اس کے اندر ایک مستقل خوف جگا گئی تھی۔اسے اپنی نہیں شہلا کی فکر تھی یہ نازک سی لڑکی کہیں دُکھوں میں نہ گھِرجائے۔میری زندگی کا کیا بھروسہ کب دشمن آجائے ۔وہ ڈرپوک نہیں تھا۔بس محبت سے بھرے رشتوں کو اپنی ذات سے دُکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔خوابوں کی دنیا بھی کتنی خوفناک تھی۔خوف لفظ بن کر اس کی سوچوں میں اترنے لگے تھے۔وہ شام کے جھٹپٹے میں آئے ہیں۔ان کے سائے خوفناک اور لمبے ہیں وہ ہڈیوں سے ماس الگ کرتے ہیں۔ان کے ہاتھوں میں شعلے ہیں۔ وہ درختوں کو جڑوں سے کھودتے اور آگ لگاتے ہیں۔وہ اس کی ازل اور ابد کا فیصلہ کرتے ہیں۔انسان ہو کر خدا کا کام کرتے ہیں۔
صبح ہی صبح فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ رابعہ دیکھو کون ہے؟ لالہ نے بیوی کو آواز دی۔دیکھتی ہوں۔فون اٹھایا تو سجیل خان کا تھا۔سجیل خان ہے۔ بات کرنا چاہتاہے آ پ سے۔کوئی خاص بات لگتی ہے۔رابعہ فون لے کر لالہ کے کمرے میں چلی آئی۔اچھا جاتُو۔چائے لے آ۔ہاں میرے بچے، لالہ کی محبت میں ڈوبی ہوئی آواز ابھری۔بابا کیسے ہیںآپ ؟ کیا بات ہے سجیل بیٹا۔پریشان لگتے ہو۔بابا مجھے بُرے بُرے خواب آتے ہیں۔شہلا کل آئی تھی وہ بھی پریشان تھی۔کہتی تھی کچھ ہونے والا ہے۔بابا آپ خبر رکھیں۔مجھے اپنی فکر نہیں۔میں نہیں چاہتا میری وجہ سے میرے پیاروں کو دُکھ ملے۔کیا مطلب؟ لالہ پریشان ہو اٹھے۔تم یہ آج کیسی باتیں کررہے ہو؟بابا دشمنوں کا کیا بھروسہ ان کا اگلا شکار تو میں ہوں نا۔سجیل روہانسا ہو گیا۔ان دشمنوں کی ماں کی۔۔۔ ایسی کی تیسی ان کی۔اب انہوں نے کچھ کیا توان کو کوئلے کی کانوں میں دفن کر دوں گا۔لالہ غصے میں آگئے۔تم فکر نہ کرو۔پہلے وہ میری لاش سے گزریں گے۔فضول باتیں نہ سوچو۔شہلا کو منگنی کی شاپنگ کرواؤ۔اس کی پسند کی چیزیں لینا ۔ ہم جلد آ کر تیاری شروع کرتے ہیں۔میرا بچہ فکر نہ کرو۔میں نے بھی جاسوس چھوڑے ہوئے ہیں۔کوئٹہ میں ان کے گھر میں میرا بندہ ان کا ملازم ہے۔آزادی سے رہا کرو۔آگے گارڈز کو بٹھایا کرو۔خود پچھلی سیٹ پر بیٹھا کرو۔میں آتا ہوں چند دنوں تک۔لالہ نے سجیل کا کتھارسس کیا۔ڈرو مت میرے بچے زندگی اﷲکے ہاتھ میں ہے۔تم بہادر باپ کی بہادر اولاد ہو۔بہادر موت سے نہیں ڈرتے۔موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو تو وہ تم سے ڈرے گی۔بابا میں نہیں ڈرتا۔بس میری وجہ سے آپ لوگوں کو کوئی دُکھ نہ ملے۔تم ہماری خوشی ہو لالہ نے کہا۔میں جلد ہی آکر منگنی کی تاریخ طے کرتا ہوں۔انجوائے کرو میری جان۔لالہ نے اسے بہادر بنانے کی بہت باتیں کیں۔اس کا ڈر دور کرنا چاہا مگر اپنے اندر وہ ہل کر رہ گئے۔ یہ اچھا شگون نہیں۔کیسے جئیں گے اگر یہ لوگ خوفزدہ رہے توشہلا کا کیا قصوروہ تو محبت کے اندھے راستوں پربغیر کچھ دیکھے بھاگنے لگ تھی۔
موبائل بج رہا تھا۔زور آور خان نے مڑ کر دیکھا۔قادر خان کا فون تھا۔لالہ کی کال تھی۔ جی بھائی۔ہاں جی۔جلد آنے کی کوشش کروں گا۔ ہاں ٹھیک ہے۔اچھا اسے تسلی دو میں ادھر بھلا چنگا ہوں۔زور آورخان کا نوکر ہوں مذاق نہیں ہے۔زور آور خان نے اپنا نام سُنا تو مونچھوں کو تاؤ دینے لگا۔اچھا اب نکل کر گاڑی نکال۔محسن سائیں سے ملنے جانا ہے۔جی خان جی۔زور آور خان کے ساتھ محسن سائیں کی مصروفیت کچھ زیادہ ہی تھی۔وہ اسے مشورے دیا کرتا تھا۔
محسن سائیں کا ڈیرہ بھی کمال کی جگہ تھی۔کنالوں پر پھیلا ڈیرہ جہاں جنگل ہی جنگل تھا۔جنگلی جھنڈ،بیریاں اور قسم قسم کی بوٹیاں وافر تھیں۔ ایک طرف بڑا سا ہال تھاجس میں دور دراز سے آنے والے عقیدت مند ٹھہرے۔پیر سائیں سے دُعا کروانے آتے۔یوں اپنے کم عقیدہ ہونے اور طرح طرح کے وہموں کا شکارتعویز گنڈوں پر اعتماد،قبر پرستی،پیر پرستی،مزار پرستی اور ہر طرح کے دھاگے،پُھل،پتے ،تالے، ڈوپٹے درختوں سے باندھنا یعنی اپنے عقیدے کو اپنے یقین کو کسی مزار کے درخت یا دیوار کے ساتھ باندھ دینا۔اور پھر اسی یقین کے سہارے من کی مرادوں کی امید رکھنا۔محسن سائیں ساڑھے چھ فٹ کا لمبا تڑنگا، گورا چٹا،نیلی آنکھوں والا پٹھان۔پتہ نہیں اس پر کب یہ منکشف ہواتھا کہ اس کے اند کوئی روحانی شخص ہے۔جو دُنیا کے مسائل حل کر سکتا ہے۔کب اس کے وجدان نے اسے غیب کا علم عطا کیا۔ کب اس کی کایا پلٹ گئی اسے خود علم نہ ہو سکا۔بس نویں کلاس میں لڑکوں نے بتایا کہ تم جو کہتے ہو وہ پورا ہو جاتا ہے۔آہستہ آہستہ وہ محسوس کرنے لگا کہ واقعی مجھے کوئی اضافی خوبیاں عطا کی گئی ہیں۔میں عام انسانوں سے افضل ہوں۔تب ہی اس کے ا ندر کسی بزرگ کا ظہور ہونے لگا۔تو وہ مسجد کے قریب چٹائی ڈال کر بیٹھ گیا۔اور ایک پیرو مرشد کا شاگرد ہو گیا۔دن رات وضیفے پڑھتا اور اپنی بزرگی میں پختہ ہوتا گیا۔کشف و کرامات کے دروازے کھلتے گئے۔اور وہ سائیں بن گیا۔لوگوں کے دُکھ دورکرنے لگا۔پتہ نہیں لوگوں کو اس سے کچھ فائدہ پہنچا کہ نہیں مگر محسن سائیں کو بڑا فائدہ ہوا۔علاقے کے بڑے خان نے اپنی ایکڑوں پر پھیلی ریتلی،پتھریلی زمین کو کارآمد بنانے کے لیے اس پر ڈیرہ بنا دیا۔محسن سائیں اب باقاعدہ پیر صاحب کا درجہ پا چکا تھا۔کم عقیدہ لوگ ،کمزور ایمان والے ہرجگہ پائے جاتے ہیں۔سبی،لورا لائی، جیکب آباد او ر دیگر علاقوں میں اس کی بڑی شہرت تھی۔زور آور خان کا وہ خاص دوست اور دستِ راست تھا۔
ہر قسم کا مشورہ وہ اپنے کراماتی انداز میں دیتا۔زور آور خان کو اسں کے مشوروں پر بھروسہ رہتا تھا۔اور آج بھی قادر کے ساتھ وہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے آیا تھا۔دونوں کھسر پھسر کر رہے تھے۔قادر کو کسی خطرے کا احساس ہو رہاتھا۔یقیناًان کی صلاح ٹھیک نہیں تھی۔وہ اچانک اٹھا اور باہرگیا۔دو ٹھنڈی بوتلیں لے آیا۔تاکہ ان کے قریب ہو سکے۔حملہ تو ہم آج کر دیں وہ مسئلہ نہیں وہ لڑکا تو ہمارے نشانے پر ہے مگر ایک قباحت ہے کہ نئے بندے کے ساتھ دشمنی شروع ہو جائے گی۔وہ بڑا بااثر بندہ ہے۔مگر اپنے دشمن کو یونہی کھلا چھوڑ دینا بھی ہماری غیرت کے خلاف ہے۔قادر نے آتے ہوئے یہ ساری باتیں سن لی تھیں۔یار محسن باقی لوگ حملے کے حق میں ہیں۔دشمن دار لوگ ہیں ہار نہیں مانتے۔قادر نے باتلیں تھمائیں تو کچھ دیر کو وہ خاموش ہو گئے۔محسن سائیں کو اس کا آنا قدرے ناگوار گذرا۔وہ اپنی فوم کی گدی پر یوں جز بز ہوا جیسے کانٹے چبھ گئے ہوں۔
زور آور خان تم نے ملازموں کو سر چڑھا رکھا ہے۔ارے ایسی بات نہیں زور آور خان ہنس پڑا۔یہ سب اپنے لوگ ہیں۔جی دار ہیں۔ گردن کٹوانے کو تیار رہتے ہیں۔بے فکر و جاؤ۔قادر نے کام کی باتیں سُن لی تھیں۔اسے اب کوئی فکر نہیں تھی۔وہ آرام سے ڈیرے سے باہر نکل آیا۔اور لالہ کو ساری بات بتا دی۔اور لالہ کے بدن میں تویوں کہ کاٹو تو لہو نہیں۔حالات پر نظر رکھو اور مجھے بتاؤ۔لالہ سائیں! جان حاضر۔
ابھی صبح ہی تو وہ سجیل خان کو تسلیاں دے رہا تھا۔اور یہاں تو خوفناک پروگرام کی تیاریاں جاری تھیں۔لالہ نے کچھ خفیہ گارڈز کی خدمات حاصل کیں۔ان کو ٹاسک دیا کہ وہ سجیل خان کی حفاظت کریں۔کوئی میلی آنکھ نظر آئے تو اسے نکال دیں۔ہرنائی اور کوئٹہ میں بھی اپنے جاسوس بڑھا دئیے۔۔لالہ سوچ رہے تھے کہ شہلا اور سجیل کے خیالات کتنے درست تھے۔واقعی یوں لگا جیسے کچھ ہونے والا ہے۔لالہ سارے انتظام کر کے اپنی تسلی کر کے لاہور آگئے۔ان کا خیال تھا کہ وہ خود سجیل کے پاس رہیں گے توکچھ نہیں ہو گا۔ہفتے کے اندر وہ سارے انتظامات کر کے لاہور آ گئے۔سجیل نے غور کیا تھا بابا پہلے سے کچھ زیادہ فکر مند نظر آتے تھے ۔ہر فون کال پر چونک جاتے۔اِدھر ادھر دیکھنے لگتے۔ بابا کو کیا ہوا ہے؟و ہ تو ہمیشہ بڑے پُر اعتماد رہتے ہیں پھر اب کیوں؟ہر وقت کھوئے کھوئے سے رہتے۔فون پرچپکے چپکے کسی سے باتیں کرتے جیسے اگلے قدم کی فکر کررہے ہوں۔کچھ ہی دنوں میں ڈاکڑ صاحب سے مل کر منگنی کی تاریخ طے ہو گئی۔تو دونوں اطراف سے تیاری زور و شور سے ہونے لگی۔فائیو سٹار ہوٹل میں یہ فنکشن ہونا تھا۔شہلا اور اس کا پورا خاندان بہت خوش تھا۔چونکہ ڈاکڑ شہزاد کے تقریباََ سبھی دوست اور دور و نزدیک کے رشتہ دار سجیل خان اور اس کے خاندان سے واقف ہو چکے تھے۔اور اس کے باپ کے بارے بھی جو خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔یوں کسی کو اس رشتہ پر اعتراض تو نہیں تھا۔بس تھوڑا سا خدشہ کچھ قریبی دوستوں کو پھر بھی تھاکہ کوئی مزید نہ اٹھ کھڑا ہو اور اپنے خاندان کے آخری وارث کا خاتمہ کر کے اکیلے وارث بن جائیں۔یہاں تو ذرا ذرا سی بات پر گردن اتر جاتی تھی۔یہاں تو کروڑوں کی جائیداد اور خاندانی دشمنیاں اور غصے الگ۔آرمی نے بے شک اپنے حاصر سروس میجر کے قاتلوں کو کٹہرے میں کھڑا کر یا تھا۔ عنقریب ان کو پھانسیاں بھی دے دی گئیں مگر نسلوں کی آبیاری کرنے والا غصہ اور نفرت کیسے ختم ہو گا۔اس کے بارے سوچنے کو کوئی تیار نہیں تھا۔
قادر کا فون تھا ۔لالہ جی وہ تیاری کر رہے ہیں۔کب،کہاں،کیسے؟ یہ کوئی نہیں جانتا اور حیرت اور صدمے کی بات یہ ہے کہ وہ سجیل خان کے بارے سب کچھ جانتے ہیں۔یہی تو تشویش کی بات ہے قادرے۔میں کہاں چھپاؤں اس لڑکے کو۔اسے پتہ چل گیا تو بپھر جائے گا۔جوان خون ہے۔تم بس مجھے آگاہ کرتے رہو۔او کے سائیں۔
دونوں گھر جگ مگ جگ مگ کر رہے تھے۔برقی قمقموں کی روشنیوں نے چار سو چاندنی بکھیر رکھی تھی۔بے شک منگنی کی رسم کی تقریب تو مقامی فائیو سٹار ہوٹل میں ہونا تھی مگر گھروں میں خوشی کا منظر دیدنی تھا۔شہلا تو صبح سے ہی شہر کے ایک مہنگے بیوٹی پارلر میں مہندی لگوانے اور تیار ہونے گئی ہوئی تھی۔سجیل خان بھی دوستوں کے نرغے میں تھا۔بے شک کم گو تھا مگر آج وہ بھی خوب چہک رہا تھا۔تیار ہو کر باہر نکلا تو لڑکیوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔کوئی مرد اتنا وجہہ،اتنا حسین،اتنا پرکشش بھی ہو سکتا ہے۔ماشا اﷲ۔ماشااﷲ۔اﷲ نظر بد سے بچائے۔تمام رشتہ دار بلائیں لے رہے تھے۔کالا ٹیکا لگاؤ بھی،چھوٹے چچا صغیر نے چھیڑا۔آپ بھی لگوا لیں۔چچی قریب سے بولیں۔ہائے اﷲ۔آپ بھی ۔دیور نے آواز لگائی۔تو وہ شرما گئیں۔
زرق برق لباسوں میں آج تو ساری خواتین اپسرائیں بنی گھوم رہی ہیں۔ارے کس کس پر بجلیاں گرانے کا ارادہ ہے۔شہلا کی سہلیوں کو کمنٹس مل رہے تھے ا ور ایسی چھوٹی چھوٹی چہلوں کوسب انجوائے کر رہے تھے۔ہار،پھول،خوشبوئیں،رنگ و نور ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ ہلکے بسکٹ کلر میں سیاہ واسکٹ پہنے اپنی سنہری سندوری دمکتی رنگت لیے باوقار چال چلتا ہوا سجیل لالہ کے پاس آیا اور ان کے گلے سے لگ گیا۔سسکیاں اس کے سینے میں دم توڑنے لگیں۔لالہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔سجیل خان میری عمر بھی تمہیں لگ جائے۔میری زندگی کا مقصد ہی تمہاری خوشی ہے۔اگر تم خوش نہیں تو میری ساری دنیا،ساری کائنات پہ خاک۔میری زندگی،میری دولت پہ خاک۔نہیں بابا نہیں پلیز۔ سجیل نے جلدی سے اپنا ہاتھ بابا کے منہ پر رکھ دیا۔میری ساری زمین،میری ساری کائنات،میری ساری دولت،ساری زندگی،ساری خوشی صرف آپ ہیں،صرف آپ۔آپ خوش تو میں خوش۔ڈبڈبائی شیشے جیسی چمکتی آنکھوں میں محبت کی لو تھی۔لالہ نے اس کی پیٹھ تھپکی۔تو چلو آج یہ کام بھی کر گذریں۔چلیں۔دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے باہر آئے۔گاڑیاں تیا رتھیں۔
میجر کا بیٹا اتنا خوبصورت ہے۔اتنا جوان ہے۔آج یہ کوئٹہ اپنے گھر میں ہوتاتو ہماری سمر کا نکاح اس سے ہوتا۔زور آور خان کے بیٹے دلبر خان نے دور ایک درخت کی اوٹ سے اس کو دیکھ کر سوچا۔وہ موقع کی تلا ش میں تھے کہ کیسے سجو خان کو مارنا ہے؟ مگر آج ممکن نہیں تھا۔ایک حملہ کرتے تو جواب میں سبھی مارے جاتے۔یوں ان کو خوشیاں منانے کے لیے جانے دیا گیا۔ہوٹل پہنچے توبہت شاندار استقبال کے بعد مطلوبہ ہال میں پہنچے۔شاہانہ طرز کے سٹیج پر،آج کی تقریب کے دلہا صاحب پہنچے۔لالہ کی نظریں چارں طرف گھوم رہی تھیں۔بہت سخت سیکیورٹی تھی۔کچھ ہی دیر میں شہلا بھی شہزادی بنی پہنچ گئی۔شرماتی ،لجاتی،اتنی نازک،اتنی حسین کہ نظر نہ ٹھہرتی تھی۔اس نے بھی ہلکے بسکٹ اور لائٹ فیروزی کلر کی فراک جس پر موتیوں کا اتنا شاندارکام تھا کہ ہر کوئی بس اس کی نظر اتارنے میں مگن تھا۔چاند سورج کی جوڑی ہے۔رابعہ بیگم اتراتی پھر رہی تھیں۔بے شک سجیل ان کی کوکھ سے پیدا نہیں ہوا تھامگر اس کی اک ماں کی طرح پرورش ،میں ان کا بھی حصہ تھاتو مان کرنا تو بنتا تھا ۔شہلا نے سٹیج پر بیٹھتے ہی سجیل کو بھرپور نظر سے دیکھا۔وہ پتہ نہیں کن خیالوں میں گم تھا۔مگر اتنا خوبصورت کہ اس کا دل مٹھی میں آگیا۔ ہاؤ لکی آئی ایم؟ اس نے سوچا۔لڑکیاں رشک سے دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔شہلا نے سجیل کو کہیں جانے ہی نہیں دیا۔بہت ساری لڑکیوں نے سوچا۔ پھر بھی کیا فرق پڑتا ہے۔دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔کتنی قسمت والے ہیں۔اِسی رشک اور حسد کے ملے جلے ماحول میں منگنی کی رسم ہوئی۔ہیرے کی بڑی انگوٹھی شہلا کی انگلی میں جگمگانے لگی تو جواباََبھی ہیرے کی انگوٹھی سجیل کو بھی پہنائی گئی تھی۔ سا ا را ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔تحائف کا انبار لگ گیا۔فوٹو گرافر اور فلم بنانے والے ہر ہر پوز کوکیمروں میں مقید کر رہے تھے۔
لالہ سٹیج پر آئے۔سب لوگ ان کو دیکھنے لگے۔ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ تھا۔بھئی مائک ادھر لائیں۔بڑے تایا نے زور سے پکارا۔ مائیک آگیا۔شبیر خان نے مائیک آگے کیا۔لالہ اب اس میں بولیں اچھا اچھا۔جی بچوں کے لیے کراچی سے ایک تحفہ آیا ہے ابھی کچھ دیر میں وہ بچوں کو دیا جائے گا۔سب چپ ہو کر دیکھنے لگے۔دیکھیں تو بھئی کیا تحفہ ہے؟لالہ کی بیگم آگے آئیں۔بیگ کو کھولا تو زیورات کے ڈبے اور لباسوں نے چکا چوند کر دی۔سونے اور ہیروں کے جڑاؤ زیورات کے سات ڈبے دلہن کے لیے تھے۔دس عدد قیمتی لباس، ساڑھیاں،شالیں،جوتے ،پرس۔ایسے ہی سجیل کے لیے بہت قیمتی گھڑی،سوٹ،ٹائیاں،قیمتی شوز اور ایک چیک بک جس پر صرف سائن تھے۔وہ جب چاہے،جتنی چاہے رقم نکال سکتا اور خرچ کر سکتا ہے۔یہ کس کا تحفہ ہے بھئی،ڈاکڑ شہزاد کے بڑے بھائی بیرسڑ اقبال حیرت سے بولے۔بڑے قیمتی بچے ہیں جن پر ہُن برس رہا ہے۔یہ تحفہ سجیل خان کے نانا سیٹھ وقار احمد کی طرف سے اپنے ناتی کی شادی پر تحفہ ہے۔وہ بیمار ہونے کی وجہ سے خود نہیں آ سکے۔سجیل خان کی والدہ ثریا وقار احمد صاحبہ ان کی اکلوتی اولاد تھیں اور جو کچھ ان کے ساتھ پیش آیا وہ تقریباََ سبھی جانتے تھے۔سجیل خان ان کے خاندان کے واحدفرد ہیں۔انہوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔خدا کرے کہ وہ سب سجو کی شادی پر خود آ سکیں۔ڈاکڑ شہزاد آگے آئے اور سجیل خان کا ماتھا چوم لیا۔بیٹے سب کچھ تمہارا ہے۔تم خو ش رہو۔ہمیں اپنے والدین کی جگہ سمجھو۔بے شک ہم ان کی جگہ نہیں لے سکتے۔ہم خو ش ہیں کہ تم ایک بہادر لڑکے ہو۔سبھی آنکھیں نم تھیں۔ماحول یکدم افسردہ ہو گیا تھا۔ ایک ایسا لڑکا جس کا اپنا یہاں کوئی نہیں تھا۔والد کا خاندان جان کا دشمن اور ماں کے خاندان میں صرف ایک نانا،جو خود بیمار اور چلنے پھرنے سے معذور تھے۔اور جن سے حفاظت کے پیش نظر آج تک ملاقات ہی نہ ہو سکی۔لیکن فون پر بات ہو جاتی تھی۔ایک تسلی تو تھی کہ کوئی تو اپنا ہے۔یوں وقت آج اسے اس نئے موڑ پر لے آیا تھا۔آج شہلا شیرازی اس کی زندگی میں شامل ہو گئی تھی۔کوئی کسی دوست کے لیے اتنا بھی کرتا ہے۔دنیا آج یہ دیکھ رہی تھی اور حیران تھی۔کہ کیسے غیر اپنے ہو جاتے ہیں۔لو جی کھانا تیار ہے بسم اﷲ کیجیے۔اچانک یہ اعلان،امرتی بن کر کانوں میں ٹکا تو لوگ سب کچھ بھول کر ساتھ والے ایک مہمان خانے کی طرف کوچ کر گئے۔نہایت اعلیٰ قسم کے کھانوں کی انتہا انگیز خوشبوؤں نے ماحول خوشگوار کر دیا تھا۔سب چہروں پر ہنسی اور خوشی تھی۔سجیل اور شہلا بھی مہمانوں میں گھل مل گئے۔ہر طرف ان پر تعریف کے ڈونگرے برس رہے تھے۔
لو جی! بس مولوی صاحب کی کسر رہ گئی ہے۔ورنہ تو پوری شادی ہو گئی ہے۔اکثر کے منہ پر یہی الفاظ تھے۔شہلا یہ سوچ سوچ کر ہی دوہری ہوئی جاتی تھی کہ سجیل اس کا شوہر بنے گا۔اس کے جسم وجاں کا مالک،اس کی روح کا مالک،اس کے ہر لمحے کا مالک۔اف! یہ تصور ہی کتنا رومانٹک اور کرشماتی تھا۔اس کی سانسیں بھاری ہونے لگیں۔یوں جیسے اس کے بازؤوں میں ہے۔اس کی گرم سانسوں نے اس کے تن بدن میں آگ لگا رکھی ہے۔ہ دنیا جہان بھول کرصرف سجیل کے تصور میں اڑ رہی تھی۔نرم نرم بادلوں کے رتھ پر سوار وہ خوشبو بھری ہواؤں میں سبک سر سی کہیں کسی رنگ میں معدوم ہو رہی تھی۔ہوش و ہواس پر تو اس دشمن جاں کا قبضہ تھا۔زمین پر ہوتے ہوئے بھی وہ زمین پر کہاں تھی۔اچانک کسی نے شرارت سے اسے پکاراتو وہ آسمان سے زمین پر آ گئی۔آنکھیں تو بن پےئے نشیلی ہو رہی تھیں۔دمکتے ہوئے رخساراور ہولے ہولے کانپتے عنابی ہونٹ۔سانس بھی سینے میں کہاں ٹک رہی تھی۔کاش آج نکاح بھی ہو جاتا۔شہلا نے سوچا اور خود ہی مسکرا اٹھی۔ سجیل کو پانے کی کتنی جلدی ہے نا۔ناجیہ نے ٹہوکا دیا۔تو اس نے خوابناک آنکھوں سے اسے دیکھا۔اے کاش! آج ہی اس کی کایا کلپ ہو جاتی۔دوسری نے قہقہ لگایاتو وہ دوھری ہو گئی۔کنوارے جذبے مچل مچل گئے۔سمی آج ہی نکاح ہو جاتا۔ثمرہ نے گرہ لگائی۔اچھا بس کرو۔بد تمیزو۔کوئی سن لے گا۔کوئی نہیں سن رہا۔سارہ منمنائی۔سجیل اپنے دوست اختر اور سعید کے پاس کھڑا تھا۔وہ بھی اس کی چٹکیاں لے رہے تھے۔اسے مبارک دے رہے تھے۔کبھی کبھی وہ آنکھ اٹھا کر شہلا کو دیکھ لیتا۔شہلا آج کی ساری کاروائی سے تھک گئی تھی۔ایک صوفے پر بیٹھ کر ٹیک لگائی۔آنکھیں بند کیے آج کے بارے سوچ رہی تھی کہ اچانک ایک گرم سا ہاتھ اس کے ماتھے پر آیا۔بدن کانپ کر رہ گیا۔اس نے جلدی سے آنکھیں کھولیں تو سامنے وہ دشمنِ جاں پلیٹ میں مٹھائی لیے کھڑا تھا۔مبارک ہو۔ آپ کو بھی۔آنکھیں بند ہونے کو تھیں۔وہ ہلکے سے مسکرائی۔منگنی پر یہ حال ہے تو شادی پر کیا ہوگا؟ سجیل نے شوخی سے کہا۔وہ اور زیادہ جھک گئی۔اﷲ۔بس بھی کریں۔تو یہ مٹھائی تو کھا لو ۔ اس نے ایک ٹکڑا اسے دیا۔آج بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔آپ بھی بہت شاندار لگ رہے ہیں۔اچھا جی۔ شکریہ ۔ دونوں کچھ ہی دیر بیٹھے تھے کہ گھر والے آ نا شروع ہو گئے۔لو جی گھر جانے کی تیاری شروع کریں۔
گھر پہنچتے پہنچتے دو بج گئے۔صبح سب دیر تک سوتے رہے تھے۔رات کی تھکن اتری تو صبح کی رونقیں بحال ہوئیں۔دوست رشتہ دار مبارک سلامت کے بعد جانا شروع ہو گئے تھے۔سارا کچھ نارمل ہو چکا تھا۔سجیل نے ایک کمپوٹر کالج میں داخلہ لے لیا۔فارغ ہوں چلو کچھ اور سیکھ لیتا ہوں۔رذلٹ آنے میں ابھی وقت تھا۔یار باٹنی میں ایم ایس سی کر کے کیا کروں گا۔ٹیچر نہیں بننا۔مقابلے کا امتحان دیتا ہوں۔محکمہ جنگلات میں کچھ کر لوں گا۔اس نے سوچا۔لالہ نے سُنا تو اجازت دے دی۔جوچاہے کرو۔شہلا نے ایک نجی آرٹس کالج میں داخلہ لے لیا۔ یوں دونوں نے خود کو مصروف کر لیا۔وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔مگر ایک بد نظری ان کا پیچھا کرتی رہی۔اک انہونی نے ا بھی ہونا تھاکہ بد قسمتی ابھی قسمت میں لکھی تھی۔بد شگونی کو تو پورا ہونا تھا۔پیر محسن کے کالے جادو کا اثر تو ہونا تھا۔خون کے پیاسوں کے مذموم ارادے پورے ہونے تھے۔یوں ہنستے بستے لوگو ں کو برباد ہونا تھا۔بربادی کہیں ازل سے لکھی گئی تھی۔خوشیاں منانے کا وقت کتنا تھوڑا رکھا تھاقدرت نے۔اتنی حسین جوڑی کو نظرتو اسی دن لگ گئی تھی جب چاند سورج کی جوڑی سٹیج پر آئی تو ایک طرف سی باد سموم چلی اور ساری چاندنی کو ماند کر گئی۔پردہ ڈال گئی،تاریک کر گئی۔اک وحشت ،کہ دہشت پھیلا گئی۔اک نفرت کی فصل اگا گئی۔
لو جی میرا کمپوٹر کا کورس تو مکمل ہو گیا ۔ اس نے شہلا کو فون پر بتایا۔اچھا جناب تو ہمیں کسی اچھی سی جگہ کھانا کھلائے مطلب ٹریٹ دیجئے۔ اوہو،بھوکی لڑکی۔وہ ہنسا۔آرٹس کالج کے ساتھ کوئی کھانے پکانے کا کورس بھی کر لو۔سجیل نے مشورہ دیا۔جی نہیں ۔وہ چڑ کر بولی۔مجھے چولہے میں کھپا دو گے۔اس لئے میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی۔وہ غصے سے بولی۔اچھا اچھا۔وہ ہتھیار ڈالتا ہوا بولا۔کہاں کھانا ہے۔ممی پاپا کو بھی انوائیٹ کر لو۔ممی تو بزی ہیں ۔ہاں پاپا سے کہوں گی۔کلینک کے بعد بھائی جان ہوئے تو وہ بھی ہوں گے۔ٹھیک ہے ۔ہاں چلو ٹھیک ہے۔ویسے مجھے اکیلے کیوں نہیں لے جانا چاہتے؟ شہلا نے شرارت سے پوچھا۔بھئی ابھی تم میری ذمہ داری نہیں بنی ہو۔سمجھی۔وہ زیرِلب مسکرایا۔اچھا بابا۔دقیانوسی۔بہت درپوک ہو۔لاہور میں رہ کر بھی۔بلوچستان میں ریتے ہو۔شہلا نے ہلکا سا طنز کیا۔تو کیا کروں بلوچستان میرے خون میں شامل ہے ۔اور تمہاری جان میں بھی۔وہ تھوڑا سا رومینٹک ہوا۔ہاں وہ تو ہے۔اچھا چلو۔ ڈن ،ملتے ہیں شام کو۔وہ بغیر کوئی بحث کیے راضی ہو گئے۔محبت بحث نہیں کرتی سب کچھ جان لیتی ہے،سہہ لیتی ہے۔یقین کرتی ہے،امید رکھتی ہے۔اچھی بات پہ خوش ہوتی ہے۔یہی تو محبت ہے۔محبت سے سرشار دو دل ایک ہی تال پر دھڑکتے تھے۔
لالہ کا فون آیا۔سجیل خان کدھر ہو۔بابا آج شام شہلا کو ٹریٹ دے رہا ہوں۔کمپوٹر کورس مکمل کرنے کی۔بابا ہنس پڑے۔بابا بہت دن ہو گئے آپ سے ملے ہوئے۔بہت بزی لگتے ہیں۔اداس ہو گیا ہوں۔ارے میرے شیر۔جوان مرد اداس نہیں ہوتے۔ویسے میں آ رہا ہوں۔شام کو پہنچوں گا۔کچھ بزنس کے سلسلے میں نئی پاٹیوں سے ملنا ہے۔اور پھر تم سے بھی تو ملنا تھا۔او ویری گڈ بابا۔کب پہنچیں گے؟رات نو بجے کی فلائیٹ ہے۔پھر تھکا ہوں گا۔تم جاؤ شہلا کو ٹریٹ دو۔میں گھر پہ تمہارا انتظار کروں گا۔ویسے شہلا کے ساتھ اس کے پاپا اور بھائی بھی ہوں گے۔ممی بزی ہیں۔او۔اچھا تو پھر تو اور بھی اچھی بات ہے۔انہون نے سکون کا سانس لیا۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ سجیل اکیلا اور کمزور ہو۔عورت مرد کی کمزوری بھی ہوتی ہے۔اور بعض اوقات وہ اس کو کمزور بھی بنا دیتی ہے۔۔شہلا شام کی تیاریوں میں مگن تھی۔بھائینے بھی ایک دوست سے ملنے کا ارادہ کینسل کر دیا تھا۔ڈاکڑ شہزاد کو بھی کلینک سے آنا پڑا۔سجیل،ڈرائیور اور گارڈ کے ساتھ شہزاد کاٹیج پہنچا۔ شہلا باہر آئی۔پنک فراک میں وہ کوئی باربی ڈول ہی لگ رہی تھی۔ہیرے کی انگوٹھی انگلی میں چمک چمک کر ان کے رشتے کو واضح کر رہی تھی۔ڈاکڑ صاحب کے ساتھ سب باہر آئے۔چلیں جی۔جی شہلا میڈم بتائیں گی کہاں جانا ہے۔وہ کیولری گراونڈ میں ایک نیا ریستوران کھلا ہے۔زبرست فرائیڈ چکن ہے۔میں کھا چکی ہوں۔بہت فن بھی ہے۔راستہ کچھ ویران سا ہے۔ابھی اتنی آبادی نہیں ادھر۔ بھائی نے لقمہ دیا۔کوئی اور جگہ نہیں پاپا نے پوچھا۔بہت ہیں مگر میرا دل چاہ رہا ہے۔چلو بھئی سجیل نے ڈرائیور سے کہا۔وہیں چلیں۔سفر شروع ہوااور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ ہر ایک دل میں کہیں نہ کہیں موجود تھا۔وہ اسی نیم تاریک آبادی سے قدرے ہٹ کربنی سڑک پر فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔اچانک دو اطراف سے فائرنگ ہونے لگی۔گارڈ نے جوابی فائر تو کئے مگر بے کار۔ادھر سے اتنے زیادہ برسٹ مارے جا رہے تھے جیسے پوری تیاری کے ساتھ پوری پلاننگ کے ساتھ یہ سب کچھ کیا گیا تھا۔اچانک کسی طرف سے دشمنوں پر بھی فائر کھلا ۔اچانک دشمن کی بندوقیں خاموش ہو گئیں۔مگر جو ظلم ہونا تھا وہ ہو چکا۔جو دنیا برباد ہونی تھی ہو گئی۔یکدم کے اس حملے نے کسی کو بچاؤ کی کوئی ترکیب کرنے ہی نہ دی۔زندگی کو مہلت ہی نہ ملی۔کہ کچھ اور سوچتی۔ڈرائیور، گارڈ پہلے ہی جان ہار گئے۔ان کے سر اور چہرے گولیوں سے چھلنی ہوئے۔ ڈاکڑ شہزاد کے سینے اور بازو میں گولیاں لگیں تھیں مگر سانسیں ابھی باقی تھیں۔انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔تینوں بچے ایک دوسرے پر گرے ہوئے تھے۔ہر طرف خون ہی خون پھیلا ہوا تھا۔باہر فائرنگ ہو رہی تھی۔غالباََ کوئی اور بھی دشمنوں کے نرغے میں تھا۔بروقت دروازہ کھلا۔ ڈاکڑ صاحب چھلنی بازو کو تھامے بچوں کا دروازہ کھولنے لگے۔دروازہ کھلا تو سجیل باہر گر پڑا۔گولی اس کے سر میں گھسی تھی۔ڈاکڑ صاحب نے درد کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی شرٹ اتار کر ایک ہاتھ سے سجیل کا سر باندھا۔جس مین سے خون کسی فوارے کی طرح ابل رہا تھا۔اپنے بچوں کو دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔آنکھوں کے آگے تاریکی چھا گئی اور پھر وہ وقت کے اندھیرے غاروں میں اتر گئے۔کبھی نہ جاگنے کے لئے۔
نجانے وہ کتنی دیر وہاں پڑے رہے۔اچانک ایک گارڈ کو ہوش آیا۔گولیاں اس کے پیٹ میں لگی تھیں مگر ابھی جان باقی تھی۔فون نکالا اور لالہ کی کال ملائی۔سر۔سب کچھ ختم ہو گیا۔دشمن نے اچانک حملہ کر دیامجھے پتہ نہیں کتنی گولیاں لگیں ہیں۔ابھی ہوش آیا۔ہر طرف لاشیں ہی لاشیں۔کیا!لالہ کی دھاڑ پورے گھر میں سنائی دی۔ملازم بھاگے۔گاڑی نکالو،گنیں نکالو،میں ان کی نسلوں کو ختم کر دوں گا۔لالہ غم و غصہ میں آپے سے باہر ہو گئے۔اڑتے ہوئے جائے حادثہ پر پہنچے۔پولیس پہنچ چکی تھی۔1122کی ایمبولینسسز بھی آچکی تھیں۔ایدھی کی ایمبولینسسز بھی پہنچ گئی تھیں۔اتنی بھاری فائرنگ،کوئی دشمنی ہی تھی۔چینل والے اور اخبار ی نمائندے بھی پہنچ گئے۔لالہ صدمے سے گنگ تھے۔حیران تھے ساری زندگی لگا کر جس پودے کی آبیاری کی وہ بے پھل ہی کٹ گیا۔سجیل کا سر ان کی گود میں تھا۔ڈاکڑ نے زندگی کے آخری لمحات میں شرٹ سجیل کے سر پر باندھ دی۔کیا محبت تھی،کیا انسانیت تھی۔کیا دوستی تھی جس کی لاج انہوں نے آخری لمحے میں رکھی کہ اپنے بچوں کو دیکھا بھی نہیں۔ڈاکڑ تھے کسی انسان کو بچانے کی اپنی سی کوشش کی۔لالہ کا دل غم سے پھٹ رہا تھا۔اس بڑھاپے میں یہ کیسا غم تھا۔پورے پاکستان میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ چھ لوگ لینڈ روور میں اور چھ لوگ سفاری میں اپنی جانیں ہارے تھے۔حملہ کرنے والے بھی چار لاشیں چھوڑ کرزخمی فرار ہوئے تھے۔پولیس جگہ جگہ سرچ آپریشن کر رہی تھی تا کہ قاتلوں کو ڈھونڈا جا سکے۔زخمی کہاں جاتے ہیں۔سارے شہر میں ہلچل مچ گئی۔ناکے لگ گئے۔
لالہ نے سب لوگوں کو دیکھا۔شہلا اور اس کا بھائی،ڈاکڑ شہزاد،ڈرائیور،گن مین، سبھی ابدی نیند سو چکے تھے۔مگر سجیل ۔۔۔خون بہہ بہہ کر جم چکا تھا۔لالہ کو یقین ہی نہیں آتا تھاکہ سجیل بھی اس دنیا میں نہیں رہا۔سب ڈیڈ باڈیز کو سول ہسپتال کی ایمر جنسی میں لایا گیا تھا ۔تاکہ احتیاطَََ َ چیک کر لیا جائے۔شائد کوئی زندہ ہو۔لالہ سجیل کے سٹریچر کے پاس ہی کھڑے تھے۔ڈاکڑ چیک کرتے کرتے اس تک پہنچے۔ڈاکڑ نے ہاتھ، بازو اور جسم کے دیگر حصوں کو چیک کیا۔ڈاکڑ نعمان کو بلائیے۔ڈاکڑ سدرہ نے ڈاکڑ نعیم سے کہا۔جی ڈاکڑ سدرہ! سر چیک کیجئے۔اس باڈی میں زندگی ہے۔یہ جسم گرم ہے اور دل حرکت کر رہا ہے۔لیکن حرکت بہت مدھم ہے۔ڈاکڑ نعمان نے دھیان سے چیک کیا تو جیسے انہیں کرنٹ لگا۔سسٹر، اس مریض کو فوری طور پر آپریشن تھیٹر میں لے کر چلیے۔He is alive یہ زندہ ہے۔ہمیں اسے بچانا ہے۔ بھاگ دوڑ شروع ہو گئی۔مریض کو فوراََ آکسیجن ماسک لگا کر لے جانے لگے تھے۔جب لالہ مارے خوشی اور حیرت کے وہیں فرش پر گر پڑے۔یا اﷲ تیرا شکر۔ تیرا شکر۔ایمرجنسی اپریشن جاری تھا۔ہرنائی۔زیارت۔سبی ہر جگہ سے لوگ پہنچ رہے تھے۔رابعہ بیگم بین کرتی ہوئی آئیں۔لالہ کے کندھے پہ سر رکھے وہ دھاڑیں مار کر روتی رہی۔ہر آنکھ اشکبار۔ڈاکڑ مدیحہ کو کون بتائے گا کہ ان کی دنیا لٹ گئی۔وہ برباد ہو گئی ہیں ۔ان کا گھر خالی ہو گیا ہے۔فون پہ فون آ رہے تھے۔کون کون دشمن مارا گیا۔مینجر۔اکرام نے پوچھا۔لالہ کے پی اے نے بتایا تھا۔زور آور خان کا بیٹا۔دلبر خان۔دو اس کے خالہ زاد اور دو ان کے باڈی گارڈ۔باقی جو زخمی تھے اور زندہ تھے فرار ہو گئے۔پولیس ان کو تلاش کر رہی ہے۔لالہ تو ابھی اپنے حواسوں میں ہی نہیں ہیں۔اﷲ کرے سجیل خان بچ جائے۔ورنہ لالہ تواس غم سے نہیں نکل سکتے۔اپنے بچوں کی طرح پالا ہے۔ گود میں کھلایا ہے۔وہ کیسے یہ غم برداشت کریں۔بڑا ظلم ہے یار۔
چھ گھنٹے کے آپریشن کے بعد سر کے پچھلے حصے سے گولی نکال لی گئی تھی۔کندھوں کی گولیوں کا آپریشن بعد میں ہو گا۔مسلسل خون لگایا جا رہا تھا۔ سجیل کا دل دھڑک رہا تھا۔یہی بات لالہ کے لیے کافی تھی۔میں سجیل کو امریکہ لے جاتا ہوں یا انگلینڈ۔پاکستان میں اس کی جان کوخطرہ رہے گا۔لالہ نے سرجن ڈاکڑ شفیق سے بات کی۔دیکھیے ہم مریض کو لے جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔وہ کریٹیکل کنڈیشن میں ہے۔ ہم اس کی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔وہ انڈر ابزرویشن ہے۔زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے۔اس نے اب بچا لیا آگے بھی بچائے گا۔ آپ بضد ہیں تو کچھ دن اور انتظار کریں اور تب تک تیاری کر لیں۔لیکن میری سیکیورٹی اس کے ساتھ رہے گی۔آپ بے فکر ہو جائیں۔ پولیس بھی چوبیس گھنٹے یہاں موجود ہے۔لالہ اسے باہر لے جانے کی تیاری کرنے لگے۔کاغذات بنوائے۔حکومت کی خصوصی اجازت نامے کے ساتھ ائیر ایمبولینس میں ڈاکڑز کی خصوصی ٹیم کے ساتھ وہ ا سے لیے انگلینڈ کے لئے پرواز کر گئے۔
ہرنائی کے سارے بزنس،دوکانوں کی نگرانی،دوسرے شہروں میں سارے بزنس،مارکیٹ،غرض سارے کام کاج،بڑے بھائی کی نگرانی میں دے دیا۔چھوٹے بھائی پہلے سے معاون تھے۔مینیجر کو خصوصی ہدایات بھی ملتی تھیں۔ایک اور ہدایت بھی ملی تھی۔قادر کے ساتھ صلاح مشورہ کر کے ا ن سب لوگوں کو جو اس خون ریزی میں شامل تھے ان کے بچے تک اٹھا کر کوئلے کی کانوں میں بند کر دینے کی ہدایت تھی۔کوئی یہ نہ جان پائے۔ہر جگہ جاسوس چھوڑ دئیے جائیں۔دشمن کو سبق سکھانا ضروری تھا۔ویسے بھی دشمنی کا رخ لالہ کی طرف ہو گیا تھا۔پیارے دوست ڈاکڑ شہزاد،ان کے بیٹے اور ہونے والی بہو،پیاری سی شہلا کی موت کو درگزر کردینا لالہ کے کاغذوں میں نہیں تھا۔بھائی بظاہر صرف بزنس پر توجہ دے رہے تھے ۔ ان کا کسی بات سے کوئی مطلب نہیں تھا۔لالہ کے بچوں کی پوری حفاظت بھی ان کی ذمہ داری تھی۔مگر مینجر اور سیکرٹری کی ذمہ داریاں فرق تھیں۔لالہ انگلینڈ میں تھے۔مگر سب سے رابطے میں تھے۔ہدایات بھی جاری کرتے۔ڈاکڑ مدیحہ سے بھی رابطہ رکھتے۔وہ اپنا گھر بیچ کر چھوٹے بیٹے کو ساتھ لیے ایبٹ آباد اپنے والدین کے پاس چلی گئیں تھیں۔اتنا بڑ ا پہاڑ جتنا غم وہ کیسے سہتی۔لمحوں میں ساری خوشیاں خاک ہو گئی تھیں۔ڈاکڑ تھیں اور پھر تنہا رہ جانے والے اپنے چھوٹے بیٹے کے لئے تو انہیں جینا ہی تھاجو اس دن کہیں اور بزی ہونے کی وجہ سے بچ گیا تھا۔مگر اس حادثے نے کتنے ہی دن اس کے حواس مختل کئے رکھے۔ماں بیٹا ہی ایک دوسرے کو چپ کرواتے رہتے۔بیٹے کو قریبی اکیڈمی میں داخل کروا دیا گیا۔تا کہ دوسرے بچوں کے ساتھ گھل مل جائے۔ڈاکڑ مدیحہ اپنے بابا کے کلینک پر ہی ساتھ جانے لگی تا کہ مصروف ہو کر اس غم کو سہنے کی کوشش کرے۔آج بھی لالہ کا فون آیا تھا۔بھابی مدیحہ۔ہمارا دکھ لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔اندازہ کیجئے میری قسمت میں کتنے دُکھ لکھے ہیں۔لیکن ایک احسان ڈاکڑ شہزاد کا تو میں مر کے بھی نہیں اتار پاؤں گا۔کون سا لالہ بھائی؟ اس نے آخری لمحوں میں اپنی شرٹ اتار کرسجیل کا سر باندھا تھا تا کہ خون بہنا بند ہو جائے۔جانتی ہیں اس کے پاس اپنے بچوں کے چہرے دیکھنے کا بھی وقت نہیں تھا۔لیکن اس دلیر اور جرات مند آدمی نے اپنی تکلیف سہنے کے باوجود۔نجانے کیسے۔بھابی نجانے کیسے۔لالہ رو رہے تھے۔مدیحہ سسکیاں بھر رہی تھی۔ابیٹ آباد اور انگلینڈ کی فضائیں بین کر رہی تھیں۔ہوائیں سوگوار تھیں۔آنسو تھے کہ تھمتے ہی نہ تھے۔بھابی مدیحہ۔ڈاکڑ سدرہ نے بتایا تھاکہ اگر سجیل کا سر نہ باندھا جاتا تو خون زیادہ بہہ جانے کے باعث وہ بھی اس دنیا میں نہ ہوتا۔وہ ڈاکڑ تھا۔نا۔ظالم آدمی ڈاکڑ تھا۔نا۔غضب کا ڈاکڑ تھا۔آخری لمحے میں بھی اسے یقین تھا کہ سجیل بچ سکتا ہے۔او میرے یارا۔مجھ پر آسان کرنے سے باز نہیں آیا۔ہمیشہ مجھ پر احسان کرتا رہا۔اس نے تو مجھے خرید ہی لیا۔وہ دل کھول کر رو رہا تھا۔مدیحہ بھی بکھر بکھر گئی۔بھابی آپ بیٹے کی اور اپنی کبھی فکر نہیں کرنا۔شہزاد کے بعد آپ میری ذمہ داری ہو۔آج سے آپ میری چھوٹی بہن ہو۔یہ بھائی ہمیشہ کی طرح آپ کے ساتھ ہے۔رو لینے سے دل کا غبار کچھ کم ہوا تھا۔بھائی سجیل کیسا ہے؟کیسا شاندار لگ رہا تھا؟ کیسی نظر لگ گئی ہمارے بچوں کو؟ وہ پھر سے رو پڑی۔دوبارہ آپریشن ہوا ہے سر کا۔ڈاکڑ پُرامید ہیں وہ جلد ہوش میں آجائے گا۔دو ہفتوں بعد کندھوں کا آپریشن کریں گے تاکہ گولیاں نکال سکیں۔دو ماہ ہو گئے ہیں اس نے ابھی تک آنکھیں نہیں کھولیں۔ڈاکڑ کہتے ہیں وہ جلد آنکھیں کھولے گا۔بہترین علاج ہو رہا ہے۔اس کی سیکورٹی کا بھی خاص خیال رکھتا ہوں۔میجر باپ اور ڈاکڑ باپ نے جانیں دے کر اسے بچایا ہے۔تو میں کیسے غفلت کروں۔ ہاں بھائی میں نے بھی تو ماں بننے کا عہد کیا تھا ۔نا۔وہ جلدی سے ٹھیک ہو جائے تو اپنے بچوں کی شکلیں اس میں دیکھوں گی۔میری مامتا کو کچھ تو سکون ملے گا۔جی بھابی۔ میری بہن۔اپنا بہت خیال رکھیں۔مدیحہ کو پہلی بار جیسے سکون ملا تھا۔غم کا غبار کچھ تو کم ہوا جانے والے تو واپس نہیں آئیں گے۔جو زندہ ہیں ان کا تو خیال کیا جائے۔انہوں نے دل کو دلیر کیا اور اپنے شوہر کے دکھائے راستے پر چلنے لگیں۔
زور آور خان پہاڑوں میں کہیں روپوش ہو گیا تھا۔پولیس جگہ جگہ اسے ڈھونڈتی پھرتی تھی۔وہ اپنے بیٹے دلبر خان کو مروا کراس کا غم بھی نہ منا سکا تھا۔اسے یہ بھی پتہ نہ چل سکا تھاکہ سجیل خان کا کیا بنا۔سارے قاتل پکڑے گئے تھے۔قادر کی مخبری پر پیر محسن خان کوجیکب آباد سے گرفتار کیا گیا۔اس کی نشاندہی پر اور بہت سے لوگ پکڑے گئے۔قبیلے والوں نے جرگہ بھی بلایا۔جسکو لالہ کے بھائی نصحت خان نے مسترد کر دیا۔عدالت فیصلہ کرے گی۔ہم اسے مانیں گے۔ہماری دس لاشیں گری ہیں۔چار ان کی بھی گری ہیں ۔جرگہ والوں نے کہا۔تو نصحت خان بپھر گیا۔وہ حملہ آور تھے۔معصوم نہیں۔اور ہمارے لوگ معصوم۔جن کا کسی سے کوئی جھگڑا ہی نہیں تھا۔ڈاکڑ اور اس کے بچے۔سجیل خان۔جس کو اب تک پتہ نہیں تھا کہ اس کا سارا خاندان قاتلوں کا ہے۔لالہ کی ہونے والی بہو کا کیا قصورتھا۔بولو۔بتاؤ۔دُعا کرو سجیل خان بچ جائے۔اگر وہ نہ بچا تو سوچو لالہ کے انتقام سے کون بچے گا۔اس نئی دشمنی کی بنیاد زور آور خان نے خود رکھی اوراپنا بیٹا مروا دیا۔اب بزدلوں کی طر ح چھپ گیا ہے۔کہاں چھپے گا۔اب اس کے لیے زندگی آسان نہیں ہوگی۔سجیل خان کے ماں باپ،ڈرائیور اور گارڈز کو مار کر اس کی پیاس نہیں بھجی۔تو اب وہ پہاڑرں میں پانی کو ترسے گا۔گرفتار نہ ہوا تو تل تل مرے گا۔کن زمینوں کے لئے مرا جن کا کوئی والی وارث نہیں رہ گیا۔دشمنی کب تک؟غصہ،نفرت کب تک؟اس حرام کے جنے کو تو اب ہم جینے نہیں دیں گے۔سن لیا۔ اب جاؤ۔اور جرگہ والے اپنا سا منہ لے کر چلے گئے۔نصحت خان کو ان کا کوئی مشورہ قبول نہیں تھا۔وہ جانتا تھا کہ لالہ کے غصے اور غضب کو روکنا ممکن نہیں۔ پولیس اپنی کاروائی کر رہی تھی۔
سجیل خان نے آنکھیں کھولیں تھیں۔ڈاکٹرز خوش ہو گئے۔اس کی آنکھوں کو نقصان نہیں پہنچا تھا۔لالہ پاس گئے۔میرا بچہ۔لالہ نے فرحتِ مسرت سے ماتھا چوم لیا۔مگر آنکھوں میں میلوں دور تک اجنبیت تھی۔یہ کیا ان آنکھوں میں پہچان کی کوئی جنبش نہیں تھی۔وہ بِٹربِٹر لالہ کو دیکھتا رہا ۔تم سجیل خان ہو۔لالہ نے اسے بتایا۔ڈاکٹر کرسٹینا حیرت سے اس کی ساری حرکات نوٹ کر رہی تھیں۔کچھ بولو۔کتنے مہینوں سے تمہاری آواز نہیں سُنی۔لالہ نے آنسو صاف کیے۔آپ کون؟ رک رک کر یہ دو لفظ صدیوں کا فاصلہ طے کر گئے۔لالہ کی رگوں میں خون جمنے لگا۔میں تمہارا بابا۔لالہ۔بصیر الدین خان۔لالہ۔۔۔بہت دیر کے بعد یہ لفظ ادا ہوا۔کئی صدیاں گذریں۔لالہ کے لیے کھڑا رہنا دوبھر ہو گیا۔لالہ نے رحم طلب نظروں سے ڈاکٹر کرسٹینا کو دیکھا۔یہ تو پہچان نہیں رہا۔او مائی گاڈ۔His memory is missing اس کی یاداشت ختم ہو گئی ہے۔سر میں گولی لگی تھی۔جس سے بہت سی نسیں Demageہوئیں۔بحالی میں وقت لگے گا۔آپ کو اس نئی صورت حال کو قبول کرنا ہو گا۔ڈاکٹر ڈیوس اور ڈاکٹر علی اکبر بھی آ گئے۔گولی کی وجہ سے سر کا کچھ حصہ سُن ہو گیا تھا۔ڈاکٹرز نے نئے سرے سے ٹیسٹس شروع کئے۔جس سے یہ واضع ہو گیا کہ سجیل کی یاداشت کھو چکی ہے اور ڈاکٹرز اس کے لئے مزید کچھ نہیں کر سکتے تھے۔اسے اب ایسے ہی زندگی گذارنا تھی۔اسے ہر چیزنئے سرے سے بتانا ہوگی۔ہو سکتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ اس کے دماغ کا وہ حصہ خود بحال ہو جائے اور اس کی یاداشت واپس آ جائے۔لالہ کئی دن تک صدمے کی کیفیت میں رہے مگرسجیل اب تیزی سے بہتر ہو رہا تھا۔لالہ کے بیٹے انگلینڈ میں اس کے پاس آ گئے۔وہ اپنی سکول کی چھٹیوں میں اس کے پاس رہے۔اس کے دوست تو وہ تھے ہی۔ان کے پیار اور توجہ نے سجیل کو نئی زندگی دی۔وہ آہستہ آہستہ سب کچھ نیا سیکھنے لگا۔اسے تصویروں اور آوازوں کے زریعے سب کچھ سکھا دیا گیا کہ وہ کون ہے اور اس کے ارد گرد لوگ کون ہیں اور وہ اکیلا نہیں۔اس کو ابھی مزید صحت کی بحالی کی ضرورت تھی۔لالہ اپنے ایک کاروباری دوست مسٹر جیمس رائن اس کی ذمہ داری سونپ کر چھ ماہ بعد پاکستان آ گئے۔
لاہور کے گھر کو نئے سرے سے تیار کیا۔سجایا۔سجیل خان نے آنا تھا۔چونکہ سجیل کے سبھی دشمنوں کا خاتمہ ہو گیا تھا۔زمینوں پر مقامی حکومت نے قبضہ کر لیا تھا۔زور آور خان پہاڑوں میں روپوش تھا۔بیٹے کو اس نے خود مروا دیا تھا۔عورتوں کا کیا تھا۔اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔ بیوی بیٹے کے صدمے سے مر گئی۔بہنیں اپنے سسرال میں تھیں۔سجیل خان نے ان زمینوں پر کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا۔زور آور خان کی ساری طاقت کچل دی گئی تھی۔قادر راز کھلنے پر زور آور خان کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔یوں اس خون ریز کہانی کا انجام اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
دو سال بعد سجیل گھر آ رہا تھا۔گھر کو دلہن کی طرح سجایا گیا۔دعوت کا بندوبست ہوا۔جاننے والے دوست رشتہ دار سبھی اکھٹے ہوئے۔سجیل کا سب سے تعارف ہوا۔مگر اب وہ ایک مختلف سجیل خان تھا۔بڑی بڑی گہری آنکھوں میں اک اداسی ہمہ وقت تیرتی رہتی۔چہرے پرقیامت کی سنجیدگی کا غلاف چڑھا رہتا۔ہونٹ چپ۔حسین تو وہ پہلے بھی تھا۔یورپ کی فضا میں وہ اور بھی فریش ہو گیا تھا۔پہلے سے زیادہ وجہیہ اور پرکشش لگتا تھا۔ڈاکڑ مدیحہ کتنی ہی دیر اس کے سامنے بیٹھی اسے دیکھتی رہیں۔اس کی آنکھوں میں پہچان کی لو نہیں تھی۔مگر اک بے چینی، اک بے قراری ضرور اس کے چہرے پر تھی۔اک کرب اس کے وجود پر چھایا تھا۔آپ ڈاکڑ مدیحہ ہیں۔وہ آہستہ آہستہ بولا۔تو ڈاکڑ مدیحہ کے صبر کے بند ٹوٹ گئے۔وہ اس کا ہاتھ تھامے کتنی ہی دیر روتی رہیں۔ان کے رونے سے وہ بے چین اور دکھی ہوا۔پلیز سٹاپ۔آئی ایم سوری۔وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔
بڑے شاندار پیمانے پراس کا جشنِ صحت منایا گیا۔وقت اپنی رفتار سے چلنے لگا۔لالہ نے اس کے لئے ایک پروفیسر صاحب کو آمادہ کیا۔کہ وہ مقابلے کے امتحان کے لئے اسے تیاری کروائیں۔ڈاکڑ لئیق احمد روزانہ یونیورسٹی کے بعد سیدھے خان کاٹیج میں آتے اور سٹڈی میں اس کی راہنمائی فرماتے۔رزلٹ تو کب کا آ چکا تھا۔مگر سجیل اکیلا ہی تھاجو اس ڈگری کو حاصل کرتا۔وقت بھی کیسے کیسے کرشمے دکھاتا ہے۔ بہت اچھی تیاری تھی مگر امتحان بھی کافی ٹف تھا۔کچھ نمبروں سے کام رہ گیا۔مگر لالہ اور ڈاکڑ لئیق نے ہمت نہیں ہاری۔دوبارہ اسی جذبے سے کام شروع کیا۔ابکے وہ پہلے دس کامیاب لوگوں میں شامل تھا۔لالہ نے پھر ایک جشن کا اہتمام کیا۔وہ چاہتے تھے کہ سجیل خان دنیا سے ملے جلے کچھ رونق حاصل کرے۔وہ پہلے جیسا ہو جائے کم از کم ہنس بول تو لیتا تھا ۔مگر اب کے لالہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔وہ تو پتھر کا ایک مجسمہ بن چکا تھا۔لالہ اسے دیکھ دیکھ کر کڑھتے رہتے۔سجیل کو ٹرینگ کے لئے جانا تھا تاکہ پھر کوئی محکمہ جوائن کر سکے۔چھ ماہ کا کورس تھا ۔واپس آیا تواسے ڈپٹی کمشنر کا عہدہ دے کرایک قریبی تحصیل میں تعینات کر دیا گیا۔دو ماہ کے جاب کے بعد کسی دوست کے ساتھ دورے پر بصیر پور جانا پڑا۔اسے یہ علاقہ پسند آیا۔اچھا لگا۔جنگل،ٹیلے،بیلے،پہاڑیاں،ندی نالے،اپنے جیسے ویران علاقے ،یہ بھی ایک تحصیل تھی اسی دوست سے کہہ کر وہ بصیر پور تحصیل کا ڈپٹی کمشنر بن کر یہاں آ گیا تھا۔ایک چھوٹا سا دو منزلہ گھر لے لیا گیا۔حالانکہ سرکاری ریسٹ ہاؤس موجود تھا۔ڈپٹی کمشنر کے لیے خوبصورت گھر موجود تھا مگر سجیل نے رہنا نہیں چاہا۔آبادی سے دور وہ اکیلا ہی بس اپنے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔وہ جانتا تھا کہ اس کی یاداشت گم ہو چکی ہے۔کھبی کبھی دماغ پلٹے کھاتا تھا۔سائے سے لہراتے وہ گھنٹوں اس تکلیف دہ کیفیت میں مبتلا خود کو کھوجتا رہتا۔مگر کسی سوال کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔لالہ کو دل کے روگ نے ایسا جکڑا کہ جان لے کر چھوڑا۔لالہ کے بچے اب کافی سیانے ہو چکے تھے۔وہ کبھی کبھی سجیل سے ملنے آ جاتے۔مگر اس کی چپ کے تالے کو وہ بھی نہ توڑ سکے تھے۔
ضمیر شیرازی صاحب کے تصور میں ساری فلم چل رہی تھی۔بابا جی نے جوکہانی سُنائی تھی وہ یقیناََ سچی تھی مگر سجیل خان کو اس پردرد کہانی کا علم نہیں تھا۔لالہ نے اسے کسی صدمے سے بچانے کے لئے اس کے ماضی کی ساری کہانیوں کو اپنے دل میں دفن کر دیا تھا۔بابا جی ساری کہانی سنا کر تھک گئے اور صوفے پر ہی دراز ہو گئے۔شیرازی صاحب ابھی بھی اس الف لیلوی کہانی کے کرداروں میں گھوم رہے تھے۔کیسی قسمت تھی اس بندے کی۔اب کے پھر ایک وزیر زادی کا دل اس پر آ گیا تھا۔وہ جو خود اپنے بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔خیر اسے بتانے کی ضرورت بھی کیا ہے۔وہ فیصلہ کر کے اٹھے۔سیکرٹری کو بُلایا۔بابا جی اٹھیں تو انہیں یہ رقم دے کر ان کے گا ؤں پہنچا دینا۔یس سر۔
شیرازی صاحب بہت دیر سے گھر پہنچے تھے۔بیگم نے پریشانی سے پوچھا۔آج خیریت ہی تھی۔بہت دیر کر دی۔بس یار آج ایک بڑے کام میں پھنس گیا تھا۔تمیں پتا ہے نا صائمہ بیٹی کی ایک بندے سے ملاقات ہوئی تھی بصیر پور میں۔ڈپٹی کمشنر،سجیل خان سے۔جسے بہت مغرور اور اجڈ کہا جاتا ہے۔بس اس کی تحقیق میں لگ گیا تھا۔ایک بزرگ ملے جنہوں نے اسکی زندگی کی ساری کہانی مجھے سنا دی ہے۔مجھے تو اس لڑکے پر ترس آنے لگا ہے۔وہ حقیقاََ بہت دُکھی ہے۔موت کے منہ سے واپس آ چکا ہے مگر اس کی یاداشت ختم ہو چکی ہے۔اسے پچھلی زندگی یاد نہیں ہے۔اس کی ذہنی حالت کے پیش نظراس کی کہانی اسے سنائی بھی نہیں گئی۔بس اسے اس قابل بنا دیا گیا ہے کہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزار سکے۔مگر جو زندگی وہ گزار رہا ہے وہ بھی کوئی زندگی تو نہیں۔میں صائمہ سے کہوں گا کہ اسے زندگی کی طرف واپس لائے۔وہ لڑکا عام لوگوں جیسا ہے ہی نہیں ۔ اس لئے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔اس کا سارا خاندان مارا جا چکا ہے۔وہ اکیلا ہے اس ساری دنیا میں۔دونوں میاں بیوی بہت دیر تک افسوس کرتے رہے۔بہت دنوں سے سجیل الجھن میں تھا۔وہ جیکٹ والے گفٹ کو کئی مرتبہ نکال کر دیکھ چکا تھا۔گفٹ بھیجنے کا مقصد کیا تھا۔اچھا ہے مگرمیں سمجھ نہیں پا رہا۔لڑکی کا چہرہ چھپاک سے اس کے سامنے آجاتا۔
آج تو وہ صبح سے ہی آفس میں بزی تھا۔بہت سے لوگوں سے بھی ملنا تھا۔ابھی فارغ ہوا ہی تھا کہ اس کے پرسنل فون پر ایک انجان کال آئی May I talk to Mr. Sajeel Khan!کیا میں سجیل خان صاحب سے بات کر سکتی ہوں)Yes ۔صائمہ شیرازی۔میرا گفٹ کیسا لگا؟وہ بہت سنجیدہ تھی۔بھیجنے کی وجہ۔سجیل نے پوچھا۔خیر سگالی۔دوستی کا پیغام۔صائمہ نے دلیری سے کہا۔میں پسند نہیں کرتا۔ سوری۔اے اے فون بند نہ کریں پلیز۔وہ التجا پر اتر آئی تھی۔وہ رُک گیا۔آپ اتنے پتھر کیوں ہیں؟وہ روہانسی ہو گئی۔میں ملنا چاہتی ہوں آپ سے۔I am sorry سہجیل نے فون بند کر دیا۔سر میں آج پھر عجیب سی ہلچل شروع ہو گئی تھی۔آنکھوں کے آگے سائے ناچنے لگے بچاؤ بچاؤ کے نعرے دل کے قریب سے سنائی دیتے۔وہ پھر سے آنکھیں بند کئے ان وحشتوں سے نبرد آزما تھاجن کا کوئی بھی سرا ہاتھ نہیں آتا تھا۔یہ لڑکی آخر میرے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے۔کیا کروں؟اب تو دماغی اذیت کے ساتھ وہ بھی آنکھوں کی پتلیوں پر رقص کرنے لگی تھی۔وہ اس کے بارے سوچنے لگا تھا۔
یوں وہ گاڑی نکال کر جنگل کی طرف نکل گیا۔اسے یہاں آ کر بہت سکون ملتا تھا۔گھنے درخت اس کے ہمراز تھے۔ہوائیں اس سے سرگوشیاں کرتیں۔خوشبو اس سے گلے ملنے آتی۔شاخیں اس کی بلائیں لیتیں۔وہ جنگل کے کنار ے بوڑھے برگد سے ٹیک لگائے بہت سکون حاصل کرتا جیسے باپ کی آغوش ہے یا ماں کی گود اس کے آنچل سے کھیلتا معصوم بچہ۔لوریوں کی آوازیں اسکے کانوں میں رس گھولتیں تو وہیں ٹیک لگائے سو جاتا۔اکثر ڈرائیوراسے آ کر جگاتا اور ساتھ لے جاتا۔
کل سنڈے تھا اور اس کا پروگرام تھا کہ سارا دن یہاں گذارے گا۔کتابیں پڑھے گا۔درختوں،پودوں،پھولوں،ہواؤں سے باتیں کرے گا۔ پہاڑیوں میں سے گزرنے والے قدرتی نالے تک جائے گا۔جو چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔آج لالہ زبیر الدین خان بہت یاد آئے۔وہ میرے بابا تھے توپھر انہوں نے مجھے ماضی کے بارے کچھ کیوں نہیں بتایا۔میرے ماضی میں کیا کیا تھا؟کون کون لوگ تھے؟ماں باپ کہاں ہیں؟میرا کوئی کیوں نہیں؟لالہ بھی چلے گئے مجھے اکیلا چھوڑ کر۔کس سے پوچھوں ؟کون بتائے گا؟ کون مجھے مطمین کرے گا؟سکون کب حاصل ہو گا؟وہ اپنی ذات کے اندر تڑپ تڑپ جاتا۔سفید شلوار قمیض،سیاہ ویسٹ کوٹ اور سیاہ جاگرز اورسیاہ چشمہ۔گارڈ نے دیکھاا ﷲ نظر بد سے بچائے۔وہ منہ میں بدبدایا۔شبیر خان کچھ دوپہر کے کھانے کے لئے لے لو۔ہم آج دن وہیں گذاریں گے۔اوہ مارے گئے۔گارڈ نے سوچا پھر سارا دن درختوں سے باتیں۔وہ جتنا تنہائی سے خوف کھاتا تھا اتنا ہی اس کا صاحب تنہائی پسند۔جی۔جی۔صاحب۔اس نے خانسامہ کو بتا دیا تھا۔وہ ٹو کری تیار کرنے میں مشغول ہو گیا۔برکت بابا۔آپ بھی آ جاؤ۔شبیر اکیلا ہو گا وہاں۔کچھ شکار کھیل لینا۔ارے ہاں۔ بابا برکت جلدی سے اپنی گن نکال لایا۔یہ اچھا ہے۔وہ ضروری تیاریوں میں لگ گئے۔
جنگل میں پہنچے۔خیمہ لگ گیا۔سجیل چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔خوبصورت ہرا بھرا جنگل۔برگد کا یہ دور تک پھیلا ہوا درخت۔جنگلی بیلیں، پھول، سبزہ،قدرت کا شہکار۔بابا چائے بناؤ۔میں ابھی آتا ہوں۔یہ کہہ کر وہ آگے چل دیا۔بابا چائے بناؤ۔ میں خان کے پیچھے ہوں۔ جانتے ہو جنگلی جانور بھی ہیں اور خان خالی ہاتھ۔ہاں ہاں تم جاؤ۔صاحب کا خیال رکھنا۔بابا برکت نے ماں کی طرح نصیحت کی تو شبیر ہنس پڑا۔شبیر پیچھے ہی تھا مگر ایسے کہ سجیل کو پتہ بھی نہ چلے اور وہ اس کی حفاظت بھی کر سکے۔یہ ہدایات انہیں لالہ نے اپنی زندگی میں ہی دی تھیں۔میں رہوں یا نہ رہوں،تم رہو یا نہ رہو۔سجیل کی ساری زندگی حفاظت کرنا۔وہ میرے دوست کی آخری نشانی ہے اور شبیر کو اس کے باپ نذیر نے سجیل کے بارے سب کچھ بتا رکھا تھا۔گھوم پھر کر واپس آئے تو چائے تیار تھی۔سجیل نے چائے پی اور آرام کرنے خیمہ کے اندر چلا گیا۔بابا برکت! صاحب بہت اداس رہتا ہے اور اکیلا بھی۔اسے شادی کر لینی چاہیے۔کوئی چخ چخ کرنے والی آ جائے گی تو صاحب کی چپ اور اداسی دور ہو جائے گی۔ہاں یار مگر کوئی صاحب کے مقابلے کی ملے گی توپھرنا۔ویسی سوہنی،پڑھی لکھی، خاندانی،وقار اور دبدبے والی۔ہاں بابا۔بات تو ٹھیک ہے۔معمولی عورت تو اچھی ہی نہیں لگنی صاحب کے ساتھ۔شبیرنے خیمے میں جھانکا۔صاحب سو رہے ہیں۔وہ مطمئن ہو کرباتیں کرنے لگے۔
صائمہ کسی کو بتائے بغیر بصیر پور شیرازی حویلی میں پہنچ گئی تھی۔نوکر چاکر بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔اس نے سجیل کے پی۔اے کو فون کیا۔میڈم صاحب آج سارا دن جنگل میں گزاریں گے۔وہ اکثر ایسا ہی کرتے ہیں بلکہ تقریباََ روزانہ۔ٹھیک ہے۔وہ سوچنے لگی۔جنگل میں! رویے سے بھی جنگلی ہی لگتا ہے۔وہ سوچ کر ہنس پڑی۔
ریحانہ میرے کپڑے تیار کرو میں آج ذرا جنگل کی شرقی جانب جاؤں گی ندی پر۔کچھ کھانے کو دے دو۔بی بی جی اکیلی!ہاں اکیلی۔وہ جانور بھی ہیں۔اچھی بات ہے وہ یہ کہہ کر واش روم میں چلی گئی۔تھوڑی ہی دیر بعد وہ سفید لباس میں ملبوس باہر نکلی۔پریاں بھی دیکھتیں تو شرما جاتیں۔اس سادگی میں بھی قامت کی حسین تھی۔بغیر میک اپ،زیورات یا فیشنی لباسوں کے۔لمبے بھورے چمکتے بال کلپ کئے ہوئے تھے۔کیمرہ ،لیپ ٹاپ، لکھنے پڑھنے کا سامان لئے وہ ندی پر پہنچی۔ڈرائیور اورگارڈکو سڑک پر ہی رُکنے کا اشارہ کر کے وہ اک بڑی سی چٹان پر اپنا دفتر لگا کر بیٹھ گئی۔اس امید پر کہ شائد وہ دشمنِ جاں ادھر آ نکلے تو وہ اس کا ایک دیدار ہی کر لے۔من میں ایک لگن تھی۔اک جنون، اک امید،اک سوچ،ارادہ۔وجہ کششں عشق،محبت،تڑپ،دیوانگی،فرزانگی۔کیا تھا کہ وہ لمحوں کی سولی پرلٹکی قطرہ قطرہ اپنے اندر مٹتی جاتی تھی۔اس کا یقین پختہ تھا۔وہ دشمنِ جان ادھر ضرور آے گا۔یہی سوچ کر وہ جنگل سے آنے والے راستوں کے رُخ پرآنکھیں بچھائے بیٹھی تھی۔لمحہ لمحہ قاتل تھا،انتظار کی آرزوؤں اور تشنگیوں سے بھرا ہوا۔اب وہ تھی اور اس کا یقین۔کاش عمر یہیں گزر جائے۔آنے والے زمانوں میں لوگ اس دیوانگی کو کوئی تو نام دیں گے نا؟اس نے عزم کر لیا تھاکہ وہ اس پتھر کو ضرور پگھلا کر چھوڑے گی اور وہ پتھر پر بیٹھی پتھر ہوتی رہی۔
شبیر پانی پلاؤ۔خیمے سے آواز آئی۔شبیر جلدی سے پانی لے کر پہنچا۔صاحب کھانا لگا دیں۔ہاں لیکن باہر لگاؤ،اندر نہیں۔جی سر۔کھانا کھا کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔میں ذرا جنگل میں گھوم کر آتا ہوں پھر واپس چلتے ہیں۔جی سر۔دونوں باادب ہو گئے۔بابا تم چیزیں سنبھالو۔میں جا رہا ہوں۔ٹھیک ہے بیٹا۔اور وہ چلتا رہا۔اس مسافر کی مانند جس کی کوئی منزل نہیں تھی۔بھٹکا ہوا آہو۔دشت میں اکیلا تھا۔راہ نہ منزل نہ اس کا کوئی نشان۔ زندگی اسے کہاں لیے جاتی تھی۔کہاں لے جائے گی۔لاحاصلی کی لمحے وصول کرتے عمریں خرچ ہو گئیں۔وہ عمریں جو اس کی حیات کا حاصل ہوتیں۔وہ لمحے جو اس کے وجود میں رقص کرتے ۔وہ نغمے جو کانوں میں گونجتے۔وہ نور جوراستہ بنتا۔میلوں لمبے فاصلے تھے۔ مسافر پاپیادہ ، راستہ کانٹوں ، ببول اور سوکھی جھاڑیوں سے بھرا تھا۔جہاں سانپ پھن پھیلائے ڈسنے کو تیار بیٹھے تھے۔ ہر لمحہ کوئی کانٹا چبھتا، کچھ دل کا لہو کرتا،کچھ آنکھوں میں سیاہی پھیلا دیتا۔قسمت کی آنکھ مچولی جاری تھی۔وہ چلتا رہا۔تھکن ہی تھکن،سارا وجود ہی تھکن تھا۔ اپنی ہی لگن میں وہ چلتا رہا۔وقت اور زمانے کی حد سے پرے وہ کسی لامکانی کی حد میں داخل ہو رہا تھا۔غبار ہی غبار تھا۔بگولے سانسوں میں اٹکتے تھے،گرد باد ہمراہ تھے۔لمحوں کی چھپی ہوئی بلائیں آگے پیچھے گول گول گھومتی تھیں۔اپنی ہی ذات کی بھول بھلےؤں میں چلتے چلتے وہ جنگل سے باہر جا نکلا۔بادل چھا چکے تھے۔کچھ ہی لمحوں میں بارش کا امکان تھا۔ٹھنڈی ہواؤں نے سارے جنگل اور ندی پر قبضہ کر رکھا تھا۔ندی کے پُرجوش پانی کووہ کتنی ہی دیر دیکھتا رہا۔اچانک ہی اسے لگا جیسے کوئی سفید سی چیز سامنے پتھروں پر لہرائی تھی۔کوئی پرندہ ہے یا جانور۔ یہاں اس سے پہلے تو ایسا کچھ نہیں تھا۔تجسس نے اسے ابھارا ،وہ کیا ہے ؟ دیکھا تو جائے۔وہ ندی کی روانی کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔وہ اس چکنی سی ہموار چٹان کے پاس جا کر رُک گیا۔اس پر کوئی بیٹھا تھا۔انسان ہی لگتا تھا۔یا غالباََ کوئی عورت یا لڑکی۔مگر یہاں کسی عورت کا کیا کام۔پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔ہاں مقامی لوگ کبھی کبھی نظر آجاتے ہیں۔پھر یہ تو کوئی مقامی بھی نہیں لگتی۔لمبے بھورے چمکیلے بال نازک سی پشت کو ڈھانپے ہوئے تھے۔سامنے پتھروں سے ٹکراتے پانی کا شور تھا جو اپنے جلوے بکھیرتا، گاتا چلا جاتا تھا۔اس سے پہلے وہ اسے مخاطب کرنے کی کوشش کرتا ،اچانک ہوا کے اک تیز جھونکے نے اس کا ڈوپٹہ اڑا دیا۔ڈوپٹہ پکڑنے کو وہ سائیڈ پر مُڑی تو یکدم اپنے بالکل پیچھے کسی کو کھڑے دیکھ کر گھبرا گئی۔پاؤں پھسلا تو سیدھی اس کے پاؤں میں آرہی۔وہ تو پھولوں سے بنی تھی،رنگ ہی رنگ، خوشبو ہی خوشبو۔وہ ایک سکتے کے عالم میں اسے دیکھ رہا تھا۔وہ ہی اداس چہرہ ،بڑی بڑی گھبرائی ہوئی روتی ہوئی دُھلی شفاف آنکھیں،جن میں سارے جہان کی روشنی تھی۔نور تھا۔ حسرت تھی۔یکدم اسے ہوش آیا۔آہ۔او۔سوری۔اس نے جلدی سے ڈوپٹہ پکڑنے کی کوشش کی،وہ مزید اڑ کر اگلے پتھروں سے جا چپکا تھا۔ سجیل نے ہاتھ سے اسے رُکنے کا اشارہ کیا۔خود ہاتھ بڑھا کر ڈوپٹہ پکڑا اور اسے دے دیا۔کتنی ہی دیر ڈوپٹہ پکڑے وہ اسے دیکھتی رہی، دیکھتی رہی۔لمحوں میں صدیوں کے فاصلے طے ہوئے تھے۔آج ان انکھوں کو اتنا دیکھنا تھا کہ وہ خود اس کی آنکھ بن جاتی۔دیکھتے دیکھتے نجانے کہاں سے دو موٹے موٹے چمکیلے موتی لابنی پلکوں پر کچھ دیر کو رُکے اور سندوری گالوں پر پھسل گئے۔ آنسوؤں نے محبت کی ساری کہانی حسین رخساروں پر لکھ دی تھی۔لب کھولنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔اس کی زندگی سے بھری ہوئی آنکھوں میں زندگی تھی۔رونق تھی۔ طلب تھی۔خواہش تھی۔محبت تھی۔التجا تھی۔صدیوں کی تیز دھار تلوار پر چلنے والے کی منزل تھی۔آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ سفر طے ہوا تھا۔ وہ کچھ بھی کہے بغیر چیزیں سمیٹنے لگی۔وہ پتھر کا بت،اپالو دیوتاکا مجسمہ وہیں ایستادہ تھا۔کچھ بھی نہیں بولا ۔وہ مڑ کر جانے لگی تھی جب ایک مضبوط ہاتھ اس کے کندھوں پر آیا۔اس نے مڑ کر شکایتی نگاہوں سے دیکھا ۔کتنے شکوے،کتنے گلے،کتنی شکائیتں۔کیا کچھ کہنا تھا۔ کیا کچھ سُننا تھا۔آئیں۔ایک لفظ نے صائمہ پر شادی مرگ طاری کر دی تھی۔یوں جیسے زمانوں سے، قرنوں سے۔ازل سے شائد وہ یہی ایک جملہ سُننا چاہتی تھی۔اسی کا انتظار تھا۔یہی تو اس کی منزل تھی۔چاہ تھی۔ضرورت تھی۔تکمیل تھی۔
یہ بیگ۔سجیل نے خاموشی سے بیگ پکڑ لیا۔وہ آگے آگے چلنے لگا۔وہ کسی معمول کی طرح چلنے لگی یوں جیسے دو راج ہنسوں کی جوڑی تھی۔ جیسے آسمان سے اتری ہوئی مخلوق سبزے سے بھرے جنگل میں سفید پروں والے دو کبوتر اپنے دھیان میں اڑ رہے تھے۔چپ اور خاموش ہوائیں تھم گئی تھیں۔کسی ایک لفظ کے انتظار میں واپسی کا سفر کیسے طے ہو گیا۔سارے مرحلے خود بخود طے ہو گئے تھے۔بابا برکت تو حیرت سے گنگ ہو گیا۔آج ہی اس کی دُعا پوری ہو گئی تھی۔صاحب کے برابر کی شاندار لڑکی اس کے ساتھ تھی۔شبیر نے بتایا۔وزیر صاحب کی بیٹی ہے۔او۔او۔اچھا اچھا۔ماشا اﷲ۔جوڑی بنے اور سلامت رہے۔بابا نے دور سے دیکھ کر دُعا دی۔واپس چلیں گے۔گاڑی تیار تھی۔سجیل نے خود دروازہ کھولا۔وہ اندر بیٹھ گئی۔وہ فرنٹ سیٹ پر جا بیٹھا۔بولتی آنکھوں نے اس کی اپنی زبان کو اور گنگ کر دیا تھا۔ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ میڈم کو،وہ اندر چلا گیا۔دماغ میں پھر قیامت برپا تھی۔کیا کرے۔کیا کہے۔وہ جانتا تھا۔صائمہ شیرازی اس سے بے پناہ محبت کرنے لگی تھی۔سجیل کی زندگی کے ٹھہرے پانی میں اس نے اپنی توجہ کے کنکر پھینکے تھے۔جہاں بنتے،ٹوٹتے دائروں نے سجیل کے وجود میں ہلچل مچا رکی تھی۔
وہ ڈرائینگ روم میں ٹی شرٹ اور ٹراوزر پہنے آیا۔وہ ہر رُوپ میں جچتا تھا۔وہ کھڑی ہو گئی۔بیٹھئے۔شبیر !بابا سے کہو کچھ کھانے کو لے آئیں۔ اور کافی بھی۔جی صاحب۔آپ اکیلی تھیں ادھر۔یقیناًنہیں ہونگی۔وہ اس پر نظریں ٹکائے ہوئے آہستہ آہستہ گویا ہوا۔ابھی پہنچ جائیں گے وہ۔لیجئے کافی،کچھ نہیں کھایا ہو گا۔اس لئے کہ پتھر پر کھانے کی کوئی چیز نہیں تھی۔لیجئے اس نے شامی کباب کی پلیٹ اس آگے کی۔آپ بھی لیں۔وہ پہلی دفعہ بولی تھی۔آپ میرے بارے کیا جانتی ہیں؟کچھ بھی نہیں۔اس نے گھنی پلکھیں اوپر اٹھائیں۔اور کچھ جاننا بھی نہیں چاہتی۔جو دیکھا ،جو جانا،وہی کافی ہے۔یہ آپ کس بنیاد پر کہہ سکتی ہیں۔وہ اسے غور سے دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔محبت کی بنیادپر وہ دلیری سے بولی۔محبت،اک بے چینی،بے قراری،اک وحشت سجیل کے وجود میں اترنے لگی۔اس کا سر بھاری ہونے لگا۔اپنے ہاتھوں سے وہ اپنا ماتھا دبا رہا تھا۔آنکھیں سرخ انگارہ ہونے لگیں تھیں۔صائمہ نے اس کی یہ حالت دیکھی تو ڈر گئی۔آپ ٹھیک ہیں؟وہ تھوڑا سا گھبرائی۔ شبیر نے جلدی سے پانی اور میڈیسن اسے دی۔سر آپ آرام کیجئے۔ہاں ٹھیک ہے۔سوری! وہ یہ کہہ کر اٹھ گیا۔وہ اسے جاتا دیکھتی رہی۔اتنا لمبا چوڑا جوان آدمی،کس بیماری کا شکار ہے۔اسے تجسس ہونے لگا۔بیٹی اور کچھ چاہیے۔بابا برکت اندر آیا۔نہیں بابا جی۔اک بات پوچھنی تھی۔پوچھیں۔بابابرکت باادب ہو کر کھڑے ہو گئے۔یہ آپ کے صاحب کب سے بیمار ہیں؟اور کیا بیماری ہے انہیں؟وہ پریشانی سے پوچھنے لگی۔کچھ نہیں بیٹے کچھ نہیں ۔ہم نہیں جانتے۔بابا کوئی بات تو ہے جو آپ ہم سے چھپا رہے ہیں۔بی بی ہمیں آپ سے کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں۔سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔وہ آپ کاڈرائیور آ گیا ہے۔شبیر نے اطلاع دی۔ٹھیک ہے میں چلتی ہوں۔شکریہ۔
وہ الجھن کا شکار تھی۔کچھ مایوس بھی تھی۔امید بھی تھی۔انتظار بھی تھا۔زندگی عجیب دوراہے پر تھی۔وہ اتنا بُرا نہیں جتنا وہ خود کو دکھاتا ہے۔ اسے یا دآیا جب وہ پتھر سے پھسل کرسیدھے اس کے مضبوط بازوءں میں گری تھی۔اس کے سینے میں گویا آگ جل رہی تھی۔اس کے وجود کی حدت نے صائمہ کو موم بنا ڈالا تھا۔وہ یہ سوچ کر ہی شرما سی گئی۔وہ اپنے ہر روپ میں سب سے الگ ہے۔اس نے سوچا۔محبت میں اور شدت آگئی تھی۔جب سے سب کچھ اسے کہہ آئی تھی تب سے تو آنکھوں میں نیند کی جگہ وہ سرخ آنکھیں تھیں۔دہکتا ہُوا چہرہ اور آگ لگاتا ہوا وجود۔اک تصور، اک خواب، اک خیال،اک سراب،اک دھوکہ۔اف ف ف۔کہاں جاؤں۔وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی،نہیں رہ سکتی۔وہ سوچتی خود کو یقین دلاتی۔اس کا قرب کیسے حاصل ہو؟کب وہ اس کے سینے پر سر رکھ کر اسے اپنے دل کا حال سُنائے گا۔اپنے دل کی تڑپ،بے تحاشا کسک،طلب کا جنون،ان دیکھی سی شرارت کی تتلیاں جو اس کے تن کو چھو کر من کو ہلکورے دیتی۔وہ لمحہ لمحہ پگھلتی۔اس کے تصور میں گھل جاتی۔کیسی آگ تھی جو لمحہ لمحہ اسے جلاتی ،بھڑکاتی، مارتی اور کاٹتی تھی۔رات رات جاگنے نے اس کی پڑھائی پر بھی اثر ڈالا تھا۔کلاس میں بیٹھے بیٹھے کہیں کھو جاتی۔ان دیکھے جزیروں کی سیر پر نکل جاتی،جہاں اک جنگل مہکتا،جہاں ندی کا پانی دمکتا اور دو سائے لہراتے۔دو مضبوط ہاتھ اس کے نازک وجود کوسمیٹ لیتے۔وہ اچانک ہوش میں آتی تو ارد گرد کلاس ختم ہونے کا منظر اپنی پوری سفاکی کے ساتھ چھایا ہوتا۔اف! پروفیسر رخسانہ زیدی نے ایک دن ٹوک دیا تھا۔صائمہ شہزادی آپ آج کل کچھ کھوئی کھوئی سی رہتی ہیں۔طبیعت ٹھیک ہے آپ کی؟ یا پھر سبجیکٹ مشکل ہے۔اور صائمہ شہزادی تھوڑا سا شرمندہ ہو گئی۔میں ایک بریلینٹ سٹوڈینٹ تھی۔یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے۔وہ کیا ملا کہ میں اپنا آپ سارے کا سارا ہار آئی ہوں۔اقبال بانو کا گانا کانوں میں گونجنے لگا۔
تو پیا سے مل کر آئی ہے۔بس آج سے نیند پرائی ہے ۔ دیکھے گی سپنے ساجن کے
تو لاکھ چلے رے گوری تھم تھم کے۔پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے
وہ سوچتے سوچتے تھک کر بستر پر گر جاتی تو نائمہ کا فون آ جاتا۔میری شہزادی نے سلوک کی کتنی منزلیں طے کیں ہیں۔اور ابھی تک عشق کے کس درجے پر فائز ہوئی ہے اور جنوں کی کشتی کو کنارا ملا کہ نہیں۔اس سوال پر صائمہ زور سے قہقہ لگاتی۔آئی بڑی فلاسفر وہ ناز سے اٹھلاتی۔تم کیا جانو۔محبت کیا ہے؟سنگدل لڑکی، کام ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔محبت سب سے بڑی حقیقت ہے۔عشق،جنوں،دیوانگی، فرزانگی کی حدیں پھلانگ کر دیکھو۔تم خود کو بادلوں میں گھرا پاؤ گی۔جہاں یار کی خوشبوئے بدن تمہارے ہوش گم کر دے گی۔اس کی سانسوں کی گرمی بارش بن کر تمہارا انگ انگ بھیگو دے گی۔تم کسی طلسم زارمیں کھو جاؤ گی۔اپنے محبوب سے مل کر تم رانجھے کے ساتھ رانجھا ہو گئی ہو۔ایسا ہی لگتا ہے۔نائمہ نے چٹکی لی۔تو کہہ لڑکی میں سجیل سجیل ہو گئی ہوں۔صائمہ ہنسی۔شکر ہے تو خوش ہے۔ورنہ تو سب کو مصیبت میں ڈال دیا تھا۔سُن بابا کو پتہ ہے۔نائمہ نے راز داری سے پوچھا۔ہاں نا۔صائمہ زور سے چیخی۔او کے ۔او کے۔او کے۔میرے کان اپنے ہی ہیں نائمہ ہنستی ہوئی بولی۔پھر تو سارے کام آسان۔اچھا سُن جلد ہی آ رہی ہوں۔آ کے تیرے محبوب سے ملتی ہوں کہ وہ ذات شریف کتنے پانی میں ہیں۔ارے نہیں ۔صائمہ بے ساختہ بولی۔آواز میں سے یکدم شوخی غائب ہو گئی۔کیوں کیا ہوا؟تو آ جا پھر بیٹھ کر بات کریں گے۔ کچھ سیریس بات ہے۔ہاں ہے ناں۔بتاؤں گی۔وہ چپ ہو گئی۔پھر تو جلدی آنا پڑے گا۔نائمہ زندہ دلی سے بولی۔چل رکھ فون۔تیاری شروع کروں۔
میں تو بھول ہی گئی ہوں سجیل بیمار ہے۔پریشان ہے۔وہ سوچ کی گہرائی میں اتر گئی۔اس نے تو اپنے منہ سے کوئی اقرار بھی نہیں کیا۔میں تو بس اس کے رویے کی وجہ سے اسے محبت سمجھ بیٹھی ہوں۔حالانکہ کوئی عام انسان بھی ہوتا توشاید ایسا ہی کرتا۔وہ سوچتی چلی گئی۔ملاقات کے آخری لمحے آنکھوں کے آگے ناچنے لگے۔وہ کچھ کہے بغیر اٹھ کر چلا گیا۔میں نے تو اس کا حال تک نہیں پوچھا۔اپنی ہی خوشی اور یک طرفہ محبت میں ہی گم ہوں۔
اگر اسے میری زندگی بننا ہے تو پھر مجھے بھی اس کی زندگی کی خیر خبر معلوم ہونی چاہیے تھی نا۔وہ پشیمان ہونے لگی۔نائمہ نے کیا کہہ دیا مجھے احساس ہی نہیں ہوا۔وہ اس سے مل بھی پائے گی کہ نہیں۔اگر سجیل نے اپنی محبت سے انکار کر دیا تومیں۔۔۔میں تو مر ہی جاؤں گی۔وہ یکدم اداس ہو گئی۔کتنے دن ہو گئے تھے آئے ہوئے بس اک معصوم سی امید کے سہارے کہ شاید وہ خود فون کر لے۔میری محبت کی عزت کرے۔ مجھے مان دے،حوصلہ دے۔مگر اس محاذ پر تو مکمل خاموشی تھی۔مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔پہلے بھی تو میں ہی سب کچھ کر رہی ہوں۔اس نے خود کلامی کی۔
کس سے بات کروں؟ سجیل کتنی ہی دیر سوچتا رہا۔ یہ ذہنی ہیجان بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ڈاکڑ مدیحہ سے بات کرتا ہوں۔وہ ڈاکڑ ہیں ۔ ضرور کچھ اچھا بتائیں گی۔She is very nice lady موبائل میں ان کا نمبر تھا۔وہ خود ہی کبھی کبھی پوچھ لیتی تھیں۔سجیل کی حالت کو جانتی تھیں۔فون میں سے نمبر مل گیاتھا۔دوسری طرف سے فون اٹھا لیا گیا۔سجیل بیٹے کیسے ہو؟ٹھیک ہو نا بالکل!وہ تڑپ سی اٹھیں۔سجیل کو ان کی آواز سن کربڑا سکون ملا۔آنٹی! کچھ دنوں سے ذہنی طور پر دباؤ کا شکار ہوں۔دماغ اپنے آپ سے الجھ جاتا ہے۔سمجھ نہیں آتا کیا کروں۔ سُنو بیٹے کچھ دنوں کے لیے میرے پاس آ جاؤ۔ڈاکڑ وقار بہت عمدہ نیورو سپیشلسٹ ہیں۔ویسے بھی تمہیں گھر کی ضرورت ہے۔بس تم کل ہی آ جاؤ۔انہوں نے پیار سے حکم صادر کیا۔او کے۔میں آ جاتا ہوں۔وہ بچوں کی طرح مان گیا۔شبیر اور بابا برکت کو تو ساتھ ہی جانا تھا۔آفس میں سینئیر کلریکل سٹاف کو مطلوبہ ہدایات دے کر وہ نکل پڑا۔ایبٹ آباد کی فضاؤں نے اسے خوش دلی سے قبول کیا۔مدیحہ آنٹی کی دیکھ بھال، خدمت داری،اک ماں کی مامتا جسے وہ تیس سالوں سے ترس رہا تھا۔ڈاکڑ وقار کو مدیحہ آنٹی ساری سٹوری بتا چکی تھیں۔انہوں نے پوری توجہ اور اطمینان سے چیک اپ کیا۔مختلف ٹیسٹ کیے۔میڈیسن بھی دینی شروع کیں۔سجیل نے سب کچھ بتا دیاحتیٰ کہ صائمہ کے بارے میں بھی کہ وہ اچھی لڑکی ہے۔وہ اسے پسند بھی کرتا ہے مگر ذہن اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔وہ اس کے بارے میں زیادہ سوچے تو تاریک سائے اس کے ذہن کو جکڑلیتے ہیں۔ایسے لگتا ہے جیسے زندگی میں یہ سب کچھ پہلے ہو چکا ہے۔دل اور دماغ کی کشمکش مجھے مضمحل کر دیتی ہے۔ڈاکڑ صاحب سمجھ گئے تھے۔ٹیسٹ رپورٹ سے ایک اور بات سامنے آئی تھی۔اس کے دماغ کا سُن حصہ تباہ ہواتھا، حادثے میں وہ بحال ہو رہا ہے۔کافی حد تک وہ حصہ کام کرنے لگا ہے۔اس کی یاداشت ابھی سایوں کی صورت ہے،جلد ہی شفاف ہو جائے گا سب کچھ مگر کہیں یہ نئے حالات اسے پریشان نہ کر دیں۔اس کا کچھ سوچنا پڑے گا۔بہت دیر تک وہ ڈاکڑ مدیحہ سے اس صورت حال کو ڈسکس کرتے رہے۔ایک بات ہے ڈاکڑ وقار۔اگر اس کی یاداشت واپس آ جائے تو وہ نارمل زندگی گزار سکے گا۔وہ جوان اور سمجھدار ہے۔نئے حالات کو قبول کر لے گا۔ہم سب نے بھی تو کیا ہے نا۔میں ہوں نا۔ ڈاکڑ مدیحہ نے کہا۔ہاں! وہ آپ کا بہتard Reg کرتا ہے۔ مگر ایک بات ہے لالہ نے سجیل کو کسی بھی صدمے یا جسمانی عارضے سے بچانے کے لیے،ہر قسم ے دباؤ سے آزاد رکھنے کے لیے اسے اس کی گزری زندگی سے متعلق کچھ خاص نہیں بتایا۔اﷲ کرے اس کی یاداشت واپس آ جائے تو حادثے کے مناظر وہ خوفناک سانحہ اس کے ذہن پر اثر ڈالے گا۔کیا کروں ؟کیا اسے بتا دوں؟یا ذہنی طور پر اسے تیار کروں۔تاکہ جب وہ اس حادثے کو یاد کرے تو سہہ بھی سکے۔ ڈاکڑوں کی ٹیم سر جوڑ کربیٹھی سوچتی رہی۔اس کا ایک حل ہے ڈاکڑ مدیحہ آپ سجیل کے پاس رہیے۔تاکہ اسے سارے حالات میں گائیڈ کر سکیں۔ابھی تو میں کمشنر صاحب کو فون کرنے لگی ہوں۔ابھی کچھ اور عرصہ اسے اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں۔میں اسے راضی کر لوں گی۔ ٹھیک ہے۔ ڈاکڑ مدیحہ اسے کسی ڈاکڑ کی طرح ٹریٹ کرنے لگی تھیں۔ایک ماں جو ڈاکڑ بھی ہو تو اسے تو ایک چھوٹا سا بچہ ہی سمجھ لیا تھا۔سارا دن اس کے ناز اٹھاتی۔احسان تو چھوٹا بھائی تھا۔وہ تو سب کچھ جانتا تھا۔اس کی بڑی خواہش تھی کہ سجیل بھائی کی یاداشت واپس آ جائے۔ اسے پتہ چل جائے مگر اس ذہنی گمشدگی میں بھی وہ ایک دوسرے سے محبت کے سلسلے میں بندھے تھے۔سجیل جانتا تھا کہ مدیحہ آنٹی اور احسان کا لالہ زبیرالدین سے کتنا گہرا رشتہ تھا۔رشتے صرف خون کے نہیں ہوتے۔رشتے تو دل کے ہوتے ہیں۔اور یہاں تو سارے رشتے ہی دل کے تھے۔احسان تو سجیل میں ارما ن بھائی کو دیکھ کر تسلی دے لیتا۔مگر شہلا آپی کا نعم البدل کہاں سے لائے۔پاپا کہاں سے اس کی فرمائشیں سننے کو آئیں۔وہ چپکے چپکے رو پڑتا۔کتنی مدت بعد کوئی ایسا ملا تھا جو دوست اور بھائی تھا۔
سجیل اپنے کمرے میں اخبار دیکھ رہا تھا۔سجو بھائی آ جاؤں۔ آ جاؤ بھئی۔احسان میرے بچے تمہیں اجازت کی ضرورت نہیں۔سجیل نے اسے بیڈ پراپنے پاس ہی کھینچ لیا۔اس کی اس حرکت نے احسان کے کتنے ہی زخم تازہ کر دےئے تھے۔وہ سجیل کے سینے سے لگ کر رونے لگا۔ سانی۔ میری جان کیا ہوا؟ وہ چپ چاپ سسکیاں لیتا رہا۔سجیل حیران تو تھا مگر وہ جانتا تھا احسان کے دل کے اندر کوئی بڑا غم ہے۔وہ کسی سے کہہ نہیں سکتا۔سجیل نے اسے چھوٹے بچے کی طرح سینے سے بھینچ لیا۔رومال نکالا اور اس کے آنسو صاف کیے۔مائی ڈارلنگ بوائے۔ تم تو بہت بہادر ہو۔سجیل بھی اس کے دُکھ کو محسوس کر رہا تھا۔اچھا بس چپ۔اب بتاؤ کیا چاہیے؟ وہ مسکرایا۔ سجو بھائیI love you وہ جواباََ مسکرایاI love you too چلو باہر چلتے ہیں۔بازار۔آج گفٹ میری طرف سے۔ٹھیک ہے سجو بھائی۔میری پسند۔ 100% تمہاری پسند۔سجو نے کہا۔بادل برسنے کے بعد مطلع صاف تھا۔سجو کو بھی جیسے سکون محسوس ہو رہا تھا۔چلو۔دونوں تیار ہوئے ۔ ڈاکڑ مدیحہ جلدی سے کھڑکی سے ہٹ گئیں۔
وہ تو کافی کا پوچھنے جا رہی تھیں۔جب انہیں اک عجیب سا منظر نظر آیا۔احسان سجیل کے سینے سے لگا ہچکیاں لے لے کر رو رہا تھا۔وہ تڑپ تڑپ گئیں۔ایسے تو وہ کبھی ماں کے گلے بھی نہیں لگا۔نہ ایسے رویا۔ میرا بچہ کتنا صابر ہے۔آنسو اس کے دوپٹے میں جذب ہونے لگے ۔ انہیں یاد آیا وہ ارمان بیٹے کے ساتھ ایسے ہی محبت کرتا تھا۔اس کے اوپر گر جاتا۔فرمائش کرتا ۔ گفٹ لیتا۔مدیحہ کے زخم کھل گئے۔احسان میرا بچہ سجیل میں ارمان کوڈھونڈ رہا تھا۔مدیحہ نے دیکھا۔سجیل نے اسے مایوس نہیں کیا تھا۔اس نے ارمان کی طرح ہی اس کی فرمائشیں سُنیں۔اب وہ اسے ساتھ لے کر جا رہا تھا۔اس کی پسند کا گفٹ لے کر دے گا۔پسند کی چیزیں کھائیں گے۔اکٹھے گھومیں گے۔مدیحہ کو یوں لگا جیسے ارمان آ گیا ہو۔سجیل کے لئے ان کے دل میں محبت کا خانہ اور بڑا ہو گیا۔وہ اس کے لئے سراپامحبت بن گئیں۔اور سجیل کو کیا چاہیے تھا ایک ماں،ایک بھائی،ایک گھر۔بس اس میں شہلا نہیں تھی۔سجیل کے پاس یاداشت نہیں تھی۔وقت سب پر آہستہ آہستہ اپنے نقوش ثبت کرتا ہے۔کس گھر میں خوشی ہوتی ہے ماتم نہیں ہوتا۔وہ کون ہے دُنیا میں جسے غم نہیں ہوتا۔
نائمہ اسلام آباد پہنچ گئی تھی۔شیرازی صاحب کا ڈرائیور اسے ائیر پورٹ سے لے کر آیا تھا۔صائمہ کی لاہور سے فلائٹ لیٹ تھی۔نائمہ نے اپنی تھکن اتاری اور صائمہ کا انتظار کرنے لگی۔انکل آپ سے بات ہو سکتی ہے۔وہ شیرازی صاحب کے کمرے کی طرف آئی۔ہاںآؤ بیٹا۔
صائمہ بھی پہنچنے والی ہے۔آؤ بیٹھو۔کھانا کھا لیا۔جی انکل۔چلو اکٹھے چائے پیتے ہیں۔انکل آپ سے کچھ ضروری بات کرنا تھی۔مجھے ایک بات تو پتہ ہے کہ آپ بصیر پور کے سجیل خان ڈپٹی کمشنر کو جانتے ہیں اور یہ بھی کہ صائمہ اسے پسند کرتی ہے۔انکل ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہاں پسند، ناپسند کی باتیں والدین سے چھپانا بے معنی ہے۔ویسے بھی وہ اکلوتی بیٹی ہے۔اور آپ اس کی خوشی میں خوش ہو جاتے ہیں یہ میں جانتی ہوں۔بس ایک بات کہ سجیل خان سے ملا قات کرنا چاہتی ہوں۔صائمہ کے بارے میں اس کے خیالات کیا ہیں وہ جاننا چاہتی ہوں۔کیونکہ صائمہ اس کے بارے کچھ زیادہ نہیں جانتی۔بس اس سے مل کر اسے دیکھ کراسے پسند کرنے لگی ہے۔جانتا ہوں۔اِسی لئے میں نے اس کے بارے سارا پتہ کروا لیا ہے۔تم ابھی یہ بات صائمہ کو نہ بتانا۔اچھا۔۔۔نائمہ حیرت زدہ رہ گئی۔واقعی انکل! آپ تو صائمہ کے بارے میں پوری طرح سنجیدہ ہیں۔میں خوش ہوں۔ورنہ میں سوچ رہی تھی کہ یہ مسئلہ کیسے حل ہو گا؟
اس کے بارے میں جو سُنا ہے کیا وہ سب سچ ہے۔نہیں کچھ بھی سچ نہیں۔اچھا وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔چائے پینے کے دوران شیرازی ساھب نے مختصراََ سجیل خان کے بارے اسے سب کچھ بتا دیا۔ہوں۔وہ سوچ میں ڈوب گئی۔مطلب وہ ایسا تھا نہیں جیسا وہ اب ہے۔مگر دُکھ اذیت اور غموں سے اس کا بچپن کا ساتھ ہے۔تو جس دن اس کی یاداشت واپس آ جائے گی تو اس کا کیا ردِ عمل ہو گا۔اس نے اپنی مرحومہ منگیتر کے غم میں اگر صائمہ کو ٹھکرا دیا،قبول نہ کیا تو پھر۔وہ سوچ میں ڈوب گئی۔یہی تو میں بھی سوچتا ہوں مگر صائمہ کو کیسے روکوں۔میں نے اس کی پسند کی جگہ شادی کا وعدہ کر رکھا ہے۔اسے سجیل پسند آ گیا ہے۔اب کیا کروں؟اچھا ہوا تم آ گئی ہو۔میں خود آج کل بہت پریشان ہوں۔کیا کروں۔چلو دونوں مل کر کوئی حل ڈھونڈتے ہیں۔تم خود ٹیچر ہو ،پڑھی لکھی ہو،بہن ہو اس کی،کوئی اچھا مشورہ ہی دو گی۔تو پھر۔تو میرا مشورہ یہ ہے کہ صائمہ کو سارے حالات بتا دےئے جائیں۔تاکہ کل کو سجیل خان کا جو بھی رویہ ہو، اس کو سمجھ آ سکے۔اس کے انکار کو وہ اس کی مغروری یا بے وفائی نہ سمجھتی رہے۔اس بارے میں نہ جاننے سے اس کا جاننا بہتر ہے۔مگر ایک خدشہ ہے۔شیرازی صاحب فکر مندی سے بولے۔وہ کہیں یہ ساری باتیں سجیل خان کو نہ بتا دے۔وہ میڈیکلی بڑی حساس پوزیشن میں ہے۔میں نے ایک نیورو سرجن دوست سے اس بارے بات کی تھی۔انہوں نے تو مجھے ڈرا ہی دیا کہ بعض اوقات اس طرح کے حالات مریض کو پاگل بھی کر سکتے ہیں۔اس کے دورے بڑھ سکتے ہیں۔وہ مر بھی سکتا ہے۔یہ اس کے دماغ کا معاملہ ہے۔اس لئے اسے ذہنی طور پر ڈسٹرب نہیں کیا جا سکتا۔یہ تو واقعی خطرناک ہے۔خیر میں پہلے صائمہ کی صورت حال اورحالات کی گہرائی دیکھ لوں۔پھر کچھ کرتی ہوں۔فون کی گھنٹی بجی۔صائمہ بی بی ائیرپورٹ پہنچ گئی تھی۔صادق اسے لینے چلا گیا تھا۔۔شیرازی صاحب بہت دیر تک سوچوں میں ڈوبے رہے۔انہیں تسلی تھی کہ نائمہ سارے حالات کو سنبھال لے گی۔وہ سمجھتے تھے کہ نائمہ حالات کو زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔انہیں کچھ تسلی سی محسوس ہوئی۔بصیر پور سے فون تھا۔ہاں جی۔سجیل خان کے کلرک نصر اﷲ کا فون تھا۔سر جی۔سجیل صاحب پندرہ دن کی چھٹی پرایبٹ آباد اپنی آنٹی کے پاس چلے گئے ہیں۔ان کی آنٹی ڈاکڑ مدیحہ کا فون آیا تھا۔سجیل صاحب کی ناسازی طبع کے باعث ان کی چھٹی کے بارے کمشنر آفس میں اطلاع آئی تھی۔وہ خود بھی سنئیر سٹاف کوبریف کر کے گئے تھے سب کچھ۔پہلی مرتبہ اتنے دنوں کے لئے گئے ہیں۔ویسے بھی آج کل ان کی طبعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی تھی۔اچھا! شیرازی صاھب تفصیل سُن کر حیران ہوئے۔ان کی آنٹی ڈاکڑمدیحہ کا فون نمبر مل سکتا ہے۔میں کمشنر آفس میں پتہ کروں گا۔ویسے سر،سجیل صاحب کا نمبر بھی ہے ہمارے پاس۔وہ بھی دے دو۔ان کی ڈاکڑ آنٹی کا نمبر بھی چاہیے۔جی سر۔میں کل دے سکوں گا۔ٹھیک ہے ۔شیرازی صاحب نے فون بند کیاتو نئی پریشانی میں گھِر گئے۔سجیل کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ڈاکڑ مدیحہ،شہلا شہزاد کی والدہ ہیں۔وہ شہلا جو سجیل کی منگیتر تھی۔ڈاکڑ مدیحہ اسے اپنے بیٹے کی طرح ہی چاہتی ہیں۔ویسے تو اچھا ہے۔ شیرازی صاحب نے سوچا۔پھر بھی پتہ تو کرنا چاہیے۔چلو نمبر ملے گا تو ڈاکڑ مدیحہ سے پوچھوں گا۔وہ سمجھ گئے تھے کہ کل کلاں کو خدا خیر کرے اگر صائمہ کی قسمت میں سجیل لکھا ہے تو پھر رشتے کی بات توڈاکڑ مدیحہ سے ہی کرنی پڑے گی۔وہ دُکھ سے سوچنے لگے۔وقت بھی کیسے کیسے رنگ دکھاتا ہے۔جہاں انہیں داماد بنانا تھا وہاں انہیں بہو لانا پڑے گی۔افسوسناک صورت حال ہے۔شیرازی صاحب سوچتے رہے۔صائمہ پہنچ گئی تھی۔کافی سنجیدہ تھی۔
ھیلو! آ جاؤں۔نائمہ نے دروازہ ناک کیا۔آ جاؤ۔وہ ہلکے پھلکے سادہ سے نیلے رنگ کے سوٹ میں بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی ہوئی تھی۔صورت حال کچھ بہتر نہیں لگتی محترمہ۔نائمہ نے سوالیہ انداز سے پوچھا۔صائمہ کتنی ہی دیر خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔اداس کیوں ہو گئی ہو۔اب کیا ہو ا ہے؟نائمہ تم سے فون کرنے کے بعد میں نے سجیل خان کو فون کیا تھا۔پھر۔نمی بولی۔وہ بیمار ہے۔ایبٹ آباد میں ہے اپنی آنٹی کے پاس۔ وہ ڈاکڑ ہیں۔اس نے خود بتایا۔ نہیں کسی ملازم نے فون اٹینڈ کیا تھا۔وہ پرسوچ لہجے میں بولی۔کوئی بات نہیں ۔بندہ بیمار بھی ہو جاتا ہے کبھی۔انسان ہے۔جسم ایک مشین ہے اور۔وہ ایک سجیل خان ہے۔صائمہ نے بات کاٹ دی۔وہ کسی پتھر سے تراشا گیا ہے۔بیمار نہیں ہو سکتا۔صائمہ روہانسی ہوگئی۔تم بہت اثر لے رہی ہو۔ہمیشہ تم ضرورت سے زیادہ اثر لے لیتی ہو اور خود بیمار ہو جاتی ہو۔کبھی والدین کا خیال بھی کیا کرو۔تمہاری جان سے ان کی جان ہے۔نائمہ نے ذرا سخت لہجہ اختیار کیا۔صائمہ بے بسی سے رو پڑی۔محبت کیوں ہوئی؟ کوئی اتنا عزیز از جان کیسے ہو جاتا ہے کہ اپنی ہستی اس پر فنا کر دینے کو دل کرتا ہے۔میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔بابا کو کیا جواب دوں کیا کر رہی ہوں میں۔وہ باقاعدہ رونے لگی۔نائمہ نے جلدی سے اسے گلے سے لگا لیا۔تمہیں کبھی کسی کی بے وفائی کی ٹھوکر نہ لگے۔ہمیشہ خوش رہو۔اور دیکھو ، دیکھو میری طرف۔اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھا۔وقت پہ ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔کب کون سا رنگ دکھائے پتہ نہیں چلتا۔پلیز تم خود کو سنبھالو۔محبت کرنے کا مطلب مر جانا ہرگز نہیں ہے۔یہ تو ایک رویہ ہے جو دلوں کو گداز کرتا ہے،نرم بناتا ہے،حساس بناتا ہے۔تاکہ ہم زیادہ بہتر طریقے سے انسانوں کو سمجھ سکیں، انہیں پرکھ سکیں۔جان سکیں اور پھر کسی دھوکے سے بھی بچ سکیں۔تم سمجھنے کی کوشش کرو میری گڑیا۔ایسے سر پر سوار کر لو گی تو یہ سانس بھی نہیں لینے دے گی۔آنکھوں میں محبوب کی شبہہ کا بت بنا کر اسے دل بھر کر دیکھو،پیار کرو، چومو،سینے سے لگاؤ۔اس کے ساتھ دور دراز جزیروں میں تنہا ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھومو۔گھنٹوں کسی ساحل پر بیٹھ کر لہروں کوگنو۔ موجوں سے کھیلو۔ریت کے گھروندے بناؤ۔انہیں عشق کی سیپیوں سے سجاؤ،گھونگے پکڑو،بھاگو دوڑو۔سمندر کی تیز ٹھنڈی ہوائیں تمہاری زلفوں کو اڑائیں۔ہنسو خوب ہنسو۔تصور میں اس کے ساتھ جتنا چاہے وقت گزارو۔مگر حقیقت کی دنیا کی تلخی اپنی جگہ۔مائی ڈئیر۔ ماں باپ کی اکلوتی اولاد جس میں ان کی زندگی بستی ہے۔تمہیں کانٹا چھبے تو درد ان کے دلوں میں ہوتا ہے۔تمہیں نیند نہ آئے ت ساری رات تمہارے پاس بیٹھے گذار دیتے ہیں۔تم کھانا چھوڑ دو تو اک لقمہ بھی ان کے لئے حرام ہو جاتا ہے۔تم جو چاہو وہ ہوتا ہے۔تم جو چاہو تمہیں ملتا ہے۔تو پھر تم اتنی خود غرض کیسے ہو سکتی ہوکہ اپنی صحت خراب کر کے انہیں دُکھ دو۔اذیت کی اگنی پر ڈالے رکھو۔اور تم شائد یہ جانتی نہیں کہ انکل شیرازی سب کچھ جانتے ہیں۔اور وہ سجیل خان کے خاندان کی کھوج میں ہیں۔اس کا اتہ پتہ تلاش کر رہے ہیں۔کس کے لئے؟ صرف تمہارے لئے۔کہ وہ تمہیں دُکھ میں نہیں دیکھ سکتے۔ذرا محبت کی عینک سے دوسرے شیشے میں دیکھو،والدین کی محبت کہیں ہے۔ان کی قربانی کہیں ہے۔نائمہ کتنی ہی دیر تقریر کرتی رہی۔صائمہ سر جھکائے شرمندہ سی بیٹھی تھی۔واقعی اس نے تو ایساسوچا ہی نہیں تھا۔ حقیقت کو چھپا کر ہم کیسے زندگی سے خوشیاں اور رنگ کشید کر سکتے ہیں۔وہ کتنی ہی دیر سوچتی رہی۔وہ واقعی ضرورت سے زیادہ انوالو ہو گئی تھی۔I am sorry صائمہ نظریں جھکائے ہوئے بولی۔یہ وقتی جذبہ ہے۔محبت کو تم چاہ کر بھی جدا نہیں کر سکتیں۔لیکن عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہر کام میں اعتدال سے کام لیا جائے۔ٹھیک ہے۔تم ٹھیک کہتی ہو۔اب مجھے وہ سٹوری سناؤ جب تم بصیر پور کے جنگل میں اسے کھوجنے گئی تھی۔ من وعن سنانا۔ایک لفظ بھی کم یا زیادہ نہیں۔نائمہ نے کہا۔صائمہ ہنس پڑی۔اس کی آنکھوں میں اک چمک سی آ گئی۔اب وہ بات کرتے ہوئے کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔یہ دل و دماغ کی کونسلنگ کتنی ضروری ہوتی ہے۔وہ بھی تم جیسی ٹیچر کے ہاتھوں۔ہاہاہا۔دونوں ہنس پڑیں۔
آنٹی کافی دن ہو گئے ہیں۔اب اجازت دے دیں۔کافی تنگ کر لیا۔بہت دنوں سے غیر حاضر ہوں۔ویسے بھی اب میری طبیعت ٹھیک ہے۔میڈیسن لے رہا ہوں۔بے فکر رہیں۔مائیں ،بیٹوں کی آمد سے تنگ نہیں ،خوش ہوتی ہیں اور تم ہماری خوشی ہو۔آپ کی بے پناہ محبت ہے آنٹی۔آنٹی نہیں ۔ماما۔ کہا کرو۔مجھے اچھا لگے گا۔تم میرے ارمان ہو۔ارمان ۔یکدم اک سایہ سے جھلک دکھا کرگذرا۔مجھے ایسے کیوں لگتا ہے ۔جیسے میں اسے جانتا ہوں۔وہ دل میں سوچنے لگا۔کوئی رشتہ ہے میرا اس سے۔وہ کھو سا گیا۔اتنے دنوں میں وہ شدت سے محسوس کرنے لگا تھا کہ ان لوگوں سے میرا کوئی رشتہ ضرور ہے۔ٹھیک ہے ماما۔ابھی تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ۔اگر تم اجازت دو تو ہم کچھ عرصہ تمہارے پاس بصیر پور آ جائیں جب مجھے تسلی ہو جائے گی میں واپس آ جاؤں گی۔آپ کو تکلیف ہو گی۔ارے ماں کو بھلا بیٹے کے گھر میں کیا تکلیف ہو گی۔احسان بھی خوش ہو جائے گا۔ٹھیک ہے۔تیاری کریں ۔تقریباََ پندرہ دن کے بعد سجیل آفس آیا تھا۔وہ ایک بدلا ہوا شخص لگ رہا تھا۔مزاج پہلے سے بہتر،طبیعت بھی فریش۔ہر وقت کی گہری سنجیدگی میں اب کچھ تبدیلی تھی۔جب وہ آفس آیا تو علی احمد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کراس نے اس کا حال پوچھا تو وہ گرتے گرتے بچا۔سنےئر سٹاف بھی حیران تھا۔بہرحال یہ ایک اچھی تبدیلی تھی۔سارا دن کے ٹینس ماحول میں کچھ کمی ہوئی تھی۔آج ایک نئی بات پتہ چلی ہے۔وہ کیا؟سینئر کلرک نصر اﷲنے پوچھا۔صاحب کی ایک آنٹی اور اس کا بیٹا بھی ساتھ آئے ہیں۔وقت کا پہیہ تیزی سے گھومنے لگا تھا۔ڈاکڑ مدیحہ کو بڑی اچھی مصروفیت مل گئی تھی۔۔وہ بصیر پور کے بازار کو گھومتے گھومتے وہاں ہسپتال اور کلینک ڈھونڈتی رہیں تاکہ اپنے لئے کوئی مصروفیت ڈھونڈ لیں۔وہ جاب کرنے والی خاتون تھیں۔سارا دن گھر میں بیٹھ کر وقت ضائع کرنا انہیں گوارہ نہیں تھا۔انہیں خواتین کا ایک ہیلتھ سینٹر نظر آ ہی گیا۔اتنی اچھی حالت تو نہ تھی۔بس گزارہ ہی تھا۔ایک ڈاکڑ صاحبہ اپنی مرضی سے آتی اور جاتی تھیں۔انہوں نے اپنا تعارف کروایاتو مقامی ڈاکڑ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ایک بڑی ڈاکڑ اس کے سامنے تھی۔انہوں نے اپنا تعارف ڈپٹی کمشنر کی آنٹی کم والدہ کے طور پر کروایا۔تو وہ اور سیدھی ہو گئی۔ڈر بھی گئی۔ڈاکڑ مدیحہ نے فوراََ اس بات کو محسوس کر لیا۔آپ گھبرائیں نہیں ۔ڈاکڑ مدیحہ نے تسلی دی۔میں چند دنوں کے لئے بیٹے کے پاس آئی ہوں۔سوچا فارغ ہوں آپ کی ہیلپ کر دوں۔یہ۔یہ تو بہت اچھی بات ہے۔آپ اتنی بڑی ڈاکڑ ہیں اور میرے پاس کافی پیچیدہ کیس بھی ہیں۔ ڈاکڑ مدیحہ نے کہا اگر آپ چاہیں تو میں چیک کر سکتی ہوں۔ایک اور بات یہ چیک اپ بالکل مفت ہوں گے۔ارے یہ تو اور اچھی بات ہے۔وہ کھل اٹھی۔یوں یہ سلسلہ چل نکلااور ڈاکڑ مدیحہ نے یہاں رہنے کا جواز ڈھونڈ لیا۔شہر کی خواتین اور ارد گرد جب لوگوں کولیڈی ڈاکڑ کا علم ہوا تو وہاں مصروفیت بڑھ گئی۔حتیٰ کہ اس ہیلتھ سینٹر کے علاوہ شام کے اوقات کے لئے باقاعدہ ایک عمارت لے کرکلینک بنانا پڑا۔جہاں رات گئے تک وہ مصروف رہتی۔اب تو وہ علاقے میں کافی معروف بھی ہو گئیں۔ڈپٹی کمشنر کے حوالے سے تو بڑے بڑے لوگ ان کی عزت کرتے اور ان کی دعوتیں کرتے۔اور وہ ہمیشہ معذرت کرتیں رہتیں۔سجیل بھی خوش تھا گھر میں ایک رونق تھی۔کوئی حال پوچھنے والا تھا۔مگر پھر بھی ذہن پر اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ اب توکئی مرتبہ بیٹھے بیٹھے دماغ بالکل صاف ہو جاتا۔وہ خود کو خلاؤں میں محسوس کرتا۔تقریباََ دو ماہ ہو گئے تھے آئے ہوئے۔احسان تو اپنے کالج کی وجہ سے نانا کے پاس واپس جا چکا تھا۔مگر ڈاکڑ صاحبہ کے لئے یہاں سے جانا مشکل ہو گیا تھا۔ جب تک کہ کوئی اور اچھی ڈاکڑ نہ آ جائے جس کے لئے کوشش ہو رہی تھی۔ایک دن مدیحہ نے دیکھا۔وہ آفس کے لئے تیا رہوا تھا۔پھر صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ماتھے کو مل رہاتھا۔جیسے سر درد ہو۔سجیل بیٹا۔آپکی طبیعت ٹھیک نہیں۔لیٹ جائیں ۔وہ جلدی سے سٹیتھ لے آئی۔سارے چیک اپ کے بعدانہوں نے بتایا۔ آپکے د ل کی دھڑکن کچھ تیز ہے۔بلڈ پریشر بڑھا ہوا ہے۔بابا برکت پانی لائیں۔ڈاکڑ نے جلدی سے دوائی نکال کر اسے دی۔ٹیک لگا لو کچھ دیر۔کیسا محسوس کر رہے ہو؟بیٹھے بیٹھے ایک چھباکا سا ہوتا ہے ر وشنی کا۔کچھ تصویریں آتی ہیں پھر تاریکی چھا جاتی ہے۔پھر کچھ دیر بعد ٹھیک ہو جاتا ہوں۔ڈاکڑ مدیحہ نے ایک فیصلہ کیا۔اس کے بارے اسے بتانے کا۔تاکہ جب یکدم نئی تصویر اور نیا تصوراس کے سامنے آ جائے تو وہ ان مناظر کو قبول کر سکے۔آج میں تمہیں کچھ بتاؤں گی۔کیا؟ وہ حیران ہو کر پوچھنے لگا۔ تمہارے بارے میں ۔مدیحہ نے اداسی سے اسے دیکھا۔میرے بارے میں۔ہاں۔تم اتنا تو جانتے ہوکہ تمہاری یاداشت کھو چکی ہے۔ڈاکڑ یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہارے سر کا وہ خراب حصہ اب ٹھیک ہو رہا ہے۔بحال ہو رہا ہے۔تمہاری یاداشت کسی بھی وقت واپس آ سکتی ہے۔یہ کوئی ایسی حیرت کی بات نہیں۔دنیا میں اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے۔مگر تمہارے لئے اس لئے ضروری ہے کہ جس حادثے میں جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا وہ کوئی آسان بات نہیں۔وہ بہت بڑا حادثہ تھا۔تمہیں اپنی زندگی میں بہت بھیانک حادثوں سے گزرنا پڑا ہے۔مگر تم بہت دلیر اور بہادر انسان ہو۔اس لئے سہہ بھی گئے۔بچ بھی گئے۔ماما مجھے شروع سے سب کچھ بتائیے آپ جو کچھ میرے بارے میں جانتی ہیں۔لالہ نے حادثے کے بعد تمہیں کچھ بھی بتانے سے منع کیا تھا صرف اس لئے کہ تمہارے ذہین پر بوجھ نہ پڑے۔وہ کوئی اور حادثہ افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔اور اب تمہیں اس لئے بتانا ضروری ہے کہ تمہاری یاداشت پلٹ آئی توتمہاری آنکھ ایک بھیانک حادثے میں کھلے گی۔ میں چاہتی ہوں تم خود کو سنبھال سکو۔اس حادثے پر مضبوط رہو۔اور تمہاری آئندہ زندگی پرکوئی اثر نہ پڑے۔تم ان حالات کو نئے سرے سے سہہ سکو۔میں بابا سے بھی کہتا تھا کہ مجھے کچھ اور بتائیے مگر وہ چپ ہو جاتے۔اکثر ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے تھے۔اور آپ کی آنکھوں میں بھی۔احسان بھی میرے گلے لگ کر بہت رویا۔میں سمجھ سکتا ہوں کہ بات بہت بڑی ہو گی۔بابا برکت۔ صاحب کے آفس فون کر کے بتائیں کہ صاحب کی طبیعت بہتر نہیں۔دیر سے آئیں گے۔جی بیگم صاحبہ۔اور پھر سجیل کی زندگی کی ساری کہانی ا س کے ماں باپ کی المناک موت سے لے کراس بھیانک حادثے تک داکڑ مدیحہ نے اسے سُنا دی۔آنکھوں میںآنسوؤں کی جھڑی لگی تھی۔سجیل بے دم سا صوفے پر گر پڑا۔شبیر جلدی آؤ۔جلدی آؤ۔مدیحہ نے پکارا۔صاحب کو جلدی سے بیڈ پرلٹاؤ اور میرا ایمرجنسی باکس لاؤ۔ڈاکڑ مدیحہ نے اسے نیند کا انجکشن دے کر ڈرپ لگا دی اور اسے سلا دیا۔ خود پاس بیٹھ کر بلڈ پریشر اور ہارٹ بیٹ مانیٹر کرتی رہی۔صاحب ٹھیک تو ہیں نا۔شبیر پریشان ہو گیا۔ہاں ٹھیک ہیں سو کر اٹھیں گے تو فریش ہوں گے ان کے آفس فون کروآج کی ساری اپائنٹمنٹس کینسل کر دیں۔اس نے خود بھی ڈاکڑ زہرہ کو فون کر دیا کہ وہ شائد نہ آسکے۔
اچانک سجیل کے فون کی بیل بجی۔ھیلو۔مدیحہ نے فون اٹھایا۔کون؟ مدیحہ نے پوچھا۔جی میں ضمیر شیرازی۔شیرازی صاحب نے اپنا تعارف کروایا۔سجیل صاحب کا حال پوچھنا تھا۔پچھلے دنوں وہ چھٹیوں پر رہے۔جی۔جی۔وہ میرے پاس ایبٹ آباد میں تھے۔میں ان کی آنٹی بھی ہوں اور ماما بھی۔ان کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ان کے پاس ہوں۔اک حادثے میں انکے سر پر چوٹ آ گئی تھی۔وہ پریشان کرتی ہے۔مگر وہ جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔مدیحہ نے فون پر بتایا۔جی جی۔انشااﷲ۔اﷲ نے چاہا تو وہ جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔شیرازی صاحب نے دُعا کی۔میں نے سُنا آپ ہسپتال میں اور اپنے کلینک پر بہت کام کر رہی ہیں۔آپ پسند کریں تو سول ہسپتال میں باقاعدہ آپ کا اپائنٹمنٹ کروا دوں۔آپ جیسے اچھے ڈاکڑ کی ہمیں ضرورت ہے۔مجھے ابھی تو ضرورت نہیں۔اس پہ سوچوں گی۔ویسے بھی کام تو ہو رہا ہے۔دوسرا میرا اہم کام بیٹے کی دیکھ بھال کرنا ہے۔چاہتی ہوں وہ ٹھیک ہو جائے تو اس کی شادی کر دوں۔توبے فکر ہو جاؤں گی۔پھر سوچوں گی۔بیٹا واپس لاہور چلا گیا تو میں واپس ایبٹ آباد چلی جاؤں گی۔ضمیر صاحب یہ ساری باتیں زندگی کے ساتھ ہیں۔جی جی میڈم یہ بات تو ہے۔میں جلد ہی بصیر پور آنے والا ہوں پھر سجیل صاحب سے اور آپ سے ملوں گا۔کچھ اور باتیں بھی کرنی ہیں۔ضمیر شیرازی صاحب نے معنی خیز لہجے میں کہا۔جی جی ضرور۔مدیحہ نے کہہ تو دیا مگر ان کی آخری بات پر الجھ سی گئی۔خیر دیکھا جائے گا۔فون بند کر کے وہ کچن میں گئیں اوربابا برکت کو صاحب کے لئے سوپ بنانے کا کہا۔
ڈاکڑ صاحبہ ! میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔اس کی خواہش تھی کہ بیگم صاحبہ کو صائمہ کے بارے بتا دے۔وہ یقیناًکچھ کر سکتی ہیں۔اتنے دنوں میں اس نے ڈاکڑ صاحبہ کی سجیل کے لئے محبت کوبہت محسوس کیا تھا۔وہ ان کی آمد سے خوش بھی بہت تھا۔اتنا خوبصورت کاٹج اب گھر لگتا تھا۔ہاں ہاں بتاؤ۔ وہ ہمارے علاقے کے وزیر صاحب ہیں۔ ضمیر شیرازی۔جی۔یہ ان کا آبائی علاقہ ہے۔وہ یہیں سے منتخب ہوتے ہیں۔اچھا۔ان کی ایک ہی بیٹی ہے۔بڑی پڑھی لکھی،خوبصورت ہے ماشااﷲ۔اچھا۔وہ حیرت سے بولیں۔تو۔ وہ صاحب کو پسند کرتی ہیں۔سجیل صاحب کو۔ مدیحہ نے پوچھا۔جی ڈاکڑ صاحب۔وہ دو تین دفعہ صاحب سے مل بھی چکی ہیں۔ایک دن تو جنگل سے صاحب انہیں گھر بھی لے آئے تھے۔ اچھا۔وہ اور حیران ہوئیں۔پھر کیا ہوا؟اب کہ ان کی دلچسپی کافی بڑھ گئی تھی۔لیکن صاحب انہیں پسند نہیں کرتے۔کیا؟ وہ پھر سے حیران ہوئیں۔وہ لڑکی صاحب کو پسند کرتی ہے۔جنگل سے کیسے لائے؟۔وہ جی سجیل صاحب سیر کر رہے تھے تو وہ راستے میں انہیں اکیلی مل گئیں۔وہ صاحب کو ملنے اکیلی ہی جنگل آ گئی تھیں۔صاحب ان کی حفاطت کی غرض سے انہیں گھر لائے۔مگر صاحب کی اپنی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔اس لئے کوئی بات نہیں کی۔اچھا ۔تو شیرازی صاحب سب کچھ جانتے ہیں۔ساری بات مدیحہ کی سمجھ میں آ گئی تھی۔ہوں۔وہ کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔توشیرازی صاحب کو یہ بات کرنی ہے۔یکدم جیسے دُکھ کی ایک تیز کٹار ان کے دل میں اتری۔انہیں شہلا یاد آئی۔یہ حادثہ نہ ہواہوتاتو آج ان کی زندگی کتنی مختلف ہوتی۔اب انہیں کسی اور لڑکی کو لانا ہو گا اور بہو بنانا ہو گا۔شہلا کی جگہ دینی ہو گی۔وہ خود کو سنبھالتی ہوئی اندر چلی گئیں۔مجھے یہ کام بھی کرنا ہو گا۔ارمان کے لئے بھی تو کرنا تھا۔ارمان سمجھ کر ہی کروں گی۔یا اﷲ سجیل کو اس عذاب سے نکال لے۔ اس کے دُکھ دور کر دے۔وہ ماضی کے جھروکوں میں جھانک رہی تھی۔کتنی بے فکری تھی۔کتنا سکون تھا۔جیسے کچھ ہو گا ہی نہیں۔اور جب ہوا تو سب کچھ برباد ہو گیا۔
سجیل چار گھنٹے سویا رہا۔وہ اٹھ گیا تھا۔شدید اذیت کا شکار تھا۔سرخ آنکھیں، پژمردہ چہرہ،عمیق اداسی،وجود پر ویرانی کی تہہ تھی۔بولتا تو وہ پہلے بھی کم تھا۔مگر اب تو اسے چپ لگ گئی تھی۔ ڈاکڑ مدیحہ پانی لئے کھڑی تھیں۔پیو۔اس نے چپ چاپ پانی پی لیا۔فضاؤں میں چاروں اوراذیتوں کے در کھلے ہوئے تھے۔آؤ سوپ پیتے ہیں۔بابا برکت سوپ رکھ گیا تھا۔دل تو نہیں کرے گامگر صحت کے لئے اور پھر یہ میڈیسن بھی کھانی ہے۔ ماما آپ اسی لئے میرے ساتھ آئی ہیں نا۔جب تک تم بالکل ٹھیک نہیں ہو جاتے۔ماما آپ نے اتنا کچھ سہا میری وجہ سے۔ تم نے بھی بہت کچھ سہا ہے میرے بچے۔بس خود کو مضبوط کرو کہ نئے حالات اور نئے مناظر کا سامنا کر سکو۔جی ماما کوشش تو کر رہا ہوں۔ آپ ساتھ ہیں تو مجھے کوئی فکر نہیں۔میں جانتا ہوں آپ مجھے سنبھال لیں گے جیسے چار سال کے ننھے اذان ضمیر کو سنبھالا تھا۔آنسو پلکوں پر لرز رہے تھے۔جیسے گرنے سے گریزاں ہوں۔وہ اپنا وقار نہیں کھونا چاہتے تھے۔میں اس لئے سب کچھ سہہ گئی کہ میں ایک ڈاکڑ تھی اور اس لئے بھی کہ جو ڈاکڑ شہزاد نے تمہارے لئے کیا وہ اور کوئی کر ہی نہیں سکتا تھا۔مجھے فخر ہے اپنے شوہر پر۔اپنے بچوں کو دیکھنے سے پہلے۔شاید میں ایسا سوچتی ہوں۔وہ ڈاکڑ تھے۔انہیں پتہ تھا کہ شہلا اور ارمان اب حیات نہیں رہے۔مگر تم بچ سکتے ہوتو کیوں نہ اک آخری کوشش کی جائے۔میں سوچ کر لرز جاتی ہوں۔کہ ان کے بازو،سینے اور پیٹ میں کتنی ہی گولیاں اتریں تھیں۔مگر جس اذیت سے انہوں نے اپنا شرٹ اتارا ہو گا۔تمہیں گاڑی سے نیچے کھینچا۔تمہارے سر کے بہتے خون کو روکنے کے لئے اپنا قمیض باندھا۔تمہیں اس رخ لٹایا کہ خون رسنا بند ہو جائے۔ یہ سوچ کر ہی میرا دل پھٹ جاتا ہے کیسے اتنی جرات،دلیری اور حوصلہ ان کے اندر آیا۔وہ اپنی زندگی تمہیں دے گئے۔تم تو مجھے محبوب رہو گے نا۔سجیل کا سر اپنی گود میں رکھے وہ کتنی ہی دیر آنسو بہاتی رہیں۔تمہیں جرات اور حوصلے سے جینا ہے۔ماما میں وعدہ کرتا ہوں اس کے بعد کوئی غم کوئی دکھ آپکے قریب نہیں پھٹکنے دوں گا۔مدیحہ کے ہاتھ تھامے وہ عہد کر رہا تھا۔میں اب ٹھیک ہوں ۔چلیں جنگل چلتے ہیں واک کے لئے۔۔ٹھیک ہے۔جیسے تمہاری خوشی۔وہ چلتے رہے۔ڈاکڑ اسے سمجھاتی رہی اور وہ سمجھتا رہا۔
دن گذرتا ہے تو پھر شام چلی آتی ہے
شام جاتی ہے تو پھر رات کا پہرہ گہرا
رات کا پہرہ میرے خواب چرا لیتا ہے
مجھکو دنیا سے چھپا دیتا ہے
سوچ کی تتلیاں اڑتی ہیں مگر پوروں پر اب فقط رنگ ہیں
اور رنگ بھی پھیکے ہوتے ہوئے،میرے مقدر کو سیاہ کرتے ہوئے
لوگ ایسے بھی جیا کرتے ہیں،ارے احسان فراموش
تم محبت کو مقدر تو بنا کر دیکھو،رنگ ہی رنگ ہیں
خوشبو ہے نرالی اس کی،پھول ہی پھول نظر آتے ہیں پھر
حیطہ دل میں اپنے اشکوں سے ذرا پرتیں اٹھا کر دیکھو
اک مسکان چلی آتی ہے دہلیز تلک
روشنی بڑھتی چلی جاتی ہے دیواروں پہ
بقیہ نور بنا بیٹھا ہے،ہر کونہ گھر کا،کھڑکیا ں تال پہ تال
جھومتے گاتے پردے،کیسی سرگوشی ہوا کرتی پھرے کانوں میں
رنج کا مسکن ہے یہ دل، رنج اتارے اپنے
کوئی آئے گا ذرا نین سنوارے اپنے
گوند ھ کر کلیاں حسیں زلفوں میں
وہ تو اک باغ لئے ساتھ چلی آتی ہے
ساتھ خوشبو لئے اپنی مدھر سانسوں کی
دن گذرتا ہے تو پھر شام چلی آ تی ہے
دل کے روزن میں سجائے ہوئے خوابوں کا جہاں
پیار کاساز لئے رات چلی آتی ہے
گیٹ کی بیل بج رہی تھی۔شبیر کدھر ہے؟ آ گیا بیگم صاحب۔ذرا واش روم تک گیا تھا۔سوری، سوری۔ اس نے بھاگ کر گیٹ کھولا۔سیاہ لینڈ کروزر کے پیچھے بھی دو گاڑیاں تھیں۔وہ جلدی سے آگے بڑھا۔ضمیر شیرازی صاحب آ ئے ہیں۔ٹھیک ہے۔انہیں احترام سے ڈرائینگ روم میں بٹھائیے۔سجیل خان تیار ہو رہے ہیں۔میں ابھی آتی ہوں۔بابا برکت سے کہیے، چائے ناشتے کا بندوبست کریں۔ جی میڈم۔
ڈاکڑ مدیحہ عام لباس میں تھیں۔انہیں علم نہیں تھا کہ یوں مہمان چلے آئیں گے۔وہ جلدی سے ڈریس تبدیل کر کے فریش ہو کر آئیں۔تو سجیل خان انہیں ر سیو کر چکے تھے۔آداب! ڈاکڑ مدیحہ اندر آئیں تو ضمیر صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔اسلام علیکم ! میڈم! آپ کیسی ہیں؟ جی میں ٹھیک ہوں۔بہت شکریہ۔میں کل آیا تھا۔کام تھا رات دیر تک۔مصروفیت رہی تو وقت نہیں نکال پایا۔ابھی واپس جا رہا تھا مگر آپ سے ملنا چاہتا تھا۔صبح صبح زحمت دی۔معذرت۔ضمیر صاحب شرمندگی کا اظہار کر رہے تھے۔کوئی بات نہیں شیرازی صاحب۔ہمیں خوشی ہوئی۔سجیل خان خاموش تھے۔ناشتہ لگ گیا تھا۔ضمیر صاحب سجیل خان سے زیادہ ڈاکڑ مدیحہ سے گفتگو کرتے رہے۔
آپ جب بھی اسلام آباد آئیں،میرے گھر آنا نہیں بھولنا اور یہ دعوت خاص ہے۔جی اﷲ نے چاہے تو ضرور۔میری بیٹی آپ سے مل کر بہت خوش ہو گی۔اسے بھی سوشل ورک کا بہت شوق ہے۔میں نے کبھی پابندی نہیں لگائی۔سجیل اندر کی بات سمجھ گیا تھا اور یہ بھی کہ ان کے آنے کا مقصد کیا تھا۔جی۔ مجھے خوشی ہو گی۔اگلی مرتبہ میں بصیر پور آیا تو اپنی حویلی میں آپکی دعوت کروں گا۔جی شکریہ۔ڈاکڑ مدیحہ نے ان کا شکریہ ادا کیا۔جی آپ کی بیٹی سے ضرور ملنا چاہوں گی۔ڈاکڑ مدیحہ نے کہا تو ضمیر صاحب کھل اٹھے۔جی۔جی۔میری خوشی۔
وزیر صاحب روانہ ہو گئے تھے۔یہ خالصتاََ ایک ذاتی نوعیت کی ملاقات تھی مگر اس چھوٹے شہر میں بات پھیلتے دیر نہیں لگتی۔کسی بات کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آیا تھا مگر ہوائی چڑیا بات کو لے اڑی۔وزیر آب پاشی کی بیٹی صائمہ شیرازی کا رشتہ طے ہو گیا ہے۔وزیر موصوف کی ڈپٹی کمشنر صاحب کے گھر آمد،ان کی والدہ سے معاملات طے پا گئے ہیں۔اخبار نے یہ سنسنی خیز کہانی بغیر کسی تصدیق کے چھاپ دی۔سجیل کے آفس تک یہ خبر پہنچ گئی تھی۔پتہ چلا آفس میں مٹھائی تقسیم ہو چکی ہے۔کمشنر صاحب کی طرف سے مبارکباد بھی آ گئی۔اور یہ فرمائش بھی کہ شادی میں ہمیں بلانا نہ بھولئیے گا۔عمران صاحب،نصراﷲ صاحب کو بلائیے۔سجیل خان نے آفس بوائے سے کہا۔جی سرMay I come in sir
Yes یہ کیا ہو رہا ہے آفس میں؟سجیل سنجیدگی سے بولا۔میری منگنی کی خبریں۔کیا ہے سب؟وہ غصے میں تھا۔سر۔۔سر۔معافی چاہتے ہیں۔اخبار میںیہ خبرچھپی تھی۔کمشنر آفس سے مبارکباد اور مٹھائی بھی آئی ۔یہ اخبار کے لوگ بغیر کسی تصدیق کے خبریں چھاپتے ہیں۔کوئی ایسی بات نہیں ہوئی۔ضمیرصاحب میری ماما ڈاکڑ مدیحہ سے ملنے آئے تھے اور بس۔کچھ ہوا تو میں خود مٹھائی لے آوٗں گا۔ابھی یہ سارا تماشہ بند کریں اور آج کی ساری فائلیں لے آئیں۔۔جی ۔سی۔سوری سر۔نصر اﷲ نے سب کوبتا دیا کہ ابھی کچھ نہیں ہوا۔سجیل باہر آیا۔سب کے چہرے اترے ہوئے تھے۔طارق صاحب سے کہیے اخبار میں تردید چھپوا دیں اس خبر کی۔جی سر۔
ڈاکڑ مدیحہ نے ضمیر صاحب کو فون کر دیا۔آپ جانتے ہیں سجیل کی ذہنی حالت کو۔وہ ایسی کوئی خبر،کوئی بات افورڈ نہیں کرتا۔تو پھر ایسا کیوں؟ اخبار کے اس رپورٹرنے سجیل کو بڑا ذہنی جھٹکا دیا ہے۔اس کی زندگی پراثراندازہو سکتیں ہیں ایسی باتیں۔سجیل کی قسمت میں صائمہ ہے تو ہم ضرور اس پربات کریں گے۔مگراس وقت جب سجیل ذہنی طورپراس رشتے کوقبول کرے گا۔میں ابھی اس سے اس بارے بات نہیں کرسکتی۔وہ ذہنی جھٹکوں کی زد میں ہے۔کوئی خبراسے پاگل بھی کر سکتی ہے۔یا پھر میں سجیل خان کو یہاں سے لے جاؤں۔وہ روہانسی ہو رہی تھی۔مجھے بہت دُکھ ہوا۔میں معافی چاہتا ہوں ڈاکڑ صاحبہ۔میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایساہو سکتا ہے۔کل تردید چھپ جائے گی میں بیٹی کا باپ ہوں۔۔اندازہ کیجئے مجھ پہ کیا گذری۔میں تواس اخبار پر مقدمہ کرنے جا رہا ہوں۔ہماری عزت اچھالی ہے انہوں نے۔آپ بے فکر رہیں میں سجیل صاحب کی ساری حالت کوسمجھتا ہوں۔میں معافی چاہتا ہوں اس ساری بات کے لئے۔ہاسپٹل میں بھی مدیحہ ڈسٹرب رہی۔سارا وقت اسے سجیل کا خیال رہا۔وہ فون کر کے تسلی کرتی رہی کہ وہ ٹھیک ہے۔ڈنر کرتے ہوئے سجیل نے صائمہ کے بارے مدیحہ کو بتایا۔کیسی لڑکی ہے؟ مدیحہ نے پوچھا۔ٹھیک ہے اس نے سرسری سا کہا۔شہلا جیسی نہیں ہو گی یقینا۔اک تیر سا کلیجے میں لگا تھا۔ڈاکڑ مدیحہ بے اختیار رونے لگیں۔شہلا تو شہزادی تھی۔ڈاکڑ مدیحہ نے بتایا۔یقیناًہو گی۔آپ پر گئی تھی نا۔مدیحہ آنکھوں میں آنسو بھرے ہنس پڑی۔ملوں گی صائمہ سے۔تمہیں کوئی عام سی معمولی لڑکی نہیں ملے گی۔میں جانتا ہوں آپ اسے قبول کر لیں گی میرے لئے۔کیوں نہیں۔ڈاکڑ نے جلدی سے کہا۔داماد نہ سہی۔بہو سہی۔بس تم جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ تو میں خودیہ رشتہ طے کروں گی۔۔تمہیں پسند ہے نا صائمہ۔پتہ نہیں ۔میں نے کبھی اس کے بارے سوچا نہیں۔لیکن اچھی لڑکی ہے۔اگر میں رشتہ طے کروں تو اس سے شادی کر لو گے نا۔یہ آپ بہتر سمجھتی ہیں۔اب میں اپنا فیصلہ خود نہیں کر سکتا۔آپ کریں گی۔شکریہ میری جان۔میں چاہتی ہوں تم خوش رہو۔جی ماما۔وقت اپنے پروں پر لمحوں کو اٹھائے اڑتا رہا۔ڈاکڑ مدیحہ نے بات آگے بڑھائی۔اسلام آباد اور بصیر پور میں رابطے بڑھنے لگے۔ڈاکڑ مدیحہ کو صائمہ پسند آئی۔رشتہ طے ہو گیا۔اور منگنی کی تاریخ طے کر دی گئی۔وزیر صاحب اپنی اکلوتی بیٹی کی منگنی بڑے اعلیٰ پیمانے پر کرنا چاہتے تھے۔اسلام آباد کے سب سے بڑے ہوٹل میں تاریخ دہرائی جائے گی۔مگر اب کے نظر نہیں لگنی تھی۔کیونکہ دشمن سارے ٹھکانے لگ چکے تھے۔ایک نانا تھے۔سجیل کے حادثے کے بعد وہ بھی وفات پا گئے تھے۔اپنی ساری جائیداد وہ سجیل کے نام کر گئے تھے۔بھائی بہنوں کو جو دینا تھاوہ اپنی زندگی میں ہی دے گئے تھے۔ان کے دوست وکیل نے سب کچھ بیچ کر پیسہ بینک میں جمع کروا دیا تھا۔اور بینک کو ہدایت کر دی تھی۔سجیل خان خود آ کر وصول کریں گے۔اس سے متعلق ایک سربمہر لفافہ لالہ نے ڈاکر مدیحہ کے سپرد کر دیا تھا کہ لالہ کے بعد وہی سجیل کی خیر خبر رکھیں گی۔یوں سجیل کو وہ لفافہ دینے کا وقت آ گیا تھا۔
ڈاکڑ مدیحہ وہ تمام تحائف صائمہ کے لئے لے کر آئیں جو شہلا کو ملے تھے اور جن کو کھولنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔اعلیٰ حکومتی عہدیدار اور بڑے بڑے لوگ اس منگنی میں شریک تھے۔ہرنائی سے لالہ کا سارا خاندان،ان کے جڑواں بیٹے جو اب جوان ہو چکے تھے۔احسان اپنے نانا،نانی کو لے کر آیا تھا۔
صائمہ اپنی جگہ ایک شاندار خاتون تھی۔وہ کچھ اداس تھی۔سارے مرحلے کتنی آسانی سے طے ہو گئے تھے۔وہ سجیل خان کی کہانی جان گئی تھی۔اسے اب حقیقی معنوں میں سجیل کا ساتھ دینا تھا۔منگنی کی رسم جاری تھی۔سجیل نے انگوٹھی صائمہ کو پہنا دی تھی۔اس کا سفید نرم ہاتھ اس کے ہاتھوں میں تھا۔منظر بدل رہا تھا۔آنکھوں کے آگے اندھیرے اور روشنی کا کھیل ہونے لگا۔سفید نرم ہاتھ کسی پر کی طرح اڑنے لگا۔ تالیاں بج رہی تھیں۔سجیل کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ڈاکڑ مدیحہ نے کسی سے بات کرتے کرتے اچانک دیکھا۔لمحے کے ہزاریں حصے میں وہ بھاگتی ہوئی سٹیج پر آئیں۔اس سے پہلے کہ وہ گر پڑتا۔انہوں نے اسے اپنی مامتا کی آغوش میں سمیٹ لیا۔اب نہیں میرے بچے۔بہت دُکھ سہہ لئے۔اب نہیں۔احسان ایمبولینس کو بلاؤ جلدی۔ہر قہقہ جہاں تھا وہیں رُک گیا۔ضمیر صاحب بھاگ کر سٹیج پر پہنچے۔ وہ صائمہ کو تسلی دے رہے تھے۔کچھ نہیں ہو گا اسے۔میری بچی کچھ نہیں ہوگا تمہاری قسمت بچا لے گی اسے۔میں ساتھ جاؤں گی پاپا۔وہ مضبوطی سے بولی۔اسے میری ضرورت ہے۔جب وہ پرانی دنیا میں آنکھ کھولے گا تو میں اس کی شہلا بنوں گی پاپا۔میں اس کی شہلا بنوں گی۔سارا ہال سُن رہا تھا۔ضمیر صاحب نے مختصراََ اسکی کہانی سب مہمانوں کو سُنا دی۔اور سب سے دُعائے صحت کی اپیل بھی کی۔سب مہمان جانے لگے۔
ڈاکڑ مدیحہ نے صائمہ کو منع کیا مگر وہ نہ رُکی۔میں اپ کی شہلا ہوں ماما۔ ڈاکڑ مدیحہ کو یوں لگا جیسے شہلا واقعی دوبارہ زمین پر اتر آئی ہو۔ڈاکڑ مدیحہ نے اسے سینے سے لگا کر بہت پیار کیا۔تم صائمہ بھی ہو اور میری شہلا بھی۔سمجھیں۔دونوں ایمبولینس میں بیٹھ گئیں۔ڈاکڑ اس کی ذہنی حالت کا اندازہ کر رہے تھے۔ٹیسٹ دوبارہ کئے گئے۔میڈیسن دی جا رہی تھیں۔وہ ICU میں تھا۔اگلے دن کے اخبارات اس خبر سے بھرے ہوئے تھے۔ہر چینل پر یہ سٹوری چل رہی تھی۔میں اس کی شہلا بنوں گی،یہی کہانی تھی محبت کی۔کہانی تھی قربانی کی۔
ڈاکڑوں نے دو دن سجیل کو سلائے رکھا تھا۔آج تیسرا دن تھا۔مدیحہ ایک ایک لمحے بعد اسے چیک کرتی رہی۔یا اﷲ میری دعائیں مستجاب فرما۔اور اس کی دعائیں قبول ہو گئی تھیں۔تیسرے دناس نے آنکھیں کھولی تھیں۔نئے مناظر میں جو وہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔آخری احساس ۔جب اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ شروع ہوئی تھی۔وہ تو ہوٹلنگ کرنے جا رہے تھے۔شہلا اور ارمان ہنستے کھیلتے، گپ شپ کرتے اچانک ہی موت نے اپنی سیاہی بکھیری تھی۔بچاؤ کی صورت ہی ممکن ہی نہ رہی تھی۔کوئی چیز اس کے دماغ سے ٹکرائی تھی اور آج تقریباََ ساڑھے تین سال بعد وہ کھڑکی کھلی تھی۔مدیحہ اس کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔میرے بچے۔ماما۔میں ٹھیک ہوں۔کچھ نقاہت تھی۔مگر اب نہیں۔وہ مسکرایا۔دیکھو اپنی نئی شہلا کو دیکھو۔صائمہ آگے آئی۔وہ کتنی ہی دیر اسے دیکھتا رہا۔شہلا یعنی صائمہ۔سجیل نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔صائمہ آگے آئی۔تم لوگ بات کرو۔ڈاکڑ مدیحہ کمرے سے باہر آ گئیں۔صائمہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔آئی ۔لو ۔یو۔صائمہ بولی۔جانتا ہوں۔ اک زخمی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر اتری۔صائمہ جھکی اور اس کی آنکھوں کو چوم لیا۔میں صائمہ بھی ہوں اور شہلا بھی۔دھلے ہوئے چہروں پر بڑی شفاف مسکراہٹ تھی۔بلاآخر وہ صلیبِ وقت سے اتر آیا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.