آنس معین کا تعارف
آج ذرا سی دیر کو اپنے اندر جھانک کر دیکھا تھا
آج مرا اور اک وحشی کا ساتھ رہا پل دو پل کا
اردو ادب میں بہت کم وقت میں اپنی شناخت بنانے والے شعرا میں آنس معین اپنے عہد کے ایک ایسے شاعر تھے جن کا طرز احساس، طرز بیان اور طرز فکر دوسرے شعرا سے یکسر مختلف تھا۔ ان کی شاعری نے اس وقت کے نامور نقادوں، ادیبوں اور شاعروں کو چونکایا۔ وہ اپنی عمر سے بہت آگے کے شاعر تھے۔ آنس معین کی پیدائش 29 نومبر1960ء کو لاہور میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام سید فخرالدین بلے تھا جو خود ایک شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ اپنے 8 بھائی بہنوں میں وہ پانچوے نمبر پر تھے۔ آنس نے میٹرک کا امتحان 1973 میں اور بی اے کا1978 میں پاس کیا۔ انہوں نے ایم اے اردو سے بھی کرنے کی تیاری عمل میں لانا شروع کر دی تھی۔
اپنی ملازمت کا آغاز انہوں نے ایک بینک آفیسر کے عہدے سے کی۔ وہاں پر اپنی ملازمت کے فرائض انجام دیتے ہوئے جلد ہی ان کا پرموشن فارن اسٹاف میں کر دیا گیا جس کی پوسٹنگ اگست1986 میں ہونی تھی۔ وہ شطرنج کے بیحد شوقین تھے اور اس میں مہارت حاصل کر چکے تھے۔ اپنے شعری سفر کا آغاز انہوں نے 1977 میں کیا اور محض 9 سالوں میں سیکڑوں غزلیں اور نظمیں تخلیق کیں۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے کلام کو دیوان کی شکل میں شائع کروانے پر توجہ نہیں دی اور مشاعروں میں بھی جانے سے گریز کرتے تھے۔ کبھی کبھی وہ اپنی غزلیں اور نظمیں رسالہ ’اوراق‘ اور بعض اخبارات میں اشاعت کے لئے بھیج دیتے تھے۔
آنس معین بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی غزلوں میں نغمگی کی دل گداز کیفیت، درد و غم، رنج و الم اور منظر کی پیکر تراشی کے عنصر نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ اردو ادب کے نامور شعرا نے ان کی شاعرانہ عظمت کو قبول کیا اور ان کی شاعری کے مداح بنے۔ احمد ندیم قاسمی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’میں رشک کرتا ہوں کہ آنس معین جیسے شعر کہہ سکوں۔‘ یہی وجہ ہے کہ وہ نوجوان نسل میں کافی مقبول ہوئے۔ آنس معین نے محض 26 برس کی عمر میں 5 فروری1986 کو ملتان ریلوے سٹیشن پر ٹرین کے آگے لیٹ کر خودکشی کر لی۔ جب یہ سانحہ پیش آیا تھا تب ان کے والد اسلام آباد اور ان کی ماں کراچی میں تھیں۔ انھیں بہاول پور کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔