عباس علی خاں بیخود کا تعارف
تخلص : 'بیخود'
اصلی نام : علی عباس خاں
پیدائش : 02 Jul 1906 | کولکاتا, مغربی بنگال
وفات : 06 Aug 1969 | کولکاتا, مغربی بنگال
رشتہ داروں : منور رانا (شاگرد), قیصر شمیم (شاگرد), وحشتؔ رضا علی کلکتوی (استاد)
توجہ چارہ گر کی باعث تکلیف ہے بیخودؔ
اضافہ ہے مصیبت میں دواؤں کا اثر کرنا
عباس علی بے خود غزل کے خاصے مقبول شاعر رہے ہیں ان غزلوں کے کلاسیکی رچاؤ نے شاعری پڑھنے اور سننے والوں کو ان کی طرف متوجہ کیا ۔ ان کا اصل نام عباس علی خاں تھا ۔ 2 جولائی 1906 کو پیدا ہوئے اور 6 اگست 1969 میں وفات پائی ۔ کلکتہ یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم اے کیا ۔ ۱۹۳۳ میں مدرسہ عالیہ کلکتہ کے اینگلو پرشین ڈپارٹمنٹ میں مدرس ہوئے ۔ 1935 میں اسلامیہ کالج ( موجودہ مولانا آزاد کالج ) میں بحیثیت لکچرر اردو کے تقرر ہوا ۔ اسی کالج سے صدر شعبۂ اردو، عربی ، فارسی سے سبکدوش ہوئے ۔
بیخود صاحب نے تقریبا تیرہ سال کی عمر (یعنی1919) میں فیض کو خیرباد کہا تھا لہذا اس زمانے کی رسم و رواج کے مطابق 1911 میں گاؤں کے مکتب فیض آباد میں اردو فارسی اور عربی(قرآن) کی تعلیم دلائی گئی۔1917 سے 1919تک انہوں نے کارونیشن اسکول ،فیض آباد میں اردو،انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔ان کا خاندان چونکہ انگریزی سے نابلد تھا اس لئے اسلامی تعلیم ہی کی طرف زیادہ رجحان رہا۔ بیخود صاحب آسنسول پہنچے تو ان کا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا گیا اور سہیل واسطی کے صاحبزادے مولانا ابوالفرح کمالی کے مدرسے میں انہیں داخل کردیا گیا۔مولانا موصوف اپنے وقت کے لائق وفائق استاد تھے اور درس و تدریس کے علاوہ شعر و شاعری کا بھی شغف رکھتے تھے۔ ان کے یہاں اکثر و بیشتر شعر و سخن کی محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔
بے خود نے غزل کے علاوہ اردو دوسری اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ان کی غزلوں کی طرح ان کی نظمیں بھی کلاسیکی رنگ وآہنگ کی حامل ہیں ۔ مختلف زبانوں کے ادب پر بیخود کی نظر تھی اس لئے ان کی شاعری میں اردوشاعری کی عام روایت کے بر خلاف موضوعات کا کینوس بہت وسیع نظر آتا ہے ۔ ان کی شاعری کا انتخاب ’جام بے خود‘ کے نام سے شائع ہوا ۔