عبدالحیٔ عارفی کے اشعار
ذرا اے جوش غم رہنے دے قابو میں زباں میری
وہ سننا چاہتے ہیں خود مجھی سے داستاں میری
توڑنا توبہ کا سو بار بھی آساں تھا مگر
جام مے مجھ سے تو اک بار بھی توڑا نہ گیا
جتنی توقعات تھیں سب ختم ہو چکیں
میں عارفیؔ کسی سے بھی اب سرگراں نہیں
اب مرے واسطے ہر موج ہے آغوش سکوں
بحر غم میں جو نہیں ہے کوئی ساحل نہ سہی
سکون اضطراب غم پہ چارہ ساز تو خوش ہیں
دل بیتاب کی لیکن قضا معلوم ہوتی ہے
دل کو تپش شوق کی یہ لذت پیہم
مل تو گئی لیکن بڑی مشکل سے ملی ہے
آئی خزاں کی یاد تو دل سرد ہو گیا
کچھ دیر بھی تو لطف نہ آیا بہار کا
محبت خود محبت کا صلہ ہے عارفیؔ لیکن
کوئی آسان ہے کیا بے نیاز مدعا ہونا
ایک ہی پھول تھا بس گل کدۂ حسن میں تو
چن لیا آنکھ میں اپنی ترے شیدائی نے
بہت بدلا مذاق دل خیال یار نے لیکن
جو شایان مذاق یار تھا ایسا کہاں بدلا
ہے عارفیؔ اب یہ اثر ترک تمنا
آنے لگے وہ اور بھی کچھ حد سے سوا یاد