عبد المجید سالک کے قصے
دل جلے کا تبصرہ
عبدالمجید سالک کو ایک بار کسی دل جلے نے لکھا، ’’آپ اپنے روزنامہ میں گمراہ کن خبریں چھاپتے ہیں اور عام لوگوں کو بے وقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔‘‘ سالک صاحب نے نہایت حلیمی سے اسے جواب دیتے ہوئے لکھا، ’’ہم توجو کچھ لکھتے ہیں ملک و قوم کی
بے غلمان کی جنت
گرمی کے موسم میں کوئی نو عمر ادیب عبدالمجید سالک سے ملنے آئے۔ سالک صاحب کے کمرے میں بجلی کا پنکھا چل رہا تھا جس کی بھینی بھینی خوشبو پھیل رہی تھی اور ہر چیز قرینے سے نفاست سے رکھی ہوئی تھی۔ وہ ادیب کمرے کی شاداب فضا سے متاثر ہوکر کہنے لگا، ’’سالک
کشمکش
سالک صاحب اور مولانا تاجور، دونوں کے درمیان کشیدگی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ سالکؔ کے ایک دوست نے کہا کہ آپ کے درمیان یہ ’’کشمکش‘‘ ٹھیک نہیں، صلح ہوجانی چاہئے۔ سالک بولے، ’’حضور! ہماری طرف سے تو ’’کش‘‘ ہے ’’مکش‘‘ تو تاجور صاحب کرتے ہیں۔ آپ کی نصیحت تو ان
مرغ و ماہی کے پیٹ میں مشاعرہ
سالک صاحب ہندو پاک مشاعرے میں شرکت کے لیے دہلی آئے ہوئے تھے۔ مجمع احباب میں گھرے بیٹھے تھے کہ ایک صاحب ذوق نے اپنے یہاں کھانے پر تشریف لانے کی درخواست کی۔ سالکؔ صاحب نے عذر پیش کیا تو خوشتر گرامی نے کہا کہ ’’مولانا ان کی دل شکنی نہ کیجئے، دعوت قبول کر
وائسرائے اور بائیں ہاتھ کا کھیل
لارڈارون ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے۔ ان کا دایاں ہاتھ جنگ میں کٹ چکا تھا۔ مختلف اخبار نے اس تقرری پر مخالفانہ انداز میں لکھا۔ لیکن مولانا سالکؔ نے ’افکار و حوادث‘ میں جس طریقے سے لکھا وہ قابل تعریف ہے لکھتے ہیں، ’’ہندوستان پر حکومت کرناان کے بائیں
ایک آنکھ کا وائسرائے
مولانا عبد المجید سالکؔ ہشاش و بشاش رہنے کے عادی تھے اور جب تک دفتر میں رہتے، دفتر قہقہہ زار رہتا۔ ان کی تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی ہوتی تھی۔ جب لارڈ ویول ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے تو سالکؔ نے انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ وہ ایک آنکھ سے
پان فروش ایڈیٹر
مولانا عبدالمجید سالک ؔروزنامہ ’’زمیندار‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ترک موالات کی تحریک میں برطانیہ کے خلاف مضامین لکھنے کی پاداش میں گرفتار ہوئے اور ایک سال قید با مشقت کی سزا پائی۔ اس کے بعد ’’زمیندار‘‘ کے بہت سے ایڈیٹر گرفتار ہوئے۔ ہوم ممبر سرجان مینار ڈجیل