ابر احسنی گنوری کا تعارف
سحاب سخن اور جگت استاد
ابر احسنی گنوری کلاسیکی شاعر اور نو مشق شاعروں کے پسندیدہ استاد تھے۔ شاگرد بنانے کے معاملہ میں انھوں نے اپنے دادا استاد کی روایت کو زندہ رکھا تھا۔ وہ داغؔ کے نامور تلمیذ احسن مارہروی کے شاگرد تھے اور اسی نسبت سے خود کو احسنی لکھتے تھے۔ دوسری طرف ابر کو بھی شاگرد بنانے کا چسکا تھا۔ یہ ان کی معاشی ضرورت بھی تھی کیونکہ وہ اجرت لے کر اصلاح دیا کرتے تھے۔ یہی غنیمت تھا کہ وہ مصحفیؔ کی طرح شعر فروخت کرنے سے بچ گئے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں تھی جو سارے ملک میں پھیلے ہوئے تھے۔ شاگرد بننے کے لئے اتنی ہی شرط کافی تھی کہ وہ تک بندی کر لیتا ہو۔ اس استادی نے ان سے وہ تمام آزادیاں چھین لی تھیں جن کا بعض اوقات شاعری تقاضہ کرتی ہے۔ ان کے نزدیک تقطیع میں کسی حرف کا گرنا تو جرم تھا ہی اس کا دبنا بھی عیب تھا۔
ابر احسنی گنوری کا نام احمد بخش اور ان کے والد کا نام نبی بخش تھا۔ وہ 1898ء میں اتر پردیش کے ضلع بدایوں کے قصبہ گنّور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکتب میں پائی۔ اردو اور فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھنے کے بعد گنور کے اسکول میں داخلہ لے لیا جہاں سے انھوں نے 1916 میں مڈل (آٹھویں جماعت) کا امتحان پاس کیا۔ مالی پریشانیوں کی وجہ سے وہ اعلیٰ تعلیم نہیں حاصل کر سکے لیکن خود اپنے طور پر انھوں نے حصول علم کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے منشی فاضل اور منشی کامل کے علاوہ بی ٹی سی (معلمی) کے امتحانات بھی پاس کئے۔ منشی اور کامل کے فارسی کورس انھوں نے مولوی رفیع الدین عالی سے پڑھے جو گنور میں ہی وکالت کرتے تھے۔ عربی میں ان کے استاد حکیم الدین گنوری تھے۔ آبائی پیشہ زمینداری تھا جو زمینداری کے خاتمہ کے بعد بہت تھوڑی سی زمین پر کاشتکاری میں تبدیل ہو گیا تھا۔ تعلیم کے حصول کے بعد ابر کانپور چلے گئے جہاں اک شوگر فیکٹری میں ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد علیگڑھ میں اک شوگر فیکٹری قائم کرلی لیکن اس کام میں ان کو خسارہ ہوا اور فیکٹری بند کرنی پڑی۔ پھر 1920ء میں معلمی کا پیشہ اختیار کیا اور کچھ ہی عرصہ میں نوادہ کے مقام پر ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر بن گئے۔ 1947ء کے ملک گیر فسادات کا بدایوں پر خاص اثر ہوا تھا۔ مولانا ابر کو بھی جان بچا کر بھاگنا پڑا اور وہ رامپور چلے گئے جہاں ان کے ایک شاگرد سید محسن علی حشر رامپوری نے سفارش کر کے ان کو اورینٹل کالج (مدرسۂ عالیہ) میں ملازمت دلادی۔ جہاں سے وہ 1953ء میں ریٹائر ہو کر گنور واپس آگئے۔
مولانا ابر کا بیان ہے کہ انھوں نے 9 سال کی عمر سے شاعری شروع کر دی تھی لیکن اس کا باقاعدہ آغاز 1916ء سے ہوا جب انھوں نے منشی سخاوت حسین سخا شاہجہانپوری سے اصلاح لینی شروع کی۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد سخا ان سے ناراض ہو گئے اور اصلاح بند کردی۔ پانچ سال تک وہ استاد کو راضی کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن جب وہ کسی طرح راضی نہیں ہوئے تو 1922ء میں شاگرد داغ احسن مارہروی سے اصلاح لینے لگے اور 1940 میں ان کی موت تک ان سے اصلاح لیتے رہے۔ احسن مارہروری سے ان کو بہت فیض پہنچا۔ استاد سے اظہار عقیدت کے طور پر انہوں نے 1948 میں ماہنامہ احسن جاری کیا۔ مولانا کے شاگردوں نے 1969ء میں ان کی 70 ویں سالگرہ کا جشن دھوم دھام سے منایا۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت اتر پردیش نے 600 روپے سالانہ ان کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ 1930 تک وہ بلا اجرت اصلاح دیتے تھے لیکن اس کے بعد انھوں نے اخبارات میں اشتہار دے کر اجرت پر اصلاح دینے کا اعلان کر دیا۔ ان کا تعلق بہائی فرقہ سے تھا لیکن ان کے کلام میں سچا مسلمان ہونے کی تمنا کا اظہار بھی پایا جاتا ہے۔ نہیں معلوم کہ انھوں نے بہائی مذہب کب اور کیوں اختیار کیا۔
مولانا ابر کا سیماب اکبرآبادی کے ساتھ پانچ سال تک معرکہ چلا۔ سیماب نے دستور الاصلاح میں کئی اساتذہ کی اصلاحات کو غلط بتاتے ہوئے متعلقہ اشعار پر اپنی اصلاح دی تھی۔ مولانا ابر نے ان کی ہرگرفت اور ہراصلاح کو غلط قرار دیا۔ ان کے ان مضامین کو اصلاح الاصلاح کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔
استاد ابر احسنی گنوری شاگردوں کے اشعار پر اصلاح دیتے ہوئے شعر کے خیال کو نہیں بدلتے تھے اور نہ تمام مصرعوں کو قلمزد کرکے اپنا شعر اس کے حوالہ کرتے تھے۔ بس شاعر کے اپنے خیال کو الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ درست کر دیتے تھے کہ اس میں کوئی لسانی یا عروضی سقم باقی نہ رہے۔ ادبی نظریات کے حوالہ سے وہ بہت کٹّر تھے۔ روایت پسندی ان کی شخصیت کا خاص حصہ تھی۔ وقت کے شدت سے پابند تھے۔ نفیس عطر، عمدہ بیاض، خوبصورت اور رنگین کاغذ اور اچھا قلم مولانا کی پسندیدہ چیزیں تھیں۔ طبعاً نہایت خوش اخلاق، بے تکلف، سادہ وضع اور زندہ دل انسان تھے۔ ان کا انتقال 1973 میں ہوا۔ ان کی تخلیقات میں اصلاح الاصلاح، سفینے، نگینے، میری اصلاحیں، قرینے اور شبینےخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اپنی شاعری کےبارے میں اپنے دیوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا نے لکھا کہ ’’اس مجموعے میں آپ کو صرف محبت کی ہی راگنی نہ ملے گی بلکہ بہت سے اشعارایسے ملیں گے جو وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ میں نے اپنی غزلیات کو کنگھی چوٹی وصل و ہجر اور رقیب تک ہی نہیں محدود رکھا بلکہ ایک حد تک ان سے احتراز کیا ہے، اور زمانہ کے ساتھ چلنے کی کوشش کی ہے۔ میں اساتذہ کی عاید کردہ پابندیوں کا احترام کرتا ہوں۔ فن کی توڑ پھوڑ پر میرا ایمان نہیں بلکہ اس عمل کو میں جہالت سے تعبیر کرتا ہوں۔ ‘‘ ابر کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے جوش ملسیانی نے کہا، ’’ابر صاحب زبان کی صفائی کے ساتھ معنویت کا دامن تھامے ہوئے ہیں اور نازک سے نازک مضمون کو بڑی صفائی سے بیان کر جاتے ہیں۔ رنگ قدیم اور کلاسیکی شاعری کے دلدادہ ہیں مگر زمانہ حال کے پاکیزہ تغزل پر بھی بالغانہ اور موافقانہ نظر رکھتے ہیں۔ عریانی کی کوئی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ مضامین کی پاکیزگی کو ہمیشہ اپنا مطمح نظر جانتے ہیں۔ ‘‘