ادیب سہیل کا تعارف
نامور اردو شاعر، پاکستانی، ۱۸؍ جون ۱۹۲۷ء چوارہ، ضلع مونگیر (بِہار) پیدا ہوئے، بقیدِ حیات، مقیم :کراچی، اصل نام : سید محمد ظہور الحق۔ ولدیت : سید عبد الرشید۔ جامعہ راج شاہی سے بی۔ اے کیا۔ ’’ذکی چواروی‘‘ کے قلمی نام سے لکھنے کا آغاز کیا۔ اسکول کے رسالے میں نظمیں اور کہانیاں لکھتے رہے، بعد ازاں ادیب سہیل کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا۔ ملازمت کا آغاز ۱۹۴۶ء میں ریلوے اکاؤنٹس کلکتہ سے کیا اور ۱۹۷۱ء میں سبکدوش ہوئے۔ ۱۹۴۶ء میں ’’افسانہ نگاری‘‘ کا بھی آغاز کیا۔ ۱۹۵۴ء میں ماہنامہ ’’ خیابان‘‘(بمبئی) میں ایک افسانہ ’’زخم اور قہقہہ ‘‘ شایع ہوا۔ یہ ماہنامہ اُس وقت راجندر سنگھ بیدی، اختر الایمان اور میرا جی کی ادارت میں شایع ہوتا تھا۔ ادیب سہیل نے باقاعدہ شاعری کا آغاز ۱۹۴۸ء میں کر دیا تھا اور معروف ادبی جرائد، فنون، اوراق، شاہراہ، نقوش، افکار، سیپ، ادبیات، قند، تحریر، روشنائی، آئندہ، مکالمہ اور بیاض وغیرہ میں تحریروں کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ ۱۹۹۷ء میں ماہنامہ ’’سیپ‘‘ کراچی نے ادیب سہیل کی ادبی خدمات پر ایک ضخیم نمبر شایع کیا۔ جون ۲۰۰۱ء میں سہ ماہی ’’کہکشاں ‘‘ کراچی نے ’’ادیب سہیل نمبر ‘‘ شایع کیا۔ ۲۰۰۰ ء میں جامعہ سندھ کی طالبہ فرخندہ جمال نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’ادیب سہیل، ایک مطالعہ ‘‘ زیرِ نگرانی ڈاکٹر سیّد جاوید اقبال تحریر کیا۔ جناب ادیب سہیل نے معروف ادبی پرچوں کی ادارت بھی کی جن میں ماہنامہ افکار، ماہ نامہ قومی زبان (انجمن ترقی اردو، پاکستان ) اور دیگر رسائل و جرائد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انجمن ترقی اردو، سید پور(ہند) کے نائب صدر رہے۔ پاکستان ٹیلی وژن سے بحیثیت محقق اور مسودہ نویس بھی وابستہ رہے اور پی ٹی وی سے ’’پاکستانی ادب سال بہ سال‘‘ پروگرام کرتے رہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے مقبول ڈرامے بھی لکھے جن میں ’’تان سین‘‘ اور موسیقی کا پروگرام ’’سُر کا سفر‘‘ ہیں۔ ادیب سہیل نے نغمہ نگاری بھی کی اور ریڈیو پاکستان، راولپنڈی سے ’’ساز کہتے ہیں ‘‘ پروگرام بھی کرتے رہے۔ منظوم آپ بیتی : ’’ غمِ زمانہ بھی سہل گزرا‘‘ کلام : نیا وطن شرق و غرب میں منقسم ہوا تھا میں شرق میں آپٹ(انتخاب) کر کے آیا ملازمت کو شروع میں یہ وطن سب کو راس آیا عجیب بہجت کا دور تھا یہ مگر قدم ٹھیک سے ابھی ہم جما نہ پائے تھے اس کو اپنا وطن بنائے ہوئے ابھی چند سال گزرے تھے شرق اور غرب کا دلوں میں یہ فرق جاگا کہ دونوں حصوں کے بِیچ میں اِک تناؤ اُبھرا تناؤ یہ تھا کہ شرق والے تمام شعبوں میں مملکت کے حقوق آبادی کے تناسب سے چاہتے تھے مگر تھا یہ حال اہلِ مغرب کی بالا دستی کا کوئی بھی شعبہ ہو زندگی کا وہ خود کو برتر ہی جانتے تھے یہی تفاوت بنا سبب نفرتوں کا ذہنوں میں اور جو لوگ نفرتوں کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی تھے چین سے بیٹھتے بھی کیسے (ماخوذ از : غمِ زمانہ بھی سہل گزرا، صفحات : ۷۷، ۷۸ )