عادل زیدی کے اشعار
مات کھائی ہے اکثر شاہ نے پیادے سے
فرق کچھ نہیں پڑتا تاج اور لبادے سے
اپنے رسم و رواج کھو بیٹھے
باقی اب خاندان میں کیا ہے
حال پوچھتے کیا ہو قصہ مختصر یہ ہے
گھر نہ بن سکا اب تک جو مکاں بنایا تھا
گھٹائیں کھل کے برسیں تھیں چڑھے تھے دل کے دریا بھی
چڑھے دریاؤں کا اک دن اترنا بھی ضروری تھا
وار پشت پر کرکے کیا ملا تمہیں آخر
ایک پل میں کھو بیٹھے اعتبار جتنا تھا
یہ صحن ارض حرم ہے بہ احتیاط قدم
بہت قریب خدا ہے ذرا سنبھل کے چلو
جب بھی آنکھ لگے میں دیکھوں ایک سہانی صورت
دیوی تھی وہ روپ کی رانی یا پتھر کی مورت
وہ جس کے ہونے سے اپنے تھے صبح و شام عدیلؔ
گیا وہ روٹھ کے مجھ سے تو گھر عجب سا لگا
وہ جس سے میری ذات میں بکھری تھی روشنی
وہ خواب وہ خیال وہ پیکر نہیں رہا