اختر اورینوی کے افسانے
ایک درخت کا قتل
شہر کاری کے لئے درختوں کا کٹنا اب عام سی بات ہو گئی ہے۔ بظاہر اس افسانہ میں بھی شہرکاری کے لئے ایک پرانے درخت کے کٹنے کی روداد ہے لیکن درخت کا سہارا لے کر مصنف نے نئی نسل کی ذہنیت کو نمایاں کیا ہے کہ وہ کس قدر بے حس ہو چکی ہے کہ اسے پرانی روایات اور قدروں کے مٹنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ لیکن اسی نسل میں چند ایسے باضمیر بھی ہیں جو ان درختوں یا روایات کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔
کیچلیاں اور بال جبریل
کائنات و آدم کی تخلیق اور اس کے عروج زوال کو بیان کرتا ہوا ایک عمدہ افسانہ ہے۔ حکایت ہستی بیان کرنے میں مصنف نے اشاروں سے کام لیا ہے اور بڑی مہارت سے انسان کی دنیوی زندگی کے تمام حقائق، تخلیق سے ارتقا تک کے سفر کی سرگزشت اور زوال و فنا کی پیشن گوئی کر دی ہے۔
سپنوں کے دیس میں
"فلسفایانہ اسلوب میں سرگزشت آدم بیان کی گئی ہے۔ اب تک کی معلوم انسانی تاریخ اور قوموں کے عروج و زوال کو اس افسانے میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ارتقائے آدم کے مختلف مرحلوں، جسم و روح کے ہزارہا انقلابات، فلسفہ، مذہب، ادب اور انسانی نفسیات کی مختلف جہتوں کو منضبط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔"
کواڑ کی اوٹ سے
یہ ٹھٹھیروں کے خاندان میں بیاہ کر آئی ایک ایسی عورت کی داستان ہے جس نے تمام عمر کواڑ کی اوٹ میں بیٹھ کر گھر سے فرار اپنے شوہر کا انتظار کرنے میں گزار دی۔ وہ جب بیاہ کر آئی تھی تو کچھ دنوں بعد ہی اس کا شوہر اسے چھوڑ کر کلکتہ چلا گیا تھا، کیونکہ وہ دوسرے ٹھٹھیروں کی طرح نہیں بننا چاہتا تھا۔ شروع شروع میں وہ اسے کبھی کبھی خط لکھ دیتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ خطوط کا یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ اس درمیان اس کی بیوی کی ایک بیٹی بھی ہوئی،جب بھی شوہر نہیں آیا۔ سالوں اس کی کوئی خبر نہ ملی۔ بیوی نے بیٹی کی شادی کر دی۔ بیٹی کی بھی بیٹی ہو گئی اور اب اس کی شادی کی تیاریاں ہو رہی ہیں کہ شوہر کا آسام سے خط آتا ہے جس میں اطلاع دی گئی ہے کہ وہ واپس آ رہا ہے۔ معینہ تاریخ بھی ہمیشہ کی طرح گزر گئی اور شوہر نہیں آیا۔
مریض
موت کے خوف کا سامنا کر رہے ایک ایسے شخص کی کہانی جسکی روحانی تبدیلی ہو جاتی ہے۔ اپنے طالب علمی کے زمانے میں وہ بہت ہونہار تھا۔ اس کے کئی دوست بھی تھے۔ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس کا داخلہ میڈیکل کالج میں کرایا گیا ۔ اسے کہانی، ڈرامے اور کویتائیں لکھنے کا بھی شوق تھا۔ اس نے اسٹیج پر بھی اپنا ہاتھ آزمایا۔ ایک روز وہ بیمار پڑا اور اس کی بیماری مسلسل بڑھتی گئی۔ بیماری کے دوران اس نے زندگی، دنیا اور خدا کے بارے میں جو کچھ بھی محسوس کیا ان سب کو وہ اپنی ڈائری میں نوٹ کرتا رہا۔
سیمنٹ
اس افسانے میں حاملہ عورت میں ہارمونز کی تبدیلی کے سبب پیدا ہونے والی مختلف ذہنی الجھنوں اور نفسیاتی تبدیلیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ راشدہ بچپن سے ہی ایک سگھڑ اور نفاست پسند لڑکی تھی۔ شادی کے بعد شوہر کی مالی کمزوری کے سبب وہ مخلتف قسم کی ذہنی اذیتوں میں مبتلا رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اسی وجہ سے وہ اپنے ذوق آرائش کی تکمیل بھی نہی کر پاتی اور وہ ہاشم سے متنفر ہو جاتی ہے۔ دوران حمل وہ ایک دن شدید خواہش کے زیر اثر سیمنٹ کھا لیتی ہے لیکن بعد میں اسے خوف لاحق ہوتا ہے اور مایکے جانے کی ضد کرتی ہے۔ پیٹ میں ہلچل کے سبب اسٹیشن پر اچانک اسے ہاشم سے شدید قسم کا انس پیدا ہو جاتا ہے اور وہ مامتا کے جذبے سے معمور ہو جاتی ہے۔ ٹرین چلنے کے وقت اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے آنسوؤں کے ہالہ میں ایک ننھا سا فرشتہ دریچہ سے باہر ہاشم کی طرف اپنے ہاتھ پھیلا رہا ہے۔
کلیاں اور کانٹے
کہانی دق کے مریضوں کے لئے مخصوص سینی ٹوریم اور اس کے عملہ کے ارد گرد گھومتی ہے۔ دق کے مریض اور ان کی تیماردار نرس، دونوں کو اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہےکہ مریضوں کی زندگی کا سورج کسی بھی پل ڈوب سکتا ہے۔ امید و ناامیدی کی اس کشمکش کے باوجود دونوں ایک دوسرے سے جنسی طور پر لذت بھی کشید کرتے ہیں اور ایک عام عاشق و معشوق کی طرح روٹھنے منانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ ساری نرسیں کسی نہ کسی مریض سے جذباتی اور جنسی طور پر منسلک ہوتی ہیں اور مریض کے صحتیاب ہونے یا مر جانے کے بعد ان کی وفاداریاں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کے دل کے کسی گوشہ میں یہ حسرت بھی رہتی ہے کہ کاش کوئی مریض ان کو مستقل طور پر اپنا لے۔ اسی لئے جب انور رخصت ہونے لگتا ہے تو کیتھرن روتے ہوئے کہتی ہے، انور بابو، آپ نے ہم نرسوں کو عورت نہ سمجھا، بس ایک گڑیا۔۔۔ ایک گڑیا۔۔۔ ایک گڑیا۔۔۔
انار کلی اور بھول بھلیاں
ایک ادیب جوانی میں ہزاروں قسم کے ارمانوں، خواہشوں اور حوصلوں کے ساتھ عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے لیکن زمانہ کی ناقدری، سماج کی بے حسی اسے زندہ درگور کر دیتی ہے اور وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انار کلی اور بھول بھلیاں میں ایک ایسے ہی ادیب کی کہانی بیان کی گئی ہے جو بے پناہ دماغی محنت کے بعد بھی مالی طور پر مستحکم نہیں ہو پاتا۔ وہ ایک دن بازار میں مارا مارا پھرتا ہے۔ اپنی خیالی بیوی کے لئے کپڑے خریدتا ہے لیکن جیب میں پیسے نہ ہونے پر دکاندار سے معذرت کر لیتا ہے۔ اپنے خیالی بچہ کے لئے چند آنے کی گڑیا خریدتا ہے اور اپنی کوٹھری میں آ کر سو رہتا ہے۔ خواب میں جب وہ اپنے بچہ کو گڑیا دینے کی خواہش ظاہر کرتا ہے تو اس کی بیوی حسرت سے کہتی ہے کہ میری قسمت میں بچہ کہاں اور اس کی نیند ٹوٹ جاتی ہے۔
شادی کے تحفے
شادی شدہ، تعلیم یافتہ لیکن بے روزگار شخص کی محرومیوں اور نارسائیوں کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ دولہا بھائی تلاش روزگار کے سلسلہ میں کئی سال سے اپنے سسرال میں مقیم ہیں۔ غم روزگار سے نجات پانے کے لئے وہ کتابوں کا سہارا لیتے ہیں لیکن ان کی ایک سالی ثروت اپنی اداؤں سے انہیں لبھا لیتی ہے اور وقتی طور پر وہ اپنی ذہنی الجھنوں سے نجات پا جاتے ہیں۔ شادی کے موقع پر سارے رشتہ دار ثروت کو تحفے دیتے ہیں لیکن اپنی بیوی کی حسرت ناک خواہش کے باوجود وہ ثروت کے لئے کوئی تحفہ خرید نہیں پاتے۔ ستم بالائے ستم جب ثروت سسرال سے واپس آتی ہے تو وہ دولہا بھائی کو اپنے کمرے میں بلا کر ایک ایک تحفہ دکھاتی ہے جو ان کے لئے سوہان روح بن جاتا ہے۔ ڈبڈبائی آنکھیں لے کر وہ ثروت کے کمرے سے اٹھتے ہیں۔ آنسو ان کے کمرے کی چوکھٹ پر آکر گرتے ہیں اور دولہا بھائی کہتے ہیں، یہ تھے میرے تحفے، انہیں بھی میں ثروت کے سامنے پیش نہ کر سکا۔