تمام
تعارف
غزل46
نظم40
شعر21
ای-کتاب155
تصویری شاعری 5
آڈیو 13
ویڈیو 16
قطعہ58
مضمون9
افسانہ3
گیلری 4
بلاگ2
دیگر
علی سردار جعفری کے مضامین
میر: صبا در بدر
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا تمہید شاعر کو تلمیذ رحمانی بھی کہا گیا ہے اور پیغمبر کا بھی درجہ دیا گیا ہے لیکن میرتقی میر تنہا شاعر ہیں جن کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ ولی دکنی، سودا، نظیر اکبرآبادی، انیس، غالب
ترقی پسند مصنفین کی تحریک
دیکھ شمشیر ہے یہ، ساز ہے یہ، جام ہے یہ تو جو شمشیر اٹھالے تو بڑا کام ہے یہ (مجاز) ’’بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب ہر دور میں ترقی پسند ادب کی تخلیق ہوتی رہی اور جب حالی، شبلی اور اقبال بھی ترقی پسند ہیں تو پھر آخر ترقی پسند مصنفین کی انجمن بنانے
غالب: تمنا کا دوسرا قدم
ہوں گرمیٔ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں دگر خواہی کہ بینی چشمۂ حیواں بتاریکی سواد نظم و نثر غالبؔ معجز بیاں بینی بسومناتِ خیالم در آئی تابینی رواں فروز برو دو شہائے زنّاری میستیم عام مدان و روشم سہل مگیر ناقۂ
اقبال کی غزل
اقبال کی غزل میں حافظ کی سرشاری، غالب کی بلندی فکر اور رومی کے دل کی بےتابی ہے اور اس کے سوا کچھ اوربھی جو صرف اقبال کی اپنی دین ہے۔ اس کچھ اور کے لئے الفاظ تلاش نہیں کئے جا سکتے۔ اس کا احاطہ نہ تو شاعر مشرق کی روح کا سوز و گداز کہہ کر کیا جا سکتا ہے
کبیر: حرف محبت
بڑی شاعری کی یہ عجیب وغریب خصوصیت ہے کہ وہ اکثر و بیشتر اپنے خالق سے بے نیاز ہو جاتی ہے، پھر اس کے وجود سے شاعر کا وجود پہچانا جاتا ہے کیونکہ اس کی زندگی کے حالات گزرے ہوئے زمانے کے دھندلکے میں کھو جاتے ہیں اور واقعات افسانے کا لباس پہن لیتے ہیں۔ پرانی
میر تقی میر کی شاعری
میران معنوں میں عشقیہ شاعرنہیں ہیں جن معنوں میں بعض نقاد یا نیم رومانی شاعر اردو کی ساری شاعری کوجنسیات تک محدود کر دینا چاہتے ہیں۔ غالب نے بھی ایسی عشقیہ شاعری سے پناہ مانگی ہے اور لکھا ہے کہ عاشقانہ شاعری سے مجھے وہی بعد ہے جوکفر سے ایمان کو ہو سکتا
لکھنؤ کی پانچ راتیں
پہلی رات راج سنگھاسن ڈانواڈول لکھنؤ کی فضا میں ایک نئی آزادی کا احساس تھا، ۱۹۳۷ء میں کانگریس کی پہلی وزارت بنی تھی۔ کھدر کے کپڑوں کی وقعت بڑھ گئی تھی، ہم لوگوں نے اپنے سروں کی گاندھی ٹوپی کو اور زیادہ ترچھا کر لیا تھا۔ جب میں ۱۹۳۸ء میں دہلی