دھوپ میں کون کسے یاد کیا کرتا ہے
پر ترے شہر میں برسات تو ہوتی ہوگی
گزشتہ چند سالوں میں ہندوستان میں اردو شاعری کے حوالے سے جو نئے لوگ سامنے آئے ہیں ان میں کچھ لوگ ہی ایسے ہیں جن کے خمیر میں شعر کہنے کی صلاحیت ہے ان میں ایک اہم اور نمایاں نام امیر امام کا بھی ہے۔ امیر امام کا تعلق صوبۂ اترپردیش کے شہر سنبھل سے ہے۔ وہ 30 جون 1984 کو پیدا ہوئے۔ آپ نے انگریزی میں ایم اے کیا ہے اور فی الحال درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
امیر امام اپنی نسل کے نمائندہ شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری میں آرٹ اور تصور کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ امیر امام کی شاعری میں زندگی کے نئے پہلوؤں اور زاویوں کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ اشعار میں منفرد مضامین قلمبند کرنے اور نئی بات کہنے کے ہنر سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ تشبیہات و استعارات کا برمحل استعمال بھی ان کے تخلیقی اور انفرادیت پسند ذہن کا آئینہ دار ہے۔
آپ کے دو شعری مجموعے’’نقشِ پا ہواؤں کے‘‘ اور ’’صبح بخیر زندگی‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں جن کو ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہو چکی ۔ ان کے پہلے شعری مجموعہ ’’نقش پا ہواؤں کے ‘‘ کو ساہتیہ اکیڈمی یووا پرسکار سے نوازا جا چکا ہے۔