اسد بھوپالی کا تعارف
اسد بھوپالی 10 جولائی 1921ء کو بھوپال میں پیدا ہونے۔ ان کے والد کا نام منشی احمد خان تھا اور وہ ان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ اسد بھوپائی کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ انہوں نے فارسی ‘عربی‘ اردو اور انگریزی میں تعلیم حاصل کی۔ وقت کے ساتھ لوگ انہیں اسد بھوپالی کے نام سے جاننے لگے۔
28 برس کی عمر میں وہ ممبئی چلے آئے جہاں وہ فلمی نغمہ نگار بن گئے۔ اس دور میں نغمہ نگاری کے میدان میں خمار بارہ بنکوی، جانثار اختر، راجندر کرشن، ڈی۔ این۔ مدھوک اور پریم دھون جیسے گیت نگار اپنے فن کا لوہا منوا چکے تھے۔ اس کے علاوہ فلمی صنعت میں بڑے گیت نگار مجروحؔ سلطانپوری، شکیلؔ بدایونی، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر بھی موجود تھے لیکن اسد بھوپالی نے ان حالات میں اپنی فنی صلاحیتوں کو منوایا اور اپنی ایک الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے- وہ بھوپال کے پہلے شاعر تھے جو فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے۔ 1949ء میں جب وہ ممبئی آئے تو وہاں کے فضلی برادرز فلم’’دنیا‘‘ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ آرزو لکھنوی نے اس فلم کے دو گیت لکھے اور پھر وہ پاکستان چلے آئے۔ فضلی برادرز اب ایک اور نغمہ نگار کی تلاش میں تھے جو انہیں فلم کے باقی ماندہ گیت لکھ کر دے۔ قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو اس فلم کے دو نغمات لکھنے کا موقع مل گیا۔ اسد بھوپالی کے دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔
1950ء میں انہیں فلم ’’آدھی رات‘‘ کے دو گیت لکھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد اسد بھوپالی کو بی آر چوپڑہ کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے گیت لکھنے کے لیے کہا گیا۔’’افسانہ‘‘ سپر ہٹ ثابت ہوئی اور اس کے نغمات نے بھی بہت شہرت حاصل کی۔ اس فلم کے چھ گیت اسد بھوپالی نے تحریر کئے تھے۔1949ء سے 1990ء تک اسد بھوپالی نے 100 فلموں کے لیے 400 نغمات تخلیق کئے۔ 1989ء میں انہیں فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے نغمات تخلیق کرنے کے لیے کہا گیا۔ اس فلم کے گیتوں نے برصغیر پاک و ہند میں دھوم مچا دی۔ ایسی شہرت بہت کم گیتوں کو ملتی ہے۔ اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے مندرجہ ذیل دو نغمات نے وہ مقبولیت حاصل کی جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ پر اسد بھوپالی کو "فلم فیئر ایوارڈ" سے نوازا گیا۔ 1990ء کے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے اسد بھوپالی کو بلایا گیا لیکن بیماری کے باعث وہ تقریب میں شرکت نہ کر سکے۔ 9 جون 1990ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔