اسد محمد خاں کے افسانے
باسودے کی مریم
یہ ایک دل کو چھو لینے والی جذباتی کہانی ہے۔ مریم گھر میں کسی بزرگ کی حیثیت سے رہتی ہے اور اس کا بیٹا ممدو باسودے میں رہتا ہے۔ مریم حج پر جانے کی خواہش مند ہے جس کے لیے وہ پائی پائی جمع کرتی ہے۔ حج پر جانے کی ساری تیاریاں ہو چکی ہیں، ٹکٹ کا انتظار ہے، جبھی ممدو کی بیماری کا خط آتا ہے۔ مریم سارا مال و متاع جمع کر روتی بسورتی باسودا روانہ ہو جاتی ہے۔ ممدو کو لے کر وہ اس ڈاکٹر، اس ہسپتال بھٹکتی ہے اور پھر ممدو کو لے کر گھر واپس آجاتی ہے، بالآخر ممدو کا انتقال ہو جاتا ہے۔ ایک بار پھر سے مریم حج کے لیے تیاریاں شروع کر دیتی ہے۔ خدا نے تو اس کے لیے کوئی اور ہی فیصلہ کر رکھا ہے، اس بار بھی وہ حج پر نہیں جا پاتی ہے کہ خدا کا بلاوا آ جاتا ہے۔
شہر کوفے کا ایک آدمی
کربلا کے تاریخی واقعات پر مبنی یہ ایک علامتی افسانہ ہے۔ ایک شخص سوچتا ہے کہ اگر وہ جنگ کربلا کے وقت ہوتا تو بہت کچھ کر سکتا تھا لیکن موجودہ وقت میں حق کے لیے جو جنگ ہو رہی ہے اس میں وہ خاموش ہے۔ در اصل ہر شخص مصلحت اور منافقت کے کوفے میں آباد ہے اور چاہتے ہوئے بھی حق کی اس جنگ کا حصہ دار نہیں ہو پا رہا ہے۔
کھڑکی
میں نے پہلی بار اسے اپنے محلے کے ایک کلینک میں دیکھا تھا مجھے ڈاکٹر سے کسی قسم کا سرٹیفیکیٹ لینا تھا اور وہ انجکشن لگوانے آئی تھی۔ آئی کیا بلکہ لائی گئی تھی۔ ایک نوجوان جو شاید چچا یا ماموں ہوگا اسے گود میں اٹھائے سمجھا رہا تھا کہ سوئی لگوانے میں زیادہ
جانی میاں
اس کہانی کے تین اہم کردار ریوا، جبار اور جانی میاں ہیں۔ ریوا طوائف ہے، جانی میاں اس کا چاہنے والا اور جبار جانی میاں کا دوست ہے، لیکن تینوں خفیہ محکمہ سے جڑے ہوئے ہیں اور راجستھان کے آس پاس کے علاقے میں موجود افیون کے سنڈیکیٹ کو گرفتار کرنے کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں۔
سوروں کے حق میں ایک کہانی
یہ ایک نفسیاتی کہانی ہے۔ قدرتی مناظر کی عکاسی، ساون کے برستے بادل جو کئی گنگا بنا دیتے ہیں اور یہ سب نیچے بارہ ماسی تال بناتے ہیں۔ تال میں سنگھاڑے، گھاس اور پتوار ہیں۔ تال میں ایک آدمی کھڑا ہے۔ وہ آدمی ہے سور نہیں۔ لیکن انھیں سننے والوں اور سوروں کے درمیان فیصلہ سنایا جا چکا ہے۔
نصیبوں والیاں
یہ ددی بائی طوائف کی داستان ہے، جس کی نگرانی میں بہت سی لڑکیاں رہتی ہیں جو اپنی کمائی ددی بائی کے پاس جمع کرتی رہتی ہیں۔ ایک دن آفت ناگہانی ددی بائی کی موت ہو جاتی ہے اور اسکی تجوری کی چابی اس علاقے کے داروغہ کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ تجوری جب کھولی جاتی ہے تو اس میں چند روپوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں برآمد ہوتا ہے۔
وارث
قصبائی پولیس لائنز تھی، جس کے سامنے میدان میں جیسے چھوٹا موٹا بازار لگ گیا تھا۔ سارہ بانوں نے اپنے جانوروں پر بندھے کجاوے، کاٹھیاں، رسے کھولنا اور انھیں چارے پانی کے لیے آزاد کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہم دو انسان، مویشیوں کے اس دائرے کے بیچ زنجیریں پہنے
غصے کی نئی فصل
شیر شاہ سوری کے سلطنت کے ایک باشندے کی کہانی جس کا تعلق شیر شاہ کے ہی گاؤں سے ہے۔ ایک دن وہ شخص شیر شاہ سے ملنے جانے کا ارادہ کرتا ہے اور بطور نذرانہ گاؤں کی مٹی ایک سفید کپڑے میں باندھ لیتا ہے۔ دار السلطنت پہنچ کر وہ جس سرائے میں ٹھہرتا ہے، وہاں رات میں اس کا سامنا ایک عجیب و غریب واقعہ سے ہوتا ہے جس سے وہ اس قدر بدگمان ہوتا ہے کہ وہ بادشاہ سے ملے بغیر واپس آ جاتا ہے۔
ایک بے خوف آدمی کے بارے میں
ایک معمولی کلرک کی کہانی ہے جس نے اپنے شوق سے اردو زبان سیکھی اور اس سے محبت کی۔ یہاں تک کہ اپنی مادری زبان پشتو کے بجائے اردو میں ہی کہانیاں لکھیں۔ نفع و نقصان کی کشمکش سے بلند ہو کر اور اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشیں قربان کرکے اس نے اپنی جمع پونجی لگا کر کتاب چھپوائی۔ اس کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ قومی زبان سے محبت کے اس ثبوت سے اسے چھوٹی موٹی ابدیت حاصل ہو جائے۔
مردہ گھر میں مکاشفہ
مردہ گھر میں مردوں کی رکھوالی کرنے والے شخص کے غیر معمولی برتاؤ عیاری مکاری اور بے حسی کو اس افسانے میں پیش کیا گیا ہے جو مردوں کے اعضاء بیچ دیتا ہے لیکن خود کو نیک، ایماندار اور ذہنی طور پر غیر متوازن ظاہر کرنے کے لیے مردوں کے اوپر چڑھ چڑھ کر اپنے مبہم سے عمل کی انجام دہی کے لیے داد طلب نظروں سے دیکھتا ہے۔
کوکون
اے اے میری کچھ نہیں تھیں۔ نہ ماں، نہ رشتے دار۔ وہ بس میری ماں کی سہیلی تھیں۔ یہ دونوں کسی اور شہر میں (میرے پیدا ہونے سے بہت پہلے) پاس پاس کے گھروں میں رہتی تھیں۔ میں کچھ ہی مہینے کا تھا تو میرے باپ نے، نہ معلوم کیوں، میری ماں کو مار ڈالا۔ (میرے باپ
ایک بلیک کومیڈی
اس افسانے میں ٹی وی سیریل میں پیش کیے جانے والے واقعات کی بے معنویت اور ہلکے پن پر طنز کیا گیا ہے اور جرنلزم کی دنیا میں پیش آنے والے واقعات کے تاریک گوشوں پر بھی ہلکی سی ضرب لگائی گئی ہے۔
چاکر
قحط سالی کے زمانے میں لوگوں کی بےبسی، ظلم، غیر انسانی حرکات اور روحانیت کی بلندی تک پہنچنے کے احوال پیش کیے گئے ہیں۔ فضل علی قحط کے زمانے میں وڈیروں کے ظلم و جبر اور انجام کی پروا کیے بغیر حصول علم کے لیے نکل جاتا ہے اور وہاں سے واپس آکر خود کو پوری طرح اپنے استاد کی تعلیمات کے لیے وقف کر دیتا ہے۔
سرکس کی سادہ سی کہانی
سرکس کے کرداروں کے درمیان پیش آنے والے واقعات کی تہہ میں معاشرے کی سیاسی پینترے بازیوں کو پیش کیا گیا ہے، رنگ ماسٹر، آسو بلا اور وہاں موجود دوسرے کرداروں کے رویے جس طرح ظاہر کچھ اور باطن میں کچھ اور ہیں ٹھیک اسی طرح معاشرے میں سیاسی مفاد کے لیے لوگ رنگ اور مزاج بدل لیتے ہیں۔