آصف فرخی کے اقوال

اردو افسانے میں کارکردگی کا معیار منٹو، عصمت، بیدی، کرشن رہے ہیں۔ اردو افسانےکے چار اِکّے۔۔۔ ان چار بڑوں کی برتری مسلم۔ میں نے اپنی کہانی کو ان کے سانچے میں نہیں ڈھالا کہ میں ترپ کا پتہ ہوں، جس کے رنگ پر چال آ جائے تو کیا بیگی کیا بادشاہ۔
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- رائے زنی
- رائے

زندگی اتنی آسان نہیں جتنا کھیتوں سے گزرنا۔ اور کہانیاں کہنا بھی اتنا آسان نہیں جیسے دھوپ میں کھیلتے بچے۔
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- رائے زنی
- رائے

ادب میں نقطۂ نظر کا مسئلہ میرے لیے دین کی سی حیثیت رکھتا ہے۔
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- رائے زنی
- رائے

میں نے اتنی کہانیاں سنی ہیں کہ اپنا آپ بھی کہانی لگتا ہے۔
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- رائے زنی
- رائے

کہانی کبھی حاصل ہوتی ہے، کبھی حاصل کی جاتی ہے، کبھی سڑک پر پڑے ہوئے ہیرے کی طرح مل جاتی ہے۔
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- رائے زنی
- رائے

فکشن کی معنویت کا بڑا حصہ تو ان رشتوں میں ہوتا ہے جو مصنف کو اشیاء کے درمیان نظر آتے ہیں۔
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- رائے زنی
- رائے

پرانے زمانے میں دستور تھا کہ کارواں کے پیچھے ایک آدمی چلتا تھا جس کے ذمے یہ دیکھنا بھالنا تھا کہ قافلے والوں کی کوئی چیز گری رہ جائے یا قافلے سے کوئی بچھڑ جائے تو یہ اٹھاتا جائے۔ میں اردو افسانے میں یہی کام رہا ہوں۔ سڑک کے کنارے بیٹھ کر کوڑیوں کے مول ہیرے بیچتا ہوں اور آتش فشاں پر گلاب اگاتا ہوں۔
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- رائے زنی
- رائے

کہانی کا نیریشن کلچر سے آتا ہے، نریشن میں زبان کا مزاج رچا بسا ہوتا ہے۔
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- رائے زنی
- رائے