ابوالمزاح اسرار مامعی نامور محقق و ناقد پروفیسر محمد حسن نے اس دور کے نابغہ شاعر کے بارے میں بالکل درست فرمایا ہے کہ جناب اسرارؔ جامعی نہایت پرآشوب دور میں سراپا آشوب ہیں، پیرایۂ اظہار ہے طنزومزاح، وہ بھی شعر ہیں، صورت سے نہایت مسکین اور اپنے اشعار میں نہایت جری، جہاں کہیں ناہمواری، ظلم زیادتی، بے رحمی اور بے وقعتی پائی وہیں سینہ سپر، قلم کو تلوار اور لفظوں کو تیر و تبر کی طرح برتنے کا فن انہیں آتا ہے ان کا جی جلتا ہے تو ناہمواری، ظلم اور منافقت پر مگر اس جلن سے بھی وہ درگندھ نہیں سگندھ فراہم کرتے ہیں اور لفظوں میں احساس کے زخموں کو پھول اور ستارے بناتے ہیں۔
اکبرؔ الہ آبادی کی طرح انہیں لفظوں کی خلاقانہ، تحریف پر قدرت ہے ایک حرف ادھر سے ادھر کیا اور طنز وتعریض کا مقصد پورا کر لیا پھر محاوروں پر وہ قدرت ہے کہ ان کے استعمال میں ذرا سی نادرہ کاری کر کے وہ تبسم نا آشنا ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ وہ دقیانوسی ہیں نہ ماضی پرست اوران دونوں کے بغیر ہمارے ادب میں طنزومزاح کا چراغ بہت کم روشن ہوا ہے۔ اسرارؔ جامعی کے یہاں طنز و مزاح کا تانا بانا فکرواحساس کی تازہ کاری سے بنا جاتا ہے اور جب کبھی دائرے میں کوئی بے تکا پن دکھائی دیتا ہے تو وہ اسے جوں کا توں پیش کر دیتے ہیں۔ طنز و مزاح کا کمال ہی یہ ہے کہ وہ آئینے کی طرح صاف و شفاف ہو اور اس مزاحیہ منظر سے لطف اٹھانے کے لئے ہلکے سے اشارے کی ضرورت ہو تو وہ کسی تبصرے کی گنجائش ہی نہ ہو۔
بے شک اردو ادب کا دامن طنز و مزاح کے اعلی نمونوں سے بھرا ہوا ہے مگر دور حاضر میں اسرارؔ جامعی کی تخلیقات نے اسے وسیع تر کیا ہے۔ ادھر جو طنز و مزاح کی تمام تو توجہ نثر کی طرف ہوگئی تھی اسے پھر سے نظم کا پیرایہ بخشنے کے سلسلے میں ان کا کارنامہ قابل قدر ہے۔ ان کے طنزومزاح بھی محض ہنسی اور قہقہوں کی کھنک ہی نہیں ہے انسانی زندگی کی اونچ نیچ پر بھی نگاہ ہے۔
(اسرار جامعی کے مجموعۂ کلام ’’شاعر اعظم‘‘ کے دیباچے کا اقتباس)
مددگار لنک :
| https://www.patnabeats.com/asrar-jamayee-the-forgotten-star-of-urdu-poetry-who-was-once-the-guest-of-indian-president/