ایاز رسول نازکی
تصویری شاعری 1
یہاں تو شہر سے دیوار_و_در ہی غائب ہیں چھتوں کے بعد مکانوں کو لے اڑی ہے ہوا تمام شہر تھا سڑکوں پہ آج رات گئے سنا ہے پھر سے جوانوں کو لے اڑی ہے ہوا سفر ہے رات کا صحرا سے واپسی کیسی تمہارے سارے نشانوں کو لے اڑی ہے ہوا چلے_گی وقت کی آندھی تو کس کو بخشے_گی نہ جانے کتنے زمانوں کو لے اڑی ہے ہوا رہا نہ اب وہ لب_جو رہا نہ مے_خانہ ہمارے سارے ٹھکانوں کو لے اڑی ہے ہوا چلو وہ وصل کا وعدہ بھی کالعدم ٹھہرا تمہارے سارے بہانوں کو لے اڑی ہے ہوا ہوا کے دوش پہ اڑتے تو ہیں پرندے پر نظر کے سامنے دانوں کو لے اڑی ہے ہوا پڑے ہیں تیر یہاں غازیوں کے ترکش میں اندھیری شب میں کمانوں کو لے اڑی ہے ہوا غلط تھے سارے وہ میزاں فریب تخمینے ہمارے سارے گمانوں کو لے اڑی ہے ہوا رکھے تھے کس نے وہ اوراق طاقچے پہ ایازؔ وہ چاہتوں کے فسانوں کو لے اڑی ہے ہوا