Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

عزیزؔ لکھنوی

1821 - 1915

عزیزؔ لکھنوی کا تعارف

تخلص : 'عزیزؔ'

اصلی نام : خواجہ عزیزالدین

خواجہ عزیز 1821 کو کشمیر میں پیدا ہوئے۔ ان کی حالات زندگی کی تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مورث خواجہ محمد مقیم آٹھویں صدی ہجری میں ترکستان سے حضرت سید اشرف الدین بلبل شاہ کے ساتھ ہندوستان آئے اور کشمیر میں زندگی شروع کی۔ بلبل شاہ وہی ہیں جنہوں نے کشمیرمیں اسلام کو پھیلایا اور اس کو جنت نشان بنانے میں بہت اہم رول ادا کیا۔ خواجہ عزیز کے آباو اجدا تجارت پیشہ تھے۔ ان کے والد تک پہنچتے پہنچتے ان کا خاندان بڑے تجارتی خاندانوں میں شمار کیا جانے لگا۔ ان کے والد امیر الدین نے تجارت کا دائرہ اتنا وسیع کیا کہ یوروپ کو بھی کشمیری پشمینہ پوش بنا دیا۔ ان کا خاص بازار فرانس تھا۔ یوروپ کے تجارت پیشہ لوگ کشمیر آتے اور ان کے گھر پر مہمان ہوتے اور فرمائشی پشمینہ تیار کراتے۔ اپنی تجارت کو اور وسیع کرنے کی غرض سے خواجہ امیرالدین  مع اہل و عیال کشمیر سے لکھنؤ تشریف لائے اس وقت بمشکل خواجہ عزیزؔ کی عمر نو برس یا آٹھ برس رہی ہوگی اورانہوں نے  سبزی منڈی کی بارہ دری کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ ان کے منصوبہ کے مطابق کچھ دن تجارت صحیح سمت بڑھتی رہی۔ لیکن زمانہ گردش کا شکار ہوئے اور 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے بعد ہندوستانی تجارت کی کساد بازاری اور یوروپ کی خود غرضی نے ان کے تجارت اور کارخانہ کو سرد کر دیا۔

خواجہ عزیزؔ کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کا آغاز لکھنؤ میں ہوا لیکن ان کے حصول تعلیم کے تفصیلات پردۂ خفا میں ہیں۔ لیکن ان کے کلام سے اس بات کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ ان کو فارسی پر دسترس تو تھی ہی ساتھ ہی عربی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کی علمی لیاقت کا پتہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1884 میں ان کے دوست شیخ واجد حسین جو تعلق دار تھے ان کے اصرار پر کنینگ کالج میں فارسی زبان کے پروفیسر کے عہدے کو قبول فرمایا اور نو سال اپنی خدمت دیتے رہے اور انہیں کی وجہ سے کنینگ کالج کا شرف بڑھا ور ایک اعلیٰ علمی ادارہ کے طور پر معروف ہوا۔

خواجہ صاحب کے چرچے عام ہو گئے تھے ملک علمی حلقوں میں ان کا اعزاز بڑھنے لگا ۔ 1909 میں حیدرآباد دکن کے محکمہ السنہ شرقی کے ممتحن مقرر ہوئے ۔ حیدرآباد میں ملازت میں رہتے ہوئے ان کی خواہش ہوئی کہ مرزا غالبؔ سے ملنے کا شرف حاصل ہو اور اسی غرض سے 1863 کشمیر جاتے ہوئے راستے میں وارد دہلی ہوئے ۔ غالبؔ کا یہ آخری دور تھا ۔ ضعف اس قدر ہو گیا تھا کہ پلنگ پر ہی لیٹے رہتے  اور لیٹے لیٹے ہی لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتے ۔ سماعت اس قدر کم ہو گئی تھی کہ لوگ بجائے بولنے کے کاغذ پر مطلب کی بات لکھ کر پیش کرتےاور مرزا صاحب لیٹے ہی لیٹے جواب لکھ دیتے یہ معاملہ خواجہ عزیزؔکے ساتھ بھی پیش آیا۔ تحریر سے ذوق شعر محسوس کر کے مرزا نےخواجہ سے شعر کی فرمایش کی۔ خواجہ عزیز ؔنے یہ شعر لکھ کر دیا

مہ مصرست داغ از رشک مہتابے کہ من دارم

زلیخا کور شد در حسرت خوابے کہ من دارام

غالبؔ کو ترکیب ’مہ مصر‘ میں تامل ہوا اور لکھا کہ ’ماہ کنعاں‘سنا ہے؟ ’مہ مصر‘ نئی ترکیب ہے۔ خواجہ عزیزؔ نے اس کی سند میں صائبؔ تبریزی کا شعر پیش کیا تو مرزا بہت خوش ہوئے۔ شعر بارہا پڑھا اور تحسین بلیغ کی۔

خواجہ کو نعتیہ کلام میں جو عروج حاصل تھا وہ شاید ہی کسی ہم عصر کے یہاں موجود تھا۔ ان کا ایک نعتیہ شعر

دہد حق عشق احمدؐ بندگان چیدۂ خود را

بخاصاں شاہ می بخشد مئے نوشیدہ خود را

پٹنہ کے صاحب دل بزرگ مولانا محمد سعید حسرتؔ نے یہ شعر سنا تو ان پر وجد طاری ہو گیا ۔ اسی اثنا کلکتہ میں ایک عالمی سمینار منعقد کی گئی تھی اس میں عزیز کا ہفت بند عزیزی پڑیا گیا تو ایرانیوں پر بھی کیفیت ذوق طاری ہو گیا۔

انہوں نے کئی بار کشمیر کا سفر کیا اور اسی سفر سے متعلق انہوں نے ایک مثنوی ’مثنوی ارمغان لاجواب‘ تحریر کی ہے ۔ اس میں کشمیر کے سفر سے متعلق بہت ساری تفصیلات موجود ہیں۔ خواجہ صاحب نے 85 سال کی عمر پائی اور 1915 عیسوی میں لکھنؤمیں رحلت فرمائی۔  

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے