بخش لائلپوری کے اشعار
گھر بھی ویرانہ لگے تازہ ہواؤں کے بغیر
باد خوش رنگ چلے دشت بھی گھر لگتا ہے
حصول منزل جاں کا ہنر نہیں آیا
وہ روشنی تھی کہ کچھ بھی نظر نہیں آیا
اہل زر نے دیکھ کر کم ظرفئ اہل قلم
حرص زر کے ہر ترازو میں سخن ور رکھ دیے
کوئی شے دل کو بہلاتی نہیں ہے
پریشانی کی رت جاتی نہیں ہے
درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں
سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے
وہی پتھر لگا ہے میرے سر پر
ازل سے جس کو سجدے کر رہا ہوں
کبھی آنکھوں پہ کبھی سر پہ بٹھائے رکھنا
زندگی تلخ سہی دل سے لگائے رکھنا