بلراج مینرا کے اقوال
سلگتے سگریٹ اور دھڑکتے دل میں کتنی مماثلت ہے!
ہم سمبلز کے درمیان زندگی گزارتے ہیں۔ جو سمبلز ہماری زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں وہ حکمرانوں کے پیدا کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب ان سمبلز کے بوسیدہ مفاہیم کو چیلنج کیا جاتا ہے تو ظلم ٹوٹتا ہے۔
ہم نے جس سماج میں آنکھ کھولی ہے، اس سماج نے پیشتر اس کے کہ ہمیں اپنی سوجھ بوجھ کا علم ہوتا، ہماری کھوپڑی میں ایک مخصوص مذہب اور دیومالا اور ان کے حوالے سے ایک ملک اور اس کی تاریخ کا سارا کوڑا بھر دیا۔ اپنے آپ کو اس بلاخیز عہد میں جینے کے قابل بنانے کے لئے پہلے ہمیں اپنی کھوپڑی صاف کرنا پڑےگی۔
سماج اور فرد کی زندگی میں موجود تضادات کا احساس، ان کی واضح پہچان اور پھر ان سے چھٹکارا پانے کی کوشش تخلیق کی جانب پہلا قدم ہے۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اردو کے بیشتر ادیب نہ جی رہے ہیں، نہ ادب لکھ رہے ہیں، بلکہ تنبولا کھیل رہے ہیں۔