باقر مہدی کے مضامین
ترقی پسندی اور جدیدیت کی کشمکش
آج کی کشمکش انسانی زندگی کے سب سے مشکل مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ۔ یہ ٹوٹی ہوئی ’’قدریں‘‘ اور بکھری ہوئی ’’حقیقت‘‘ کی آویزش متضاد تصورات حیات کو توڑتی ہوئی خون کے ایک ایک قطرے میں سما گئی ہے ۔ یہ خیروشر کی، اشراکیت اور سرمایہ داری کی، مکمل فرد اور
غالب اور تشکیک
میں اپنے مضمون کا آغاز غالب کے ایک دعائیہ شعر سے کرتا ہوں۔ اے آبلے کرم کر، یا ں رنجہ اک قدم کر اے نور چشم وحشت، اے یادگار صحرا اس لیے کہ تشکیک پر گفتگو ایک معنی میں خار مغیلاں کی راہ سے گزرنے کی داستاں سے کم نہیں ہے۔ آج اس مسئلہ پر بحث کرنا
غالب: شخصیت اور شاعری: نئے مطالعے کے امکانات
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا، پر یاد آتا ہے وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہو تا کیا ہوتا؟ پتانہیں غالب کے اس شعر کو اچھے اشعارمیں شامل کیا جا سکتا ہے یانہیں، اس لیے کہ ایک حلقہ ان کے علامتی اور استعاراتی اشعار ہی کو ان کے اچھے اشعار سمجھنے اور سمجھانے
یگانہ آرٹ
خودپرستی کیجئے یا حق پرستی کیجئے یاس کس دن کے لیے نا حق پرستی کیجئے مرزا یاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر ہمیں ان کی شاعری اور شخصیت دونوں کو سمجھنے میں بڑی مدد دیتا ہے کیونکہ یہی ان کا مطمح نظر تھا۔ یگانہ کے بارے میں نقادوں اور شاعروں کا رویہ زیادہ تر
غالب: خوف پر قابو پانے کی ایک کوشش
مجھے نہیں معلوم کہ کتنے ادیبوں اور شاعروں کوغالب پر لکھتے ہوئے کسی قسم کے خوف کا احساس ہوا ہے یا نہیں؟ اپنے ذاتی تجربے کا اعتراف نہایت عجز سے کرنا چاہتا ہوں کہ جب بھی غالب پراپنا تاثر لکھنے کا خیال آیا ہے تو ایک انجانے خوف نے مجھے ڈرانے اور مجھ پر
غزل کا تیسرا نام
(۲۸ ستمبر ۶۳ء کوعوامی سنٹر (بمبئی) کی طرف سے ’شب یگانہ‘ منائی گئی، جس میں سردار جعفری نے یگانہ سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا۔ ظ۔ انصار ی نے یگانہ کو ایک بڑا کاریگر کہا۔ علی وجد نے یگانہ کو اچھا شاعر تسلیم کیا مگران کی شخصیت پر ناجائز اور بےبنیاد الزامات
ترقی پسند شاعری کے مسائل
دنیا کے ہر ملک کا ادب ایک ایسے دور سے گزرتا ہے جب معاشی بحران اور سیاسی ہنگامہ آرائیوں سے شاعروں اور ادیبوں کے ذہنو ں میں زندگی کے سارے نئے مسائل الجھ جاتے ہیں۔ تاریخ کا بہتا ہوا دھارا اپنی راہ بناتا ہوا بڑھتا ہے۔ طریقہ پیداوار میں تبدیلی نئی قدروں
تین رخی تنقیدی کشمکش: آخری قسط
ترقی پسندی، جدیدیت کی کشمکش کا تفصیلی ذکر کر چکا ہوں۔ اب یہ کشمکش تین رخی ہو گئی ہے یعنی مابعد جدیدیت بھی داخل ہو گئی ہے۔ اس طرح اردو زبان اپنے آخری دور میں نہایت نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے ’’گروہوں‘‘ میں اتنا تناؤ ہے کہ کسی کو
نقاد کا نیا ادبی رول
اٹھارہویں صدی کے مشہور انگریزی شاعر الگزنڈر پوپ کی طویل نظم ’’تنقید پر ایک مضمون‘‘ پڑھنے کے بعدیہ خیال آتا ہے کہ نقاد کا ایک عام ادیب کے مقابلے میں کتنا اہم رول ہوتا ہے۔ اس کے ان اشعار کا آزاد ترجمہ ملاحظہ ہو، ’’یہ جاننے کی کوشش کرو کہ ناقدین کس
میر تقی میر اور ہم
ہوں زرد غم تازہ نہالانِ چمن سے اس باغ خزاں دیدہ میں برگ خزاں ہوں اور برگ خزاں کے لیے اٹھارہویں صدی کا ہندوستان اور آج کے عہدمیں مماثلتیں تلاش کر لینا دشوار نہیں ہے۔ وہ جاگیردارانہ بربریت کا دور تھا اور آج مغربی طرز کی جمہوری ’’آمریت‘‘ کا دور
نثری نظمیں: بحث کا ایک اور رخ
اب جب کہ جدیدیت کے خلاف ردعمل شروع ہو چکا ہے، دقیانوسیت اور ترقی پسندی مل جل کر ’’یلغار‘‘ کرنے والی ہیں۔ یہ وقفہ جدیدیت کی ایک اہم شاخ نثری نظموں کے مطالعے کے لیے وقف کیا جا سکتا ہے۔ یوں نثر اور نظم ایک دوسرے کے حریف نہیں تھے۔ جب تک نثرنے مناسب ترقی
جدیدیت اور توازن
ادب میں نئے رجحانات یا تحریکوں کی ابتدا سرکشی سے ہوتی ہے۔ جیسے فیوچرازم اور سریلزم۔ اس سرکشی کے ابتدائی نقوش دیکھے جائیں تو معلوم ہوگا کہ اگر سرکش ادیب ’’صالح رول‘‘ اختیار کرنے کی کوشش کرتے تو جدیدیت کی تحریکیں اور رجحانات اور کلاسیکی ادبی اقتدار