میرؔ ( تقی میر) کی ایک صاحبزادی کا ذکر بعض تذکروں میں ملتا ہے کہ وہ بھی شاعرہ تھیں اور ’بیگم‘ تخلص تھا۔(1)ان کے بارے میں یہ روایت بھی مشہور چلی آتی ہے کہ شادی کے معاً بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا جس سے میرؔ کو بہت صدمہ ہوا اور انہوں نے یہ شعر کہا اب آیادھیان اے آرام جاں اس نامرادی میں کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں(2) مگر یہ شعر نہ میرؔ کے کلیات مطبوعہ میں ملتا ہے نہ کسی قلمی نسخے میں۔کسی ہم عصر تذکرہ نگار نے بھی اسے میرؔ کی طرف منسوب نہیں کیا۔ظاہر ہے یہ واقعہ اختراعی ہے اور یہ شعر امیر اللغات جلد اول میں نادرؔ سے منسوب ہوا ہے اورسب سے پہلے تذکرہ شمیم سخن نے اسے میر کا زائیدہ لکھا ہے۔اس کی روایت کمزور ہے۔میر کی اس لڑکی کا ذکر مختلف تذکروں میں ملتا ہے۔بیگم تخلص تھا قیاس کہتا ہے کہ بیگم میر کلو عرش کی بہن تھیں۔میر نے دوسری شادی لکھنؤ میں (ہی )کی تھی۔ (بحوالہ دیوان عرش،مصنفہ ایم حبیب خاں،مطبوعہ انجمن ترقی اردو ہند، اشاعت 1987) 1۔ہم نے ’بیگم‘ کے جو اشعار لیے ہیں وہ دیوان عرش کے دیباچے سے لیے گئے ہیں جسے ایم حبیب خاں نے ترتیب دیا ہے۔ان کے مطابق یہ اشعار پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے ’میر:حیات اور شاعری‘ نامی مضمون میں بیگم کے نام سے موسوم کیے ہیں۔کیونکہ ہمیں میر کی اس بیٹی کا پورا نام معلوم نہیں ہے اور وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئی تھیں اس لیے ہم نے ان کے نام کے ساتھ ’لکھنوی‘ کا لاحقہ لگا دیا ہے۔(ریختہ) 2۔یہ شعر اپنے مزاج کی بنیاد پر بھی خالصتاً لکھنوی معلوم ہورہا ہے۔میر تقی میرؔ کا مطالعہ کرنے پر یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ میر ایسا شعر نہیں کہہ سکتے تھے۔یہ شعر میر کی شاعری کے مزاج کے مطابق ہرگز نہیں ہے۔(ریختہ)