بلند اقبال کے افسانے
شکوہ
کچھ نہیں، بس یو نہی خیال آیا تھا اور برش کینوس پر چلتا چلا گیا۔ رنگ پر رنگ چڑھنے لگا اور خالی خولی لکیریں زندگی کا مزا چکھنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں بےجان کینوس جیسے زندگی کا روپ پا نے لگا۔ ایک لکیر جو ترچھی پڑی تو اجاڑ شاخوں پر پھول کھل گئے، ایک لکیر جو
خوشبو کا سفر
پھر کچھ ہی دیر میں وہ لمحہ آ گیا جب وقت فنا ہوکر محض ایک کسیلی یاد کی شکل میں تاریخ کے صفحوں میں محفوظ ہونے والا تھا، بس ایک مسلے ہوئے پھول کی خوشبو تھی جو زمین و آسمان کے درمیان پھنسے ہوئے اس بھاری بھرکم لمحے سے جان چھڑا کر بادلوں کے اوٹ آچھپی تھی اور
ستیہ کے بکھرے ہوئے بال
رات کے سناٹے میں کاکروچ کی آوازیں سیٹیوں کی طرح بجنے لگیں۔ چارپائی کی رسیاں ستیہ کے پہلو بدلنے پر کسمسائیں اور پھر سے ایک گہری نیند میں کھو گئیں۔ ستیہ نے ایک اچٹتی ہوئی نظر اپنے بکھرے ہوئے بالوں پر ڈالی اور پلک جھپکتے میں صدیوں کا سفر طے ہونے لگا۔ اجنبی
چاند پر موت
’’۔۔۔بس تھوڑی ہی دیر کے لیے زمین کا دل کانپا تھا اور پھر اس کا سینہ چھلنی ہوتا چلا گیا۔ فضاء بےبسی سے زمین کو کٹتے دیکھنے لگی۔ آگ اور دھویں کا ایک طوفان تھا جو اس کے چٹان جیسے سینے سے نکل کر اردگرد کی فضاء کا دم گھونٹ رہا تھا۔ آگ کی لپٹیں زمین کو تہہ
یہ کیسی بے وفائی ہے
’اللہ مارے تمھارے ابا پرائی عورتوں کے بہت شوقین تھے، جہاں کوئی لال پیلی چھپن چھری دیکھی، چل پڑے پیچھے پیچھے، پھر نہ گھر کا پتہ نہ باہر کا، میں کہے دے رہی ہوں ذرا نظر دبا کر رکھیو، یہ مرد ذا ت بڑی بےوفا ہوئے ہے، شادی کے کچھ سال تو ہر کوئی دم دبا کہ چلے
کارٹون
محمد شجاع دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوا۔ کمرے میں ہمیشہ کی طرح اندھیرا تھا۔ ایک لمحے کیلئے اسے خیال آیا کہ بتی جلائے مگر پھر اس خیال سے کہ بابا کو رو شنی سے وحشت سی ہوتی ہے اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ بابا ہمیشہ کی طرح چارپائی پر بیٹھا سر جھکائے زمین
ملاپ
علی کی پلکوں پر ٹھیرا ہوا آنسو کچھ دیر تک تو لرزتا اور کانپتا رہا مگر پھر جونہی فاطمہ کی نمکین مسکراہٹ اس سے بہہ کر علی کے دل میں جذب ہوئی تو پھر وہ اپنا وجود اس کی پلکوں پر مزید نہ سمیٹ سکا اور بےبس و مجبور ہوکر اس کے سامنے پڑی ہوئی مرمت طلب گھڑی پر
خدا کا بت
اور جب آگ کے شعلے ہوا میں اٹھنے لگے اور سیاہ دھوئیں کے مرغولے آزر کے جلتے ہوئے بدن کے گرد ناچنے لگے تو نہ جانے کیوں آسمان بلک بلک کر رونے لگا اورپھر وہ منہہ برسا کہ جلتے ہوئے آزر کی لاش پانی سے بھیگ گئی۔ آگ تو بجھ گئی مگرپھر دھواں ا ٹھنے لگا۔۔۔ دھواں
فرشتے کے آنسو
چھت کے کونے پہ مکڑی کے جال میں پھنسی ہوئی ایک مکھی اپنی زندگی کی آخری لڑائی لڑ رہی تھی اور فرش پر بیٹھا ہوا ایک فرشتہ جس کا کل وجود محض ایک قلم اور دوات تھا، اسے تک رہا تھا۔ میز کے کونے پہ پڑی دوا ت اور اس میں ڈوبا ہوا قلم۔۔۔ کمرے کے کسی مکیں کے وہم
پہلا پیار
کہتے ہیں جس دن پہلی بار رحیم داد کو ماسٹر شریف نے چمکار کر گود میں بٹھایا تھا اسی دن رحیم داد سات سے سترہ سال کا ہو گیا تھا، اسی رات اس کے خواب میں ایک ساتھ بہت سے اژدھے اسے ڈسنے چلے آئے تھے۔ ہر اژدھا لمحے بھر میں ماسٹر شریف کی شکل جیسابن جاتا تھا۔۔۔
کوڑے، جو درد سے چیختے تھے
ہوا تھوڑی سی سرسرائی اور پھر یک لخت ان گنت ریزوں میں بٹتی چلی گئی۔ بکھرے ہوئے ریزے لمحے بھر کے لیے انگاروں کی طرح د ہکنے لگے مگر پھر جلد ہی خود اپنے آپ میں جل کر بھسم ہو نے لگے اور باقی بچنے لگا کچھ ملگجا سا دھواں، جو تماشہ دیکھنے والوں کی آنکھوں کو
میوٹیشن
کوئی کچھ بھی کہے مگر سچ تو یہی تھا کہ اس میں علی بخش کا کچھ بھی قصور نہیں تھا وہ تو اور مردوں کی طرح اپنے باپ کے Y کر وموسوم اور ماں کے X کروموسوم سے ملکر ہی بنا تھا۔ خلیوں کی تقسیم بھی درست تھی اور نیوکلیس کے ملاپ بھی۔ جینز (Genes) کی تر تیب بھی سہی