چودھری محمد علی ردولوی کے افسانے
تیسری جنس
اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور ایک غریب ماں باپ کی بیٹی کی کہانی جو ایک بہتر زندگی کی تلاش میں تھی۔ وہ تحصیلدار صاحب کے زیر سایہ پلی بڑھی تھی۔ جوانی کے ابتدائی ایام میں اس کی شادی ہوئی تو کچھ عرصہ شوہر کے ساتھ رہنے کے بعد اس نے اسے بھی چھوڑ دیا، پھر تحصیلدار صاحب کی موت ہو گئی۔ بعد میں ایک مردوں جیسی قدوقامت کی عورت اس کے گھر میں رہنے لگی اور لوگوں کے درمیان ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں۔
میٹھا معشوق
یہ اس وقت کی کہانی ہے جب ریل ایجاد نہیں، ہوئی تھی لوگ پیدل،اونٹ یا پھر گھوڑوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ لکھنئو شہر میں ایک شخص پر مقدمہ چل رہا تھا اور وہ شخص شہر سے کافی دور رہتا تھا۔ مقدمے کی تاریخ پر حاضر ہونے کے لیے وہ اپنے قافلے کے ساتھ شہر کے لیے روانہ ہو گیا، ساتھ میں نذرانے کے طور پر میٹھائی کا ٹوکرا بھی تھا۔ پورے راستے اس میٹھے معشوق کی وجہ سے انھیں کچھ ایسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ آرام سے سو تک نہیں سکے۔
دور کا نشانہ
افسانہ ایک ایسے منشی کی داستان کو بیان کرتا ہے جو اپنی ہر خواہشات کو بصد شوق پورا کرنے کا قائل ہے۔ اس کا کامیاب کاروبار ہے اور چوک جو کہ بازار حسن ہے، تک بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ایسے میں اس کی ملاقات ایک طوائف سے ہو جاتی ہے۔ ایک روز وہ طوائف کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک پولیس والے نے اس کے آدمی کے ساتھ مارپیٹ کرلی۔ طوائف چاہتی ہے کہ منشی باہر جائے اور وہ اس پولیس والے کو سبق سکھائے، لیکن منشی جی کی سرد مہری دیکھ کر وہ ان سے خفا ہو جاتی ہے۔
روزہ خور کی سزا
ایک ایسے شیخ صاحب کی کہانی ہے جن کا ہڈیوں کا کاروبار تھا۔ کچھ پرانی کتابوں کی وجہ سے ان کے کئی پڑھے لکھے لوگوں سے مراسم ہو گئے تھے۔ انھیں میں سے ایک نے شیخ صاحب کو بتایا کہ فلاں شخص کہتا ہے کہ اس کی کوئی چیز آپ کے پاس رہن ہے، اگر آپ اسے دے دیں گے تو اسے کچھ سو روپوں کا فائدہ ہو جائیگا۔ شیخ نے اپنے دوست کی بات مان کر اس شخص کو بلا بھیجا، لیکن وہ شخص اکیلا نہیں آیا، اس کے ساتھ ایک دوسرا شخص بھی تھا، جس نے سب کے سامنے شیخ صاحب کی حقیقت بیان کر دی۔
عشق بالواسطہ
افسانے میں ایک بے میل محبت کی عکاسی کی گئی ہے جس میں سیاست، فلسفہ اور اس کے ساتھ ہی مرد کی زندگی میں عورت کی مداخلت پر تبصرہ ہے۔ ایک پارٹی سے واپس آنے کے بعد وہ دونوں جج صاحب کے ہاں تشریف لے گیے، وہاں جج صاحب تو نہیں ملے لیکن ایک نئی خاتون ضرور ملی۔ وہ نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھی، وہ اسکے ساتھ گھومنے نکل گئے۔ یہ تفریح ایک نظریات میں شامل ہونے کا اشارہ تھا۔
گناہ کا خوف
مختاری کے پیشے میں مشہور ایک ایسے شخص کی کہانی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر انھوں نے بیرسٹر کا امتحان پاس کر لیا ہوتا تو ہائی کورٹ کے سب سے بہترین وکیل ہوتے۔ انھوں نے اپنے پیشے سے دولت شہرت سب کچھ حاصل کی، سیاست میں بھی ہاتھ آزمایا۔ انھوں نے نیا گھر بنایا۔ ایک روز انکا دوست ایک طوائف کی بیٹی کو ان کےنئے مکان پر لے آیا، چونکہ مذہبی قسم کے آدمی تھے اسلیے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ابھی اس گھر میں میلاد شریف نہیں ہوا ہے۔