داؤد محسن کے افسانے
نصیب اپنا اپنا
ہماری قسمت میں عیش و عشرت کہاں؟ بس گھٹ گھٹ کر جینا لکھا ہے۔ جب سے شادی ہوئی ہے ہماری قسمت پھوٹی ہے۔ وہی کھانا پکانا، جھاڑو دینا، برتن اور کپڑے دھونا۔ آدھی زندگی تو باورچی خانے میں گذر جاتی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ بچے بھی پیدا کریں اور ان کی پرورش بھی کریں۔
بھوک
اتوار کا دن تھا۔ سہ ستارہ انٹر نیشنل ہوٹل میں ایک تقریب میں شرکت کر کے دوستوں سے گپ شپ کرنے کے بعد تقریباً ڈھائی تین بجے گھر پہنچا۔ ہمارے یہاں آدھا دن گذرنے کے بعد اردو اخبارات کا منہ دکھائی دیتا ہے۔ آج کا تازہ اخبار باسی خبریں لئے میز پر منتظر تھا۔
اجنبی
اجنبی کی رخصتی کے بعد اس نے باہر جھانک کر دیکھا شام رات کے گلے مل رہی تھی۔ اسٹریٹ لائیٹس بلا غرض اپنی روشنی بکھیر رہے تھے۔ جن کے اطراف ٹڈے اڑ رہے تھے۔ اس نے دروازہ بند کر لیا اور پھر آکر وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے ذہن میں اجنبی سے متعلق سوالات کا ایک
اشکوں کی بارات
زینت کی زندگی پھر ایک بار جہنم بن گئی جب سے اس پر اکمل کا کالا سایہ پڑا تھا وہ اندر ہی اندر پگھلنے لگی۔ ستم ظریفی کی بارش میں وہ شب و روز بھیگنے لگی۔ کیونکہ غریبی کا ناگ پھن پھیلائے پھر سے کھڑا تھا۔ اپنوں کی بے مروتی اور ان کی لعن و طعن اس کی راہ میں
سناٹے بول اٹھے
تھوڑی ہی دیر میں افواہ جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے فساد شروع ہو گیا۔ میدان بدمعاشوں اور غنڈوں کے ہاتھوں میں آ گیا۔ گلی کوچے جہاں بھولے بھالے اور معصوم بچے، جوان، بوڑھے مرد اور عورتیں بلا تفریق مذہب و ملّت آپس میں مل جل