داؤد محسن کے افسانے
سسکتی تہذیب
برس کا آخری دن تھا۔ سورج دن بھر کا سفر طے کرکے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ دھوپ زرد اور ملائم ہو چکی تھی عمارتوں کے سائے دراز ہو چکے تھے اور ہواؤں میں ہلکی ہلکی خنکی آ چکی تھی۔ میں چائے پیتے ہوئے اخبار ہاتھوں میں تھامے تھوڑی دیر تنہا بیٹھ کر سوچنے
اجنبی
اجنبی کی رخصتی کے بعد اس نے باہر جھانک کر دیکھا شام رات کے گلے مل رہی تھی۔ اسٹریٹ لائیٹس بلا غرض اپنی روشنی بکھیر رہے تھے۔ جن کے اطراف ٹڈے اڑ رہے تھے۔ اس نے دروازہ بند کر لیا اور پھر آکر وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے ذہن میں اجنبی سے متعلق سوالات کا ایک
سناٹے بول اٹھے
تھوڑی ہی دیر میں افواہ جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے فساد شروع ہو گیا۔ میدان بدمعاشوں اور غنڈوں کے ہاتھوں میں آ گیا۔ گلی کوچے جہاں بھولے بھالے اور معصوم بچے، جوان، بوڑھے مرد اور عورتیں بلا تفریق مذہب و ملّت آپس میں مل جل
اشکوں کی بارات
زینت کی زندگی پھر ایک بار جہنم بن گئی جب سے اس پر اکمل کا کالا سایہ پڑا تھا وہ اندر ہی اندر پگھلنے لگی۔ ستم ظریفی کی بارش میں وہ شب و روز بھیگنے لگی۔ کیونکہ غریبی کا ناگ پھن پھیلائے پھر سے کھڑا تھا۔ اپنوں کی بے مروتی اور ان کی لعن و طعن اس کی راہ میں
نصیب اپنا اپنا
ہماری قسمت میں عیش و عشرت کہاں؟ بس گھٹ گھٹ کر جینا لکھا ہے۔ جب سے شادی ہوئی ہے ہماری قسمت پھوٹی ہے۔ وہی کھانا پکانا، جھاڑو دینا، برتن اور کپڑے دھونا۔ آدھی زندگی تو باورچی خانے میں گذر جاتی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ بچے بھی پیدا کریں اور ان کی پرورش بھی کریں۔