ارم زہرا کے اشعار
ارمؔ نے اس کو ڈھونڈا ہے نشیلی سرد راتوں میں
وہ آنکھوں سے رہا اوجھل دسمبر کے مہینے میں
سوچا ہی نہیں تم نے ذرا بات سے پہلے
کیوں شرط رکھی تم نے ملاقات سے پہلے
مرے الفاظ میں اس کی حلاوت ہو گئی داخل
مرے لہجہ میں شامل ہو گئی ہے گفتگو اس کی
سمندر کا کنارہ چھوڑنا آساں نہیں ہوتا
کراچی شہر کی شامیں سہانی چھوڑ آئی ہوں
ہاں بچھڑنے کا ارادہ کرنا تھا سو کر لیا
اپنے دل کا بوجھ آدھا کرنا تھا سو کر لیا
منتظر میں چاند کی اور چاند میرا منتظر
ہو نہیں سکتا اکیلے میں گزارا چاند کا
اس بار تو منصف سے کوئی چوک ہوئی ہے
کیوں جیت کا اعلان ہوا مات سے پہلے
دل کی دھرتی پر وفا کا معجزہ رکھا گیا
پھر دلوں کے درمیاں کیوں فاصلہ رکھا گیا
مرے نقش قدم پر اہل دل کا قافلہ ہوگا
میں اپنی راہ میں ایسی بغاوت چھوڑ آئی ہوں
ہمارے ظرف کا لوگوں نے امتحان لیا
ذرا سی بات کا دل میں ملال کیا رکھتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں اپنے قصر سے تنہا پرندے کی طرح نکلی
ترے دل کے لیے اپنی ریاست چھوڑ آئی ہوں
یہ زندگی تو کوئی امتحان لگتی ہے
یہ پل صراط بھی ہم نے گزر کے دیکھ لیا
اجنبی دنیا پہ میں کرتی بھروسہ کس طرح
جب یقیں نے ساتھ چھوڑا تو گماں چلتا رہا
مرے الفاظ میں اس کی حلاوت ہو گئی داخل
مرے لہجے میں شامل ہو گئی ہے گفتگو اس کی
تمہارے سنگ ہی مجھ کو ملی پرواز کی ہمت
تمہارے حوصلے کو میں نے اپنے بال و پر سمجھا
ارمؔ زہرا کتابوں سے کبھی غافل نہیں ہوتی
مری الماریوں کے سب شمارے رقص کرتے ہیں
مری سوچوں میں کوئی آ نہیں سکتا سوا اس کے
وہ میرا مان ٹھہرا اور میں ہوں آبرو اس کی
میری سوچوں پر اسی کی دسترس ہونے لگی
اس کی ساری جیت میری مات سے منسوب ہے