عوض سعید کے افسانے
دوسری موت
آج خلاف معمول ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی جوزف نے اپنے کمرے کا جائزہ لیا، ڈرائنگ روم کا چوبی دروازہ جس پر ہلکے آسمانی رنگ کا پینٹ چڑھا ہوتا تھا اس پر صلیب کے نشان کو کسی نے بے طرح کھرچ دیا تھا، عقبی کھڑکی کے دونوں شیشوں پر ہلکی ہلکی خراشیں آ گئی تھیں،
سائے کا سفر
سہ پہر کی ساعتیں تیزی سے شام کے دھندلکے میں تبدیل ہو رہی تھیں اور فضا میں ایک سوگوار سی اداسی رچی بسی تھی۔ پوسٹ مین ابھی تک نہیں آیا تھا۔ وہ بڑی بے چینی سے برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔ گذشتہ ایک ہفتے سے وہ خط کے انتظار میں اپنی سدھ بدھ کھو چکا تھا، آج اسے
بیدل صاحب
میرے مکان کے برابر بیدل صاحب کا مکان تھا، بڑا خوبصورت کشادہ سا مکان جس کی چھتیں طوفانی بارش میں بھی ٹپکتی نہ تھیں۔ باہر دروازے کی چوڑی پیشانی پر ایک سیاہ تختی جھومر ی طرح لٹک رہی تھی جس پر جلی حروف میں ’’بیدل‘‘ لکھا تھا۔ شام ہوتے ہی وہ ہاتھ میں پانوں
گنبدِ بے در
پروفیسر اکرام نے خودکشی کر لی! یہ ایک ہولناک خبر کسی بہت بڑے دھماکے کی طرح اس کے کانوں سے ٹکرائی، وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ڈرائینگ روم کی کھڑکی کے قریب آ کر ٹھہر گئی۔ وہ گزرتے جاڑوں کی ایک طویل خوبصورت رات تھی، سرما کی برفیلی ہوائیں سائیں سائیں
گلاب اور صلیب
آج بھی نکڑ سے لاؤڈ اسپیکر کی کریہہ آواز بد دستور آ رہی تھی اور وہ آواز کے اس جادو سے کچھ ایسا بے خبر بھی نہیں تھا، وہ جانتا تھا کہ آواز کے تصادم سے کبھی کلیاں کھِل اٹھتی ہیں اور کبھی آگ کے شعلے۔ ’’یہ سب بکواس ہے۔‘‘ وہ جیسے منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔ اس
ریت کے محل
وہ عجیب آدمی تھا۔ اس کے جسم کے سارے کل پرزے مضحکہ خیز حد تک بگڑے ہوئے تھے، موٹی موٹی ابھری ابھری سی آنکھیں باہر یوں نکل آئی تھیں جیسے کسی نے اس کا گلا دبا کر چھوڑ دیا ہو۔ کدو کی طرح لمبوترا سر، دبی دبی سی پیشانی، چپٹی سی ناک، ہونٹ بھی عجیب طرح کے،