فہیم اعظمی اردو کی چند ایسے ادبا میں شمار کئے جاتے ہیں جنھوں نے شاعری ، ناول نگاری کو نئی حسیت سے متعارف کروایا۔ وہ ادبی جریدے " صریر" ( کراچی) کے مدیر بھی تھے۔ اس رسالے کو یہ امتیاز اور خلیقہ حاصل ہے کے انھوں نے اردو میں نئے ادبی تنقیدی نظریات کو بڑی ہمت کے ساتھ قلم ھی نہیں اٹھایا بلکہ دوسرے لکھنے والوں کو بھی " صریر" میں جگہ دی۔اوراس پر مباحث کیں۔ کچھ ایسے ادبی نظریات کو اردو میں متعارف کروایا جس کو اردو میں اس سے پہلے موضوع بحث نہیں بنایا گیا تھا۔انھوں نے جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیات، قاری کی اساس تنقید، تخلیق اور قاری کے رشتے، افارازم، مغرب اور مشرق میں ادب کی اساس،اور اس کے علاوہ اردو کی لسانی تشکیلات اور اس کے عمرانیاتی مسائل پر جم کر لکھا ہے۔ اس نمبر میں میں فہیم اعظمی کے چند ان اراریوں کو بھی شامل کیا گیا ھے۔ جو متنازعہ بھی ہیں اور نئی فکری رویوں کو بھی دریافت کرتے ہیں۔ جتے وہ سچے اور کھرے انسان تھے وہ اتنے ھی کھرے اصولوں کے ساتھ " صریر" نکالتے تھے۔وہ ایک وسیع النظر اور وسیع مطالعہ انسان تھے۔ " صریر کا ڈاکٹر فہیم اعظمی نمبر" ان کی شخصیت کے علاوہ جدید نظریات اور تنقید پر محاکمہ بھی ھے۔
فہیم اعظمی کا اصل نام سید باقر رضوی تھا۔ پیار سے انھیں گھر والے اور قریبی دوست " دلارے میاں‘ کہتے تھے ۔ 1935ء میں ، چماوان، ضلع اعظم گڑھ، اتر پردیش، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے۔ تعلیم اعظم گڑھ، الہ آباد، لاہور اور کراچی میں حاصل کی۔ پاکستانی فصائیہ میں ملازمت کی۔ ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم رہے۔ وہ ممتاز اردو نقاد اور استاد سجاد باقر رضوی (1995ء میں انتقال ہوا) ان کے چھوٹے بھائی تھے۔۔ ہندوستان میں فہیم اعظمی کے چچا زاد بھائی مہدی اعظمی اور بھتیجے شعور اعظمی اردو زبان و ادب کی خدمت میں مشغول ہیں. اللہ اس خانوادے کو مزید عزت و احترام عطا فرمائے. آمین۔ فہیم اعظمی کا انتقال 14 جولائی 2004ء میں کراچی کے محلے انچولی، بلاک 20 فیڈرل بی ایریامیں میں ہوا۔
تصانیف:
"بہت دیر ھوچکی" (ناول)
"ڈسٹی نیشن مین ھول" (ناول)
" آرتمس کے بھول‘ (کہانیاں)
"شوق مفضل" (شاعری)
"رائدیں جدیدیت" (شخصیات، نظریہ اور تنقید)