فیاض احمد کے افسانے
بس کا سفر
بس میں سفر کرنے کا ایک الگ ہی مزہ ہے۔ ہر وقت ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک دن میں نے بس لی۔ کنڈکٹر سے دس روپے کا ٹکٹ مانگا۔ کنڈکٹر دیکھنے میں موٹا تگڑا تھا، اس کی توند باہر کو نکلی ہوئی تھی۔ چوڑی پیشانی اور آنکھوں پر پرانے زمانہ کی عینک لٹک رہی
علم کی دولت
میرا نام جمشید ہے۔ مجھے یہ نام بہت مشکل سے ملا ہے۔ ابو میرا نام ’مصلح الدین‘ رکھنا چاہتے تھے اور امی ’مطیع الدین‘ دادی جان کہتی ہیں کہ میرا عقیقہ صرف اس لیے نہیں ہو سکا کیونکہ میرے نام پر اتفاق نہیں ہو پایا تھا۔ ابو نام بدلنے کو تیار نہیں تھے اور امی
الزام
جنگل سے چوہوں کی فوج شہر کی طرف بھاگ رہی تھی۔ چاروں طرف افراتفری کا عالم تھا۔ کوئی چوہا کچھ بھی بتانے کی حالت میں نہیں تھا۔ سب کو اپنی جان کی فکر تھی۔ اس سے پہلے چوہوں کو ایسی کیفیت سے گزرنا نہیں پڑا تھا۔ سبھی آرام سے جنگل میں گزر بسر کر رہے تھے۔ شہر
زبان کردار کا آئینہ
پرانے زمانے کی بات ہے۔ کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا۔ وہ بہت شریف اور رحم دل تھا۔ ملک کی رعایا اپنے بادشاہ سے تو بہت خوش تھی مگر وزیروں اور سپاہیوں سے بہت پریشان تھی۔ بادشاہ کے پاس سب کچھ تھا پھر بھی وہ سیدھی سادی زندگی گزارتا تھا۔ ایک دن بادشاہ اپنے
خوشبودار حلوہ
ریل گاڑی میں سفر کرنے کا کچھ الگ ہی مزہ ہوتا ہے اور ہر سفر میں کوئی نہ کوئی دلچسپ تجربہ ضرور ہوتا ہے ۔ میں نے جب جب ریل گاڑی سے سفر کیا کوئی نہ کوئی دلچسپ واقعہ ضرور پیش آیا۔ آج سے دو سال قبل میں تھری اے۔ سی۔ میں سفر کر رہا تھا۔ میرے کیبن میں ایک
انٹرویو
ایک دفتر میں نوکری کے لیے انٹرویو ہونے والا تھا۔ صبح سے ہی لوگوں کا ہجوم دفتر کے باہر جمع تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے لوگوں کا سیلاب امڈ پڑا ہو۔ کہیں پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ انور بھی انٹرویو دینے والوں میں شامل تھا۔ اس کی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی