تمام
تعارف
غزل70
نظم8
شعر182
ای-کتاب131
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 21
اقوال26
آڈیو 26
ویڈیو 36
رباعی61
قصہ21
مضمون12
گیلری 6
طنز و مزاح1
بلاگ4
دیگر
فراق گورکھپوری کے قصے
گنوار کی رائے
ایک بار فراق کچھ ہندی کے مصنفوں کی محفل میں پہنچے ادھر ادھر کی باتوں کے بعد گفتگو کا رخ ہندی اور اردو کی طرف مڑ گیا۔ ہندی کے ایک ادیب نے کہا۔ ’’فراق صاحب!اردو بھی کوئی زبان ہے۔ اس میں گل و بلبل کے علاوہ اور ہے ہی کیا ! ہلکی پھلکی اور گدگدی پیدا کرنے
فراق کا اکیلا پن اور چور کی آمد
فراق صاحب کی ساری زندگی تنہائی میں گزری۔ آخری زمانے میں تو گھر میں نوکروں کے سوا اور کوئی نہیں رہتا تھا۔ کبھی کبھی تو تنہا اتنے بڑے گھر میں خاموش بیٹھے ہوئے سگریٹ پیا کرتے تھے۔خاص طورسے شام کو یہ تنہائیاں دردناک حد تک گہری ہوجاتی تھیں۔ ایک ایسی ہی
فراق کے بعد کا شاعر
ایک مشاعرہ میں فراق کے بعد سامعین کی طرف سے ایک نوجوان شاعر زبیر رضوی سے کلام سنانے کی فرمائش کی گئی۔ مشاعرے کے سکریٹری نے زبیر کو مائیک پر بلایا تو وہ نہایت نیاز مندی سے جھجکتے ہوئے کہنے لگا، ’’قبلہ! فراق صاحب کے بعد میں کیوں کر شعر پڑھ سکتا ہوں؟‘‘ فراق
فراق کا ناڑا
ایک مشاعرے میں ہر شاعر اپنا کلام کھڑے ہوکر سنارہا تھا۔ فراق صاحب کی باری آئی تو وہ بیٹھے رہے اور مائیک ان کے سامنے لاکر رکھ دیاگیا۔ مجمع سے ایک شور بلند ہوا، ’’کھڑے ہوکر پڑھئے۔۔۔ کھڑے ہوکر پڑھئے۔‘‘ جب شور ذرا تھما تو فراق صاحب نے بہت معصومیت
ماضی پرست کی حماقت
ایک ماضی پرست ادیب کسی جگہ فخریہ انداز میں بیان کررہے تھے، ’’پچھلے دنوں اپنے مکان کی تعمیر کے لئے مجھے اپنے گاؤں جانا پڑا۔ جب زمین کھدوائی گئی تو بجلی کی تاریں دستیاب ہوئیں اور بجلی کی وہ تاریں اندازاً دو تین ہزار سال پرانی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا
فزکس میں فیل ہونا
فراق گورکھپوری آگرہ یونیورسٹی میں انٹر سائنس کے طالب عالم تھے۔ تمام مضامین میں تو وہ اچھے نمبر حاصل کرتے لیکن فزکس میں اکثرفیل ہوجاتے۔ ایک روز کالج کے پرنسپل نے انہیں بلاکر پوچھا، ’’بھئی کیا بات ہے، باقی مضامین میں تو تمہارا نتیجہ بہت اچھا رہتا ہے لیکن
قوالی اور شعر کا فرق
الہ آباد کے مشاعرے میں فراق صاحب کو اپنی عادت کے خلاف کافی دیر بیٹھنا پڑا اور دوسرے شاعروں کو سننا پڑا۔ فراق صاحب کی موجودگی میں جن شاعروں نے پڑھا وہ سب اتفاق سے پاٹ دار آواز اور گلے باز تھے۔ وہ باری باری آئے اور پھیکی غزلوں کو سرتال پرگا کر چلے گئے۔
فراق اور جھا صاحب
الہ آباد یونیورسٹی میں کچھ لوگ فراق اور ڈاکٹر امرناتھ جھاکو لڑانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ ایک بار ایک محفل میں فراق اور جھا دونوں موجود تھے۔ دونوں کو تقریر بھی کرنا تھا۔ انگلش ڈپارٹمنٹ کے ایک لکچرر نے جس کی مستقلی کا معاملہ زیر غور تھا، کہنا شروع کیا
کس سے جھگڑیں؟
فراق صاحب جب پاکستان کے دورے سے واپس آئے جہاں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی تھی، تو کچھ لوگ ان سے ملنے آئے۔ اس زمانے میں دونوں ملکوں میں آمدورفت پر بڑی پابندیاں تھیں اور لوگ ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کے بڑے خواہشمند رہتے تھے۔ فراق صاحب نے ان لوگوں کو پاکستان
مسٹر دارو والا
ایک دفعہ سفر میں فراق صاحب کے ساتھ ایک پارسی نوجوان مسٹر دار و والا بھی اتفاق سے اسی کمپارٹمنٹ میں تھے۔ راستے بھر دلچسپ باتیں ہوتی رہیں۔ الہ آباد کا اسٹیشن آیا تو فراق صاحب اترنے کی تیاری کرنے لگے۔ مسٹر دارووالا نے کہا کہ وہ ان کے گھر آکر ان سے تفصیلی
کلی کا چٹکنا اور جوتی کا چٹخنا
ایک بے تکلف محفل میں مجنوں گورکھپوری نے فراق صاحب سے پوچھا، ’’چٹکنا، اور چٹخنا، میں کس کا استعمال کہاں کرنا مناسب ہے؟‘‘ فراق صاحب نے پہلے تو قہقہہ لگایا پھر بولے، ’’چٹکتی ہے کلی اور جوتیاں چٹخائی جاتی ہیں۔‘‘
پنشن یافتہ معشوق
فراق صاحب اور ساحر ہوشیارپوری ایک ساتھ امرتسر کے ایک ہوٹل میں پہنچے۔ ساحرنے ہوٹل کا رجسٹر بھرنا شروع کیا۔ فراق صاحب پاس کی ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ ساحرصاحب پیشہ کے خانہ پر پہنچے تو فراق صاحب کی طرف مڑکر بولے، ’’کیوں صاحب، میں اپنا پیشہ کیا لکھ دوں؟‘‘ ’’معشوق
مانگے کے پیسوں سے تواضع
ایک ترقی پسند شاعر جو شراب کے بے حد رسیا تھے، فراق صاحب کے گھر پہنچے اور پریشان حال صورت بناکر بولے، ’’فراق صاحب ! بات عزت پر آگئی ہے میں بہت پریشان ہوں۔ کسی طرح تیس روپیہ ادھار دے دیجیے۔‘‘ فراق صاحب کچھ کہنے والے تھے کہ وہ بولے، ’’دیکھیے انکار
اکائی، دہائی، سینکڑہ، ہزار، دس ہزار
بشیر بدرنے اپنا شعری مجموعہ ’’اکائی‘‘ اس التماس کے ساتھ فراق صاحب کو بھیجا کہ وہ اپنی گراں قدر رائے سے نوازیں۔ فراق صاحب نے اپنی رائے لکھی، ’’اکائی، دہائی، سینکڑہ، ہزار، دس ہزار‘‘ آپ کا فراق گورکھپوری
شیطان بولتا ہے
تقریباً 1944ء میں ایک بار جوش الہ آباد یونیورسٹی گئے۔ ادبی تقریب میں ڈائس پر جوش کے علاوہ فراق بھی موجود تھے۔ جوش نے اپنی طویل نظم ’’حرف آخر‘‘ کا ایک اقتباس سنایا۔ اس میں تخلیق کائنات کی ابتداء میں شیطان کی زبانی کچھ شعر ہیں۔ جوش شیطان کے اقوال پر مشتمل
شاعر بدکردار کیوں؟
ڈاکٹر اعجاز حسین الہ آباد یونیورسٹی میں غزل پڑھا رہے تھے۔ فراق صاحب بھی وہاں بیٹھے تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر اعجاز حسین سے سوال کیا۔ ’’ایسا کیوں کہا جاتا ہے کہ غزل گو شعراء عام طور سے بد کردار ہوتے ہیں۔‘‘ اعجاز صاحب برجستہ بولے، ’’ان کے سامنے آپ کی مثال
پروفیسر پجاری کی دنیاداری
یونیورسٹی کے ایک پروفیسربہت زیادہ پوجاپاٹ کرتے تھے مگر دنیوی ترقی کے پیچھے پاگل بھی تھے۔ ایک دن فراق صاحب کو شرارت سوجھی اور ٹہلتے ٹہلتے ان کے گھر پر پہنچ گئے۔ دستک دی تو نوکر برآمد ہوا۔ فراق صاحب نے پوچھا، ’’پروفیسر صاحب ہیں؟‘‘ نوکر نے کہا، ’’ہیں‘‘
کلومیٹر کا زمانہ
کانپور کے ایک مشاعرے میں جب ایک شاعر اپنا کلام پڑھ رہے تھے تو نشور واحدی نے ٹوکا، ’’شعر میٹر سے بے نیاز ہیں۔‘‘ فراق نے جواب دیا، ’’پڑھنے دو، یہ زمانہ میٹر کا نہیں، کلومیٹر کا ہے۔‘‘
خالص گھی کا پکوان
ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد الہ آباد میں فراق گورکھپوری کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب کھانا لایا گیا تو فراق نے آزاد سے مخاطب ہوکر کہا، ’’کھایئے آزاد صاحب! نہایت لذیذ گوشت ہے۔‘‘ آزاد نے مذاق سے کام لیتے ہوئے ایک عام سا فقرہ چست کردیا۔ ’’آپ کھائیے، ہم تو روز