غوث سیوانی کے مضامین
حضرت امیر خسرو دہلوی
کہاجاتا ہے کہ ایک مرتبہ امیرخسرو، اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ ان کی شاعری میں وہ شیرینی آجائے جو بے مثال ہو۔ مرشد نے اپنے فرمانبردار مرید کی عرض داشت سنی اور ارشاد ہوا کہ کھاٹ کے نیچے شکر رکھی ہوئی
تصوف کیا ہے اور صوفی کون ہے؟
رم جھم بارش کے بعد جیسے ہی دھوپ نکلی میں گھر سے باہر آگیا۔ نرم، سبز گھاس پر موتیوں کی سفید بے ترتیب لڑیاں بکھری پڑی تھیں۔ میں نے چاہا انھیں اپنی ہتھیلیوں میں سمیٹ لوں مگر وہ بکھر گئے۔ بہت دیر تک میں اس کے لئے کوشاں رہا مگر کچھ حاصل نہ ہوااور ایک بھی
عہد حاضر کے مسائل اور صوفیہ کا پیام امن
تصوف دنیا کو امن، عدم تشدد اور محبت و بھائی چارہ کا درس دیتا ہے۔ صوفیہ نے پوری دنیا کو محبت کا پیغام دیا۔ ان کا اخوت ومحبت کا پیغام آج بھی بامعنیٰ ہے جودلوں کو جوڑنے کا کام کرسکتا ہے۔ تصوف کی سب سے بنیادی تعلیم ہے کہ انسان اپنے خالق ومالک سے ایساروحانی
خطاطی کا فن، ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی وراثت
ہندستانی خطاطی یا INDIAN CALIGRAPHY کی لگ بھگ ایک ہزار سال کی تاریخ ہے۔ بھارت میں رہنے والوں کے آباء واجداد مختلف ملکوں سے آئے تھے اسلئے وہ اپنے ساتھ مختلف تہذیبیں اور مختلف علوم و فنون لے کر آئے تھے۔ ہندستانی خطاطی بھی ایک ایسا ہی فن ہے، جواگرچہ
قوالی کا فن ہندوستانی تہذیب کی وراثت
بھارت اور پاکستان میں قوالی کے فن کو مقبولیت حاصل رہی ہے اور بہت سی قوالیاں یہاں مقبول عام ہوچکی ہیں۔ حضرت امیر خسروؔ کی طرف منسوب ’’چھاپ تلک سب چھینی رے‘‘ ’’اے ری سکھی ری مورے خواجہ گھر آئے‘‘ سے لے کر ’’بھردو جھولی مری یامحمد‘‘ ’’سجدے میں سر کٹادی
مہابھارت کے قدیم عربی فارسی ترجمے
ہندوستان ایک قدیم تہذیبی ملک ہے جو ہزارہا سال کے تمدنی آثار رکھتا ہے۔ یہاں اہل عرب کی آمد اسلام سے بہت پہلے سے جاری ہے اور بھارت کے لوگ بھی عرب اور وسط ایشیا کے ملکوں میں صدیوں سے آناجانا کررہے ہیں۔ موجودہ ہندوستانیوں کے خون میں جس طرح بیرون ملک
اردو شاعری میں ہولی کے رنگ
جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی پریوں کے رنگ دمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی خم، شیش، جام چھلکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی جب ہندوستانی تیج تیوہاروں کے حوالے سے اردو شاعری پر
اردو شاعری میں دیوالی کی پھلجھڑیاں
بھارت میں منائے جانے والے تمام تہواروں میں دیپائولی۔ سماجی اور مذہبی دونوں نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ .اسے دیپ اتسو بھی کہتے ہیں۔ اسے ہندووں کے ساتھ ساتھ سکھ، بودھ اور جین مذہب کے لوگ بھی مناتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ دیوالی کے دن ایودھیا
اردو شاعری میں ہندو فلسفہ و اعتقاد کا رنگ
اردو کا جنم ہی مختلف تہذیبوں اور زبانوں کے ملاپ سے ہوا ہے، لہٰذایہاں سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا کہ ایک کثیر جہاتی معاشرے میں جنم لینے والی زبان میں ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کو قرآن کی فضیلت پر نظمیں ملتی ہیں تو دوسری طرف آپ کو وید، پران اور گیتا کی عظمت پر
اردو شاعری میں شیام رنگ
اردو زبان پر کسی خاص تہذیب، علاقہ اور مذہب کی اجارہ داری نہیں۔ یہ مختلف زبانوں کے الفاظ اور مختلف تہذیبی عناصر کے اختلاط سے وجود میں آئی ہے لہٰذا اس کا رنگ وآہنگ ہی الگ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اردو زبان میں جس طرح اسلامیات پر مضامین ملتے ہیں اسی طرح دوسرے
ہندوستانی صوفیہ کا ذوق موسیقی
اس غیرت ناہید کی ہرتان ہے دیپک شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو ساز و آواز اورشاعری کا حسین سنگم کسی بھی حساس انسان کے حسِ لطیف کو بے خود کرسکتا ہے۔ اعضا میں لرزش، جسم میں جنبش، خون میں تپش اور دل میں خلش پیدا کرسکتا ہے۔ ایک ذی شعور کو سرمست