Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ibn e Insha's Photo'

ابن انشا

1927 - 1978 | کراچی, پاکستان

ممتاز پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ کل چودھویں کی رات تھی‘ کے لئے مشہور

ممتاز پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ کل چودھویں کی رات تھی‘ کے لئے مشہور

ابن انشا کے اقوال

924
Favorite

باعتبار

سچ یہ ہے کہ کاہلی میں جو مزہ ہے وہ کاہل ہی جانتے ہیں۔ بھاگ دوڑ کرنے والے اور صبح صبح اٹھنے والے اور ورزش پسند اس مزے کو کیا جانیں۔

اوسط کا مطلب بھی لوگ غلط سمجھتے ہیں۔ ہم بھی غلط سمجھتے تھے۔ جاپان میں سنا تھا کہ ہر دوسرے آدمی کے پاس کار ہے۔ ہم نے ٹوکیو میں پہلے آدمی کی بہت تلاش کی لیکن ہمیشہ دوسرا ہی آدمی ملا۔ معلوم ہوا پہلے آدمی دور دراز کے دیہات میں رہتے ہیں۔

کسی دانا یا نادان کا مقولہ ہے کہ جھوٹ کے تین درجے ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار۔

دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آرہی ہے کہ انڈا پہلے یا مرغی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں انڈا۔ کچھ کا کہنا ہے مرغی۔ ایک کو ہم مرغی اسکول یا فرقہ مرغیہ کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے کو انڈا اسکول۔ ہمیں انڈا اسکول سے منسلک سمجھنا چاہیے۔ ملت بیضا کا ایک فرد جاننا چاہیے۔ ہمارا عقیدہ اس بات میں ہے کہ اگر آدمی تھانے دار یا مولوی یعنی فقیہ شہر ہو تو اس کے لیے مرغی پہلے اور ایسا غریب شہر ہو تو اس کے لیے انڈا پہلے اور غریب شہر سے بھی گیا گزرا ہو تو نہ اس کی دسترس مرغی تک ہوسکتی ہے نہ انڈا اس کی گرفت میں آسکتا ہے۔ اسے اپنی ذات اور اس کی بقا کو ان چیزوں سے پہلے جاننا چاہیے۔

بٹن لگانے سے زیادہ مشکل کام بٹن توڑنا ہے۔ اور یہ ایک طرح سے دھوبیوں کا کاروباری راز ہے۔ ہم نے گھر پر کپڑے دھلواکر اور پٹخوا کر دیکھا لیکن کبھی اس میں کامیابی نہ ہوئی جب کہ ہمارا دھوبی انہی پیسوں میں جو ہم دھلائی کے دیتے ہیں، پورے بٹن بھی صاف کرلاتا ہے۔ ایک اور آسانی جو اس نے اپنے سرپرستوں کے لیے فراہم کی ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے چھوٹے بیٹے کو اپنی لانڈری کے ایک حصے میں بٹنوں کی دکان کھلوادی ہے جہاں ہر طرح کے بٹن بارعایت نرخوں پر دستیاب ہیں۔

جب کوئی چیز نایاب یا مہنگی ہوجاتی ہے تو اس کابدل نکل ہی آتا ہے جیسے بھینس کانعم البدل مونگ پھلی۔ آپ کو تو گھی سے مطلب ہے۔ کہیں سے بھی آئے۔ اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ ہمارے ہاں بکرے اور دنبے کی صنعت بھی قائم ہو۔ آپ بازار میں گئے اور دکاندار نے ڈبا کھولا کہ جناب یہ لیجیے بکرا اور یہ لیجیے پمپ سے ہوا اس میں خود بھر لیجیے۔ کھال اس بکرے کی کیریلین کی ہے۔ اور اندر کمانیاں اسٹین لیس اسٹیل کی۔ مغز میں فوم ربڑ ہے۔ واش اینڈ ویر ہونے کی گارنٹی ہے۔ باہر صحن میں بارش یا اوس میں بھی کھڑاکر دیجیے تو کچھ نہ بگڑے گا۔ ہوا نکال کر ریفریجریٹر میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔ آج کل قربانی والے یہی لے جاتے ہیں۔

ایک زمانے میں اخباروں سے صر ف خبروں کا کام لیا جاتا تھا۔ یا پھر لوگ سیاسی رہنمائی کے لیے انہیں پڑھتے تھے۔ آج تو اخبار زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ سیٹھ اس میں منڈیوں کے بھاؤ پڑھتا ہے۔ بڑے میاں ضرورت رشتہ کے اشتہارات ملاحظہ کرتے ہیں اور آہیں بھرتے ہیں۔ عزیز طالب علم فلم کے صفحات پر نظر ٹکاتا ہے اور علم کی دولت نایاب پاتا ہے۔ بی بی اس میں ہنڈیا بھوننے کے نسخے ڈھونڈتی ہے اور بعض لوگوں نے تو اخباری نسخے دیکھ دیکھ کر مطب کھول لیے ہیں۔ پچھلے دنوں عورتوں کے ایک اخبار میں ایک بی بی نے لکھ دیا تھا کہ پریشر ککر تو مہنگا ہوتا ہے اسے خریدنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کام بہ خوبی ڈالڈا کے خالی ڈبہ سے لیا جاسکتا ہے۔ کفایت شعار بیویوں نے یہ نسخہ آزمایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کئی زخمی ہوئیں اور ایک آدھ بی بی تو مرتے مرتے بچی۔

ایک زمانہ تھا کہ ہم قطب بنے اپنے گھر میں بیٹھے رہتے تھے اور ہمارا ستارہ گردش میں رہا کرتا تھا۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم خود گردش میں رہنے لگے اور ہمارے ستارے نے کراچی میں بیٹھے بیٹھے آب و تاب سے چمکنا شروع کردیا۔ پھر اخبار جنگ میں ’’آج کا شاعر‘‘ کے عنوان سے ہماری تصویر اور حالات چھپے۔ چونکہ حالات ہمارے کم تھے لہٰذا ان لوگوں کو تصویر بڑی کراکے چھاپنی پڑی اور قبول صورت، سلیقہ شعار، پابند صوم و صلوٰۃ اولادوں کے والدین نے ہماری نوکری، تنخواہ اور چال چلن کے متعلق معلومات جمع کرنی شروع کردیں۔ یوں عیب بینوں اور نکتہ چینیوں سے بھی دنیا خالی نہیں۔ کسی نے کہا یہ شاعر تو ہیں لیکن آج کے نہیں۔ کوئی بے درد بولا، یہ آج کے تو ہیں لیکن شاعر نہیں۔ ہم بددل ہوکر اپنے عزیز دوست جمیل الدین عالی کے پاس گئے۔ انہوں نے ہماری ڈھارس بندھائی اور کہا دل میلا مت کرو۔ یہ دونوں فریق غلطی پر ہیں۔ ہم تو نہ تمہیں شاعر جانتے ہیں نہ آج کا مانتے ہیں۔ ہم نے کسمساکر کہا، یہ آپ کیا فرمارہے ہیں؟ بولے، میں جھوٹ نہیں کہتا اور یہ رائے میری تھوڑی ہے سبھی سمجھ دار لوگوں کی ہے۔

ایک جنتری خرید لو اور دنیا بھر کی کتابوں سے بے نیاز ہو جاؤ۔ فہرست تعطیلات اس میں، نماز عید اور نماز جنازہ پڑھنے کی تراکیب، جانوروں کی بولیاں، دائمی کیلنڈر، محبت کے تعویذ، انبیائے کرام کی عمریں، اولیائے کرام کی کرامتیں، لکڑی کی پیمائش کے طریقے، کون سادن کس کام کے لیے موزوں ہے۔ فہرست عرس ہائے بزرگانِ دین، صابن سازی کے گر، شیخ سعدی کے اقوال، چینی کے برتن توڑنے اور شیشے کے برتن جوڑنے کے نسخے، اعضاء پھڑکنے کے نتائج، کرۂ ارض کی آبادی، تاریخ وفات نکالنے کے طریقے۔

بٹن لگانے سے زیادہ مشکل کام بٹن توڑنا ہے۔ اور یہ ایک طرح سے دھوبیوں کا کاروباری راز ہے۔

ہمارے خیال میں اخباروں کے ڈائجسٹ بھی نکلنے چاہئیں کیونکہ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ بارہ بارہ چودہ چودہ صفحے پڑھے۔ لوگ تو بس توس کاٹکڑا منہ میں رکھ، چائے کی پیالی پیتے ہوئے سرخیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ بڑا اخبار نکالنے کے لیے یوں بھی لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں۔ ہمارا ارادہ ہے کہ ’’سرخی‘‘ کے نام سے ایک روزنامہ نکالیں اور پبلک کی خدمت کریں۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے