ابن منیب کے افسانے
بوجھ
مجھے روز ایک ہی خواب آتا ہے۔ میں چیونٹی ہوں اور ایک بھاری بوجھ اٹھائے ایک تنگ راستے پر چڑھائی چڑھ رہا ہوں۔ راستے کے دونوں طرف گہرائی ہے۔ مجھے نیچے نظر نہیں آتا۔ کوئی پھونک مارتا ہے۔ میرے قدم اکھڑ جاتے ہیں۔ میں بوجھ سمیت گہرائی میں گرتا ہوں۔ مگر مجھے
چور
اسے پتا تھا کہ آج وہ پکڑا جائےگا۔ آنے والی مشکل کی بُو ہوا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ صبح سویرے گھر سے نکلنا اور پھر گھنٹوں بعد لوٹنا اب اس کی عادت بن چکی تھی۔ مگر شاید آج کسی نے اس کا پیچھا کاٹ تھا۔ اور یہ عادت؟ یہ عادت اسے پڑی کیسے؟ پہلے
تعویذ
“مولوی صاحب، کوئی ایسا تعویذ لکھ دیں کہ میرے بچے رات کو بھوک سے رویا نہ کریں۔” مولوی صاحب نے تعویذ لکھ دیا۔ اگلے ہی روز کسی نے پیسوں سے بھرا تھیلا گھر کے صحن میں پھینکا۔ شوہر نے ایک دکان کرائے پر لے لی۔ کاروبار میں برکت ہوئی اور دکانیں بڑھتی گئیں۔
جیون راگ
صبح، آٹھ بج کر پچاس منٹ، روشنی۔۔۔ گھر کے خاموش کمرے میں ایک بڑے صوفے پر حیدر مزے سے لیٹا ایک دلچسپ ناول پڑھ رہا تھا۔ کالج سے سردیوں کی چھٹیاں تھیں اور مکمل فراغت ہونے کے باوجود وہ گھر والوں کے ساتھ گھومنے پھرنے نہیں گیا تھا۔ آخر گھر میں آرام سے ناول
مکروہ پرندہ
دادی اماں کی کہانیوں میں مکروہ پرندے کا ذکر ضرور ہوتا تھا، جس نے ساتھ والے گاوں پر آفت نازل کر رکھی تھی۔ بچوں کے اصرار پر دادی اماں نے بتایا تھا کہ مکروہ پرندے میں ایک سینکڑوں سال پرانی درندہ صفت روح بستی ہے۔ وہ روح جس نے ماضی میں قبیلے کے قبیلے اور
حرامخور
حرامخور شہر میں داخل ہو چکا تھا۔ کب اور کیسے ہوا، اس بارے میں اتفاق نہیں تھا۔ اتفاق اس بارے میں بھی نہیں تھا کہ اس کی اصل شکل و ہیئت کیا ہے۔ کہ وہ شہر میں داخل ہو چکا تھا اِس کی پہلی واضح خبر تب ملی جب بخار کی دوا پینے والے بہت سے بچے جاں بحق
مقدس لمحے
صبح چودہ اگست تھی۔ ایک عجیب سی خوشی اور انتظار اگست شروع ہوتے ہی سبھی دلوں میں پھوٹ پڑا تھا اور جوں جوں چودہ اگست قریب آ رہی تھی، بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ بے چینی کس بات کی ہے۔ بہرحال وہ خوش تھا اور دوسروں کی طرح وہ