ابن کنول کے افسانے
تیسری دُنیا کے لوگ
رات قبر کے اندھیرے کی طرح تاریک اور خاموش تھی ۔ چہار طرف مہیب سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ تھکے ہارے جسم زلفِ شب کی گھنی چھاؤں میں پناہ لے کر عالمِ خواب میں مست و سرشار تھے کہ اچانک چاروں سمتیں شفق کی طرح سرخ ہو گئیں ۔ رفتہ رفتہ وہ تمام روشنیاں نزدیک آتی
آخری کوشش
جیل کی آہنی سلاخوں کے اندر رہتے ہوئے اسے پورا ایک مہینہ ہو چکا تھا۔ اس کے بدن کا ایک ایک جوڑ درد سے کراہ رہا تھا۔ کون کون سی اذیتیں تھیں جو اسے نہ دی جا چکی تھیں۔ لیکن وہ پتھّر کا آدمی خاموش تھا۔ جیل کے حکام گرمی میں زبان نکال کر ہانپتے ہوئے کتوّں
خانہ بدوش
گذشتہ ستر سال سے بلال کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی اور اس آواز کے ساتھ وہ صلاۃ اور فلاح کی طرف دوڑ پڑتا تھا۔ پہلی اذان کی آواز اس نے اس وقت سنی تھی جب ماں کے بدن سے الگ ہو کر باپ کی گود میں آنکھیں کھولی تھیں ۔ خدا کی وحدانیت، رسول کی
اپنی آگ اپنا گھر
جوان بیٹے کا جنازہ صحن میں رکھا ہوا تھا پورے گھر میں ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ ہر چہرے پر افسوس و ملال تھا۔ عورتیں رو رو کر اپنا سر پیٹ رہی تھیں۔ ہر آنکھ نم تھی لیکن زبیدہ بالکل خاموش تھی، جس کا جوان بیٹا موت کی وادی میں کفن اوڑھے سو رہا تھا۔ اُس کی آنکھ
واپسی
پندرہ سال کی طویل مدت کے بعد جیل کے آہنی پھاٹک کی کھڑکی سے ایک بوڑھے نے نکل کر باہر کی فضا کو اس طرح اجنبی نگاہوں سے دیکھا جیسے کسی دیہاتی کو لال قلعہ کے دیوانِ عام میں چھوڑ دیا گیا ہو۔ بوڑھے کی ضعیف آنکھوں کے گرد سیاہی نمودار تھی۔ چہرے پر سیاہ اور
گرم سُوٹ
تکیہ پر نئے غلاف کی طرح وہ اپنے بدن پر نیا سوٹ چڑھا کر کمرے سے باہر آیا خوشی سے اس کی بانچھے کھلی جا رہی تھیں ۔ آج عرصۂ دراز کی آرزوئے دِلی عملی جامہ زیب تن کر کے اس کے رو برو آئی تھی ۔ اپنی بے انتہا مسرتوں کو اُچھالتے ہوئے اس نے رسوئی میں بیٹھی ہوئی
ایک ہی راستہ
وہ اندر ہی اندرآتش فشاں کی طرح پک رہا تھا اور اُس کے اندرایک اضطرابی کیفیت موجزن تھی ۔ اُس نے اپنے ذہنی اور قلبی سکون کے لیے تمام طریقے اختیار کر لیے تھے لیکن ہر بار ناکام رہا ۔ وہ بالکل مایوس ہو چکا تھا اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس عالمِ آب وگل میں چہار
ابن آدم
ہر روز کی طرح کمرے کی دیوار پر لگے ہوئے بلب کے نیچے دو موٹی موٹی چھپکلیاں بار بار منہ کھول کر بے بس کیڑوں کی نگل رہی تھیں اور وہ دونوں بھی ہر روز کی طرح اپنے تھکے ہارے جسموں کو لے کر بے جان کرسیوں پر آن پڑے تھے۔ پھر ایک نے دوسرے سے سوال کیا: ’’تم